پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں قومی کمیشن برائے اقلیتی حقوق کا منظور کیا جانا بظاہر ایک پیش رفت ہے، مگر اس پیش رفت کے اندر کئی ایسے سوال پوشیدہ ہیں جو ہماری سیاست، قوانین اور ریاستی رویوں کی گہری کمزوریوں کو بے نقاب کرتے ہیں۔ یہ بل صرف ایک کاغذی قانون نہیں، بلکہ پاکستان کے اُس دیرینہ مسئلے کا حصہ ہے جو قیامِ پاکستان سے آج تک حل نہیں ہو سکا: اقلیتوں کو برابری کے حقوق، تحفظ، نمائندگی اور آئینی ضمانت مہیا کرنا۔
قومی کمیشن برائے اقلیتوں کا قیام سپریم کورٹ کے ۲۰۱۴ء کے تاریخی فیصلے کا نتیجہ ہے، جس میں عدالت نے واضح طور پر کہا تھا کہ ریاست کی اولین ذمہ داری اقلیتوں کے جان و مال کے تحفظ اور ان کے حقوق کی پاسداری ہے۔ آج دس سال بعد یہ بل مشترکہ اجلاس میں پیش ہوا تو اِس میں حمایت بھی تھی اور مخالفت بھی، مگر اصل سوال یہ ہے کہ یہ تاخیر کیوں ہوئی؟ ریاست نے ایک دہائی تک اقلیتوں کے حقوق کے حساس معاملے کو کیوں مؤخر رکھا؟ یہ وہ بنیادی سوال ہے جس کا جواب کوئی وزیر، کوئی جماعت اور کوئی حکمران دینے کو تیار نہیں۔
قانون وزیر نے بل پیش کرتے ہوئے یقین دہانی کرائی کہ نہ تو قانون اور نہ آئین کوئی ایسی شق اجازت دیتے ہیں جو قرآن و سنت کے خلاف ہو، لیکن اصل مسئلہ یہ نہیں تھا۔ اصل مسئلہ یہ تھا کہ کچھ سیاسی جماعتیں، خصوصاً تحریک انصاف اور جمعیت علمائے اسلام، بل کی اُن شقوں سے خائف تھیں جو کمیشن کو خود مختار بنانے سے متعلق تھیں۔ انہیں نہ اس بات پر اعتراض تھا کہ اقلیتوں کی حالت بہتر ہونی چاہیے، نہ اس پر کہ انہیں تحفظ ملنا چاہیے، بلکہ اعتراض صرف یہ تھا کہ کمیشن کو کتنا بااختیار ہونا چاہیے۔
یہ وہی سیاسی رویہ ہے جو عشروں سے اقلیتوں کے بنیادی حقوق کی راہ میں رکاوٹ بنتا آیا ہے۔ سیاسی جماعتیں اصولی مؤقف کی بجائے اپنے سیاسی مفادات کو ترجیح دیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اقلیتوں کے تحفظ کے قوانین بنتے تو ہیں، مگر ان پر عمل درآمد ہمیشہ کمزور رہتا ہے۔
بحث کے دوران سب سے زیادہ اعتراض سیکشن ۳۵ اور سیکشن ۱۲ پر ہوا، جن میں کمیشن کے اختیارات کو بڑھایا گیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ اگر اقلیتوں کے حقوق کی نگرانی کے لیے بنایا جانے والا ادارہ خود مختار نہیں ہوگا، تو پھر وہ کیسے ریاستی اداروں کی نگرانی کرے گا؟ اگر کمیشن کو از خود نوٹس لینے کا اختیار نہیں ہوگا تو وہ ظلم، ناانصافی یا ریاستی بے حسی کے اُن معاملات کو کیسے اُٹھائے گا جنہیں اکثر سرکاری ادارے نظرانداز کر دیتے ہیں؟
یہ اعتراض درحقیقت اس خوف کی عکاسی کرتا ہے جو ہمارے طاقتور حلقے ہر اُس ادارے کے بارے میں رکھتے ہیں جو ان کی کارکردگی اور رویوں کا جائزہ لے۔ یہی خوف کئی دہائیوں سے ہمارے سماجی ڈھانچے کو مفلوج کیے ہوئے ہے۔
مشترکہ اجلاس میں بحث کے دوران ایک اور افسوس ناک پہلو نمایاں ہوا: اصل مسئلہ اقلیتوں کے حقوق کا تھا، مگر بات سیاسی مفادات، اختیارات اور طاقت کے کھیل کی جانب مُڑ گئی۔ یہ رویہ بتاتا ہے کہ ہمارے قانون ساز آج بھی اقلیتوں کو پاکستانی شہری نہیں بلکہ “مسئلہ” سمجھ کر بات کرتے ہیں۔ پارلیمان میں کھڑے ہو کر اقلیتوں کے حقوق پر بات کرنے کے بجائے اپوزیشن اور حکومت باہمی الزام تراشی میں مصروف رہی۔ ایک طرف حکومتی وزراء نے اقلیتوں کی تعریف، کمیشن کی ضرورت اور آئینی پس منظر بیان کیا، دوسری طرف اپوزیشن نے اسے اختیارات کی جنگ بنا کر پیش کیا۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ صدرِ مملکت نے بھی اس بل پر اعتراضات اٹھائے تھے، مگر پارلیمان میں ان اعتراضات پر سنجیدہ بحث نہ ہو سکی۔ جب آئینی منصب کا حامل صدر یہ کہے کہ کسی نئے قانون میں اقلیتوں کی تعریف پہلی بار متعین کی جا رہی ہے یا کمیشن کو ججوں کے برابر تحفظ دیا جا رہا ہے، تو کم از کم بحث ایک سنجیدہ اور متوازن انداز میں ہونی چاہیے تھی۔ مگر ہمارے قانون ساز ادارے میں نہ بحث کی گنجائش تھی نہ برداشت کی۔
یوں محسوس ہوا کہ اقلیتوں کے حقوق سے زیادہ اہمیت سیاسی کشمکش کو حاصل ہے۔
اقلیتوں کے حقوق پر بننے والا کمیشن محض رسمی ادارہ نہیں ہونا چاہیے۔ یہ اُن مسائل کو دیکھنے کے لیے بنایا جا رہا ہے جو آج بھی پاکستانی معاشرے میں ناسور کی طرح پھیل رہے ہیں۔ ہندو بچیوں کا جبری مذہب تبدیل ہونا، مسیحی بستیوں کو جلانا، مندر اور چرچ پر حملے، احمدیوں کے خلاف ریاستی و سماجی امتیاز، اور کاریگر و مزدور اقلیتوں پر روزگار کے دروازے بند ہونا — یہ سب حقیقی مسائل ہیں جن کی وجہ سے اقلیتی برادری خود کو دوسرے درجے کا شہری محسوس کرتی ہے۔
اگر کمیشن حقیقی معنوں میں آزاد نہ ہوا، اگر اس کے پاس اختیار نہ ہوا، اگر اس کی سفارشات پر عمل نہ ہوا، تو یہ ادارہ بھی اُس طویل فہرست کا حصہ بن جائے گا جس میں انسانی حقوق کمیشن، پولیس اصلاحات کمیشن، تعلیمی کمیشن اور بے شمار کاغذی ادارے شامل ہیں جن کا وجود صرف کاغذ تک محدود ہے۔
سینٹر راجہ ناصر عباس کی یہ بات کہ ملک میں بنیادی اور شہری حقوق سب سے زیادہ پامال ہو رہے ہیں، محض سیاسی بیان نہیں، بلکہ وہ تلخ حقیقت ہے جسے ہم سب جانتے ہیں لیکن آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں۔ یہ حقیقت اپنی جگہ درست ہے کہ ایک ایسے ملک میں جہاں اپوزیشن دباؤ کا شکار ہو، جہاں پارلیمان میں تنقید کو روک دیا جائے، جہاں سیاسی اختلاف کو جرم بنا دیا جائے، وہاں اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے قانون سازی کا اثر بھی محدود ہی رہے گا۔
اقلیتوں کے حقوق تب محفوظ ہوں گے جب پورا معاشرہ قانون کی حکمرانی پر کھڑا ہوگا۔ جب پارلیمان واقعی آزاد ہو گی، جب عدالتیں بلاخوف فیصلے کریں گی، جب پولیس اثرورسوخ سے آزاد ہوگی، جب مذہب کے نام پر نفرت اور سیاست دونوں پر قدغن لگے گی۔
قومی کمیشن برائے اقلیتیں اس سمت میں ایک قدم ہے، مگر یہ قدم کب مضبوط ہوگا؟ جب اس پر عمل ہوگا۔ جب حکومتیں اپنی ذمہ داری نبھائیں گی۔ جب کمیشن کی سفارشات کو فائلوں میں دفن نہیں کیا جائے گا۔ جب اقلیتوں کے بچّوں کو تحفظ، تعلیم، روزگار اور آزادیٔ اظہار کا حق حقیقی معنوں میں دیا جائے گا۔
یہ بل ایک پیش رفت ہے، مگر اگر یہ صرف خانہ پُری بن کر رہ گیا تو پاکستان کے لیے یہ بدترین دھوکا ہوگا۔ اقلیتیں محض “غیر مسلم” نہیں، وہ اس وطن کا حصہ، اس کی شہریت کا عمودی ستون، اس کے سماجی تنوع کا سرمایہ اور اس کی ترقی کی بنیاد ہیں۔
یہ بل پارلیمان سے منظور ہو چکا ہے — اب اصل آزمائش اس پر عمل درآمد ہے۔ اگر ریاست واقعی اقلیتوں کے ساتھ کھڑی ہونا چاہتی ہے تو اسے اپنے رویوں، اپنے اداروں کے کردار اور اپنی سیاسی ترجیحات کا جائزہ لینا ہوگا۔ ورنہ قانون بنانا تو آسان ہے، مگر انصاف دلانا سب سے مشکل کام— اور یہی وہ امتحان ہے جس میں ریاست اب تک ناکام رہی ہے۔
پاکستان کو اب یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اقلیتوں کے حقوق آئینی وعدہ رہیں گے یا عملی حقیقت؟ وقت گزر رہا ہے، اور اقلیتی برادری انتظار میں ہے کہ یہ ملک واقعی سب کا پاکستان بنے گا یا صرف کچھ کا۔
پارلیمان میں اس بل پر ہونے والی بحث کا سب سے افسوسناک پہلو یہ تھا کہ دائیں بازو کی مذہبی رجعت پسند جماعتوں نے ایک بار پھر اقلیتوں کے بنیادی حقوق کی مخالفت کو ’’عقیدہ‘‘ بنالیا۔ جن جماعتوں نے اس ملک میں مذہب کے نام پر سیاست کا بازار گرم کر رکھا ہے، وہی جماعتیں آئینِ پاکستان کی اُن شقوں کے خلاف کھڑی ہو گئیں جنہیں خود آئین نے اقلیتوں کی حفاظت کے لیے واجب قرار دیا ہے۔ یہ مخالفت محض سیاسی اختلاف نہیں تھی؛ اس مخالفت نے پوری ملک میں اقلیتوں پر یہ تاثر مزید گہرا کیا کہ ان کے جان و مال کے تحفظ کے سب سے بڑے دشمن وہی ہیں جو مذہب کے نام پر ووٹ لیتے ہیں۔ پاکستان میں ہندو، سکھ، مسیحی اور دیگر اقلیتیں برسوں سے خوف اور احساسِ عدم تحفظ کا شکار ہیں، اور اُن کے خلاف ہونے والے جرائم میں ریاستی غفلت ایک طرف—لیکن سب سے بڑا کردار انہی مذہبی جماعتوں کا ہے جو ہر اُس قانون کی راہ میں دیوار بن جاتی ہیں جو اقلیتوں کو مکمل شہری حقوق دینے کا وعدہ کرتا ہے۔
یہ جماعتیں ہمیشہ یہ تاثر دیتی ہیں کہ اقلیتوں کو حقوق دینا کسی مذہبی اصول کی خلاف ورزی ہے، حالانکہ قرآن خود ظلم، ناانصافی اور امتیاز کی نفی کرتا ہے۔ لیکن افسوس کہ مذہب کو سیاسی طاقت کا ایندھن بنانے والے گروہ نہ قرآن کی روح سمجھتے ہیں نہ آئین کی۔ ان کی پوری سیاست نفرت کے اس بیانیے پر کھڑی ہے جس نے اقلیتوں کے خلاف معاشرتی اور سماجی تشدد کو جواز بخشا۔ یہی وجہ ہے کہ جب جب اقلیتوں کے حقوق کے لیے قانون سازی کا مرحلہ آتا ہے تو وہ سب سے پہلے اپنے کارکنوں، مساجد اور منبروں میں خوف پھیلانا شروع کر دیتے ہیں کہ “اسلام خطرے میں ہے”—حالانکہ خطرے میں کبھی اسلام نہیں ہوتا، ہمیشہ کمزور شہری ہوتے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف نے بھی اس بل پر وہی رویہ اختیار کیا جو ہمیشہ کرتی آئی ہے۔ یہ جماعت بظاہر اپنے آپ کو ’’اعتدال پسند‘‘، ’’روشن خیال‘‘ اور ’’نیا پاکستان‘‘ کا نمائندہ کہتی ہے، لیکن جب عملی قانون سازی کا وقت آتا ہے تو یہ رجعت پسندوں کے ساتھ صف بنا کر کھڑی ہوتی ہے۔ تحریک انصاف کا تضاد یہ ہے کہ یہ عالمی سطح پر ’’اعتدال‘‘ کا چہرہ پہن کر گھومتی ہے، کبھی عورتوں کے حقوق کا نعرہ لگاتی ہے، کبھی اقلیتوں کے ساتھ یکجہتی کے دعوے کرتی ہے، لیکن پارلیمنٹ میں اس کی سیاست ہمیشہ مذہبی انتہاپسندی کے گرد گھومتی ہے۔ اقلیتوں کے تحفظ کے بل کی مخالفت، عورتوں کے حقوق کے قوانین پر اعتراض، بچوں کے جنسی استحصال کے خلاف سخت قانون سازی میں پس و پیش—یہ سب شواہد ہیں کہ تحریک انصاف کا اصل سیاسی مزاج ’’روشن خیال‘‘ نہیں بلکہ ’’موقع پرست رجعت پسندی‘‘ ہے۔ جب مذہبی حلقے کسی قانون کے خلاف اٹھتے ہیں تو تحریک انصاف اسی کیمپ میں جا کر بیٹھ جاتی ہے، چاہے اس کے اپنے منشور میں کچھ بھی لکھا ہو۔
اسی طرح پیپلز پارٹی کے عبدالقادر پٹیل کا ایوان سے باہر چلے جانا بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ پیپلز پارٹی خود کو اقلیتوں کی واحد سچی ترجمان جماعت قرار دیتی ہے، اور اس کے چیئرمین بلاول بھٹو بارہا اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کو اپنی جماعت کی میراث کہتے ہیں، لیکن ایک اہم قانون سازی کے موقع پر پارٹی کے نمایاں رکن کا ایوان سے باہر چلے جانا نہ صرف سیاسی کمزوری کا اظہار ہے بلکہ یہ اس تاثر کو بھی تقویت دیتا ہے کہ پارلیمان ابھی تک اپنی اس تاریخی ذمہ داری کو نہیں سمجھ سکی جس کے تحت اسے اقلیتوں کے حقوق کی بحالی کو ریاستی فرائض میں شامل کرنا ہے۔ ایسے مواقع پر خاموشی، غیر حاضری یا جان بوجھ کر لاتعلقی دراصل اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بناتی ہے۔ اگر پیپلز پارٹی واقعی اقلیتوں کے ساتھ کھڑی ہے تو اسے اپنے ہر رکن کے عمل سے یہ ثابت کرنا چاہیے، محض تقریری دعووں سے نہیں۔
پاکستان کے اقلیتی شہری پہلے ہی خوف کے سائے میں زندگیاں گزار رہے ہیں۔ جب مذہبی جماعتیں پارلیمان میں کھڑے ہو کر اُن کے حقوق کی مخالفت کرتی ہیں، تحریک انصاف جیسے سیاسی گروہ اُن کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں، اور وہ جماعتیں بھی خاموش رہتی ہیں جو خود کو اقلیتوں کی محافظ کہتی ہیں—تو پھر اقلیتیں اپنے حقوق کے لیے آخر کس کا دروازہ کھٹکھٹائیں؟ اُن کے لیے یہ قانون سازی امید کی کرن تھی لیکن بحث اور ووٹنگ کے دوران سیاسی جماعتوں کے رویے نے یہ پیغام بھی دیا کہ پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کا حصول ابھی بھی ایک مشکل معرکہ ہے۔
اس ملک میں اقلیتوں کے خلاف ظلم کے واقعات—بستیوں پر حملے، جبری مذہب کی تبدیلی، مندر جلائے جانا، گرجا گھروں کی بے حرمتی، روزگار میں امتیاز—یہ سب اسی ذہنیت کا نتیجہ ہیں جس کا مظاہرہ دائیں بازو کی مذہبی جماعتوں نے اس بل کی مخالفت میں کیا۔ اقلیتوں میں عدم تحفظ کا یہ احساس کسی خارجی سازش کا نتیجہ نہیں، بلکہ ہمارے اپنے معاشرے اور سیاست کی پیداوار ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ ریاست، پارلیمان اور سیاسی جماعتیں یہ سمجھیں کہ اقلیتوں کے حقوق کوئی ’’احسان‘‘ نہیں بلکہ آئینی ذمہ داری ہیں۔ اور اس آئینی ذمہ داری کی سب سے بڑی دشمن وہ سیاسی سوچ ہے جو مذہب کے نام پر خوف پیدا کرتی ہے، شہریوں میں تفریق ڈالتی ہے اور آئین کو اپنی مرضی کے مطابق گھمانا چاہتی ہے۔
قومی کمیشن برائے اقلیتی حقوق کا قیام ایک قدم ضرور ہے، لیکن یہ قدم تب ہی مضبوط ہو گا جب سیاسی جماعتیں—خصوصاً دائیں بازو کے مذہبی گروہ، تحریک انصاف اور دیگر قوتیں—اپنے رویے بدلیں، اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیزی ترک کریں، اور آئین میں درج مساوی حقوق کی کھلی خلاف ورزی سے باز آئیں۔ ورنہ قانونی پیش رفت ایک طرف، اقلیتوں کے سینے میں موجود خوف، بے بسی اور عدم تحفظ کے زخم کبھی نہیں بھر سکیں گے۔







