آج کی تاریخ

تازہ ترین

اقرا یونس اور اوچ شریف کا اندھیرا

اوچ شریف کے نواحی علاقے محمد پور میں پنجاب پولیس کی جانب سے رات کے وقت بغیر خواتین اہلکاروں کے گھروں میں گھس کر خواتین پر تشدد اور طالبہ اقرا یونس کی گرفتاری کا واقعہ ریاستی جبر، پولیس گردی اور قانون کی پامالی کا ایک افسوسناک استعارہ ہے۔ یہ واقعہ صرف ایک طالبہ یا ایک خاندان پر نہیں، بلکہ پورے نظامِ انصاف، پولیس کلچر اور ریاستی رویے پر سوالیہ نشان ہے۔ اقرا، جو محض دسویں جماعت کی طالبہ ہے، اس پر دہشت گردی کے مقدمات قائم کرنا اور اسے شدید جسمانی تشدد کے بعد ہسپتال پہنچا دینا، اس سفاکی کی انتہا ہے جو ہمارے اداروں کی سرپرستی میں سرائیکی وسیب کے عام شہریوں پر مسلط ہو چکی ہے۔
یہ پہلا واقعہ نہیں ہے جس میں پولیس نے طاقتوروں کے اشارے پر نہتے شہریوں کو نشانہ بنایا ہو۔ اقرا اور اس کے خاندان پر ظلم کے پیچھے وہی روایتی کہانی ہے: بااثر افراد کی زمین پر قبضے کی ہوس، جسے پورا کرنے کے لیے پولیس کو بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔ ریاستی ادارے اگر اسی طرح طاقتوروں کے آلہ کار بنتے رہے تو پھر عوام کے لیے نہ گھر محفوظ ہے، نہ عزت، نہ جان۔
یہ بھی واضح ہے کہ جنوبی پنجاب میں پولیس کی کارروائیاں اکثر آئینی تقاضوں، عدالتی اجازت ناموں اور بنیادی انسانی حقوق سے بے نیاز ہوتی ہیں۔ محمد پور میں نہ صرف چادر اور چار دیواری کی حرمت پامال کی گئی بلکہ خواتین کو مرد اہلکاروں نے مارا پیٹا، بالوں سے گھسیٹا، اور انہیں ایسے مقدمات میں نامزد کیا جن کی کوئی قانونی اور اخلاقی بنیاد نہیں۔ اقرا جیسی طالبہ کو دہشت گردی جیسے سنگین قانون کے تحت جیل میں ڈال دینا اس نظام کی وحشت اور بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اس ظلم کے خلاف پہلا اور فوری قدم یہ ہونا چاہیے کہ اقرا یونس اور دیگر گرفتار خواتین کو فوری رہا کیا جائے اور ان پر قائم جھوٹے اور بے بنیاد مقدمات ختم کیے جائیں۔ ایس ایچ او سمیت اس واقعے میں ملوث تمام پولیس اہلکاروں کے خلاف شفاف اور غیرجانب دار عدالتی انکوائری کی جائے۔ متاثرہ خاندانوں کو قانونی تحفظ اور مالی معاونت فراہم کی جائے تاکہ وہ مزید دباؤ کا شکار نہ ہوں۔ پولیس کی اس کارروائی میں جن بااثر افراد کی ایما پر یہ سب کچھ ہوا، ان کے خلاف بھی مقدمہ درج کیا جائے اور ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔
پنجاب حکومت کو اس واقعے کو سنجیدگی سے لینا ہوگا۔ محض نوٹس لینا یا رپورٹ طلب کرنا کافی نہیں، بلکہ یہ وقت ریاستی اداروں کی سمت درست کرنے کا ہے۔ جنوبی پنجاب میں پولیس گردی، طاقتوروں کی پشت پناہی، اور غریبوں کو دبانے کا کلچر اگر ختم نہ ہوا تو یہ صرف ایک علاقائی مسئلہ نہیں رہے گا، بلکہ پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔
اقرا یونس کی چیخیں صرف ایک بچی کی چیخیں نہیں، وہ اس پورے نظام کے خلاف ایک سوال ہیں۔ کیا ریاست ان سوالوں کا جواب دے گی؟ یا ایک بار پھر خاموشی، بے حسی اور طاقتوروں کی جیت کو ہی مقدر بنا دیا جائے گا؟

شیئر کریں

:مزید خبریں