بہاولپور (خصوصی رپورٹ) اوچ شریف کی معصوم طالبہ اقرا شفیق کے کیس میں پولیس کی یکطرفہ کہانی سامنے آنے کے بعد آر پی او بہاولپور کے حکم پر کی جانے والی انکوائری کے دوران ایس پی انویسٹیگیشن جمشید شاہ نے جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے دفتر میں پریس کانفرنس کی، جس میں وہ ایک غیر جانبدار انکوائری افسر کم ڈی ایس پی احمد پور شرقیہ اور ایس ایچ او کے سہولت کار جبکہ پریس کانفرنس میں موجود سجاد سندھو اور ڈی ایس پی احمد پور شرقیہ با اثر قبضہ مافیا خواجہ مرید حسین کے ترجمان زیادہ نظر آئے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بااثر کاروباری افراد کو مالک و قابض ہونے کا موقف بار بار دہراتے رہے۔ اسی دوران صحافی نے سوال کیا کہ موضع محمد پور کھاتہ 261 کھتونی نمبر 699 میں جن کو آپ ناجائز قابضین کہہ رہے ہیں وہ تو 33 کنال 11 مرلے کے مالک ہیں کیا 15 پر کئی سالوں سے کی جانے والی کالیں اور مقدمات پلانٹیڈ تو نہیں کیونکہ 15 کالر خواجہ مرید حسین کے ملازمین یاں وہ خود ہے اور اسی دوران پہلے سے تیار پولیس کی بھاری نفری موقع پر پہنچ کر اس کا ملکیتی رقبہ چھین کر مرید حسین کے کیا حوالے کرنا چاہتی ہے جس پر صحافیوں کی جانب سے کئے جانے والے اس کیس سے متعلق دیگر سوالات کی طرح اس کا بھی تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔پریس کانفرنس میں ایس پی انویسٹیگیشن نے خواجہ مرید حسین کے ملازمین کی مدعیت میں بنائے گئے پرانے مقدمات کا حوالہ دے کر متاثرہ خاندان کو ناجائز قابض اور نہم جماعت کی گرفتار طالبہ کو شاطر و عادی مجرم ظاہر کرنے کی ناکام کوشش کی۔ تاہم میڈیا کے نمائندوں کو ان کے جواب کسی طور تسلی بخش نہ لگے۔ذرائع کے مطابق جن مقدمات کا حوالہ ایس پی انویسٹیگیشن نے دیا، ان میں سے بیشتر میں محمد شفیق وغیرہ کو باعزت بری کیا جا چکا ہے کہ جواب میں کہا کہ انکے بری ہونے کے بارے میں مجھے معلوم نہیں۔حیران کن بات یہ ہے کہ اس ہائی پروفائل کیس کی تفتیش اور انکوائری کے لئے انکوائری افسر ایک مرتبہ بھی موقع پر نہیں گئے۔مزید یہ کہ محمد شفیق کی کراچی میں موجودگی کے شواہد، سی ڈی آر اور دیگر ریکارڈ پیش کئے گئے، مگر ایس پی صاحب نے ان کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف یہ کہہ کر جان چھڑانے کی کوشش کی کہ “یہ عدالت میں ثابت کریں گے”سابقہ ایس ایچ او کے ملوث ہونے کے سوال پر بتایا کے مجھے اس بارے میں معلوم نہیں۔قانونی تقاضے پورے کرنے اور آر پی او کو انکوائری رپورٹ پیش کرنے کے بجائے ایس پی انویسٹیگیشن نے ایس ایچ او اور قبضہ مافیا کے حق میں بیانات دے کر اپنے منصب کی غیر جانبداری پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے کیونکہ انکوائری کی تکمیل سے قبل ہی جبکہ ایک دن قبل دوران انکوائری ایس پی انویسٹیگیشن نے محمد شفیق کو یہ کہہ کر کہ کیونکہ تم وقوعہ کے وقت کراچی تھے اس لئے محمد صدیق کو اگلی تاریخ پر ضرور حاضر کیا جائے اور ساتھ ہی ایس ایچ او اوچ شریف سجاد سندھو کو ریونیو عملے کے ساتھ جا کر موقع پر دونوں فریقین کی موجودگی میں زمین کی پیمائش کرانے اور رپورٹ پیش کرنے کا کہا اور پھر اچانک انکوائری کو ادھورا چھوڑ کر اس وقت پریس کانفرنس کرنے کا اعلان کرنا جس وقت جماعت اسلامی ضلع بہاول پور کے امیر نصر اللہ خان ناصر بہاول پور پریس کلب رجسٹرڈ بہاول پور میں پریس کانفرنس کرنے کا اعلان کر چکے تھے۔ مبصرین نے اس سارے معاملے کو مشکوک اور بوکھلاہٹ کا شاخسانہ قرار دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس رویے سے نہ صرف معاشرے کو اپنے محافظوں سے عدم تحفظ کا احساس دلانے اور متاثرہ خاندان کو مزید ذہنی اذیت پہنچائی گئی ہے جس نے انکوائری افسر کے کردار پر کئی سوالیہ نشانات کھڑے ہو گئے ہیں۔

اوچ پولیس گردی کیخلاف جماعت اسلامی کاسخت ردعمل، آج احتجاج کااعلان
بہاولپور (کرائم سیل)اوچ شریف کے بااثر قبضہ مافیا کی سہولت کاری کرتے ہوئے کروڑوں روپے مالیت کی کمرشل اراضی پر قبضہ کروانے کے لیے ایس ایچ او سجاد سندھو نے نہم جماعت کی طالبہ اقراشفیق، اسکی والدہ ،چچی اور پھوپھو سمیت خواتین کو دہشت گردی کے سنگین دفعات کے تحت گرفتار کر کے چالان کرکے جیل بھجوا دیا۔ضلعی امیر جماعت اسلامی نصر اللہ خان ناصر سمیت متاثرہ خاندان و معززین کے ہمراہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پولیس گردی کو بااثر کاروباری شخصیت اور سابق ایس ایچ او مسلم ضیا کے گٹھ جوڑ کا شاخسانہ قرار دیتے ہوئے وزیر اعلیٰ پنجاب اور آئی جی پنجاب سے غیر جانبدارانہ انکوائری کا مطالبہ کر دیا ۔تفصیلات کے مطابق ضلعی امیر جماعت اسلامی نصر اللہ ناصر نے بہاولپور پریس کلب رجسٹرڈ بہاولپور میں پرہجوم پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ غلام علی ولد گامن و دیگر وارثان کے ملکیتی رقبہ جات 33 کنال 11 مرلہ موضع محمد پور، کھاتہ نمبر 261، کھتونی نمبر 699 جو کہ کچھ ملکیہ رقبہ سی پیک بننے کی وجہ سے کمرشل ہو گیا جس کی مالیت 100 گنا بڑھنے کے بعد بااثر کاروباری خواجہ مرید حسین نے ایس ایچ او سجاد سندھو سے ملی بھگت کر کے کروڑوں روپے مالیت کی قیمتی مقبوضہ اراضی سے بے دخل کرتے ہوئے جھوٹے مقدمات میں ملوث کر کے ناجائز قبضہ کروایا۔خواجہ مرید حسین جو کہ بااثر اور مالدار ہے، ان کی جگہ پر قبضہ کر کے بوگس اور فرضی ونڈا مرتب کروا کر انہیں بے دخل کرنا چاہتا ہے، جس کے خلاف غلام علی کے وارثان جو کہ قابضین اور مالکان وغیرہ ہیں نے غلط ونڈا کے بابت اپیل دائر کی ہوئی ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ سابق ڈی پی او بہاولپور سید محمد عباس شاہ کے دور میں، سابق ایس ایچ او اوچ شریف مسلم ضیا کے دور میں اس خاندان کے رقبہ پر قبضہ کروانے کے لیے پے در پے بے بنیاد مقدمات درج کروائے گئے۔ ذرائع کے مطابق متاثرہ خاندان خسرہ گرداوری کے مطابق بھی مالک اور قابض ہیں، جس کی وجہ سے ایس ایچ او سجاد سندھو نے وارثان سے کمرشل جگہ پر قبضہ چھڑوانے کے لیے 10 اگست کو بغیر لیڈی پولیس کے گھر پر دھاوا بول دیا، گھریلو سامان، ٹریکٹر نقدی زیورات وغیرہ غیر قانونی طور پر تحویل میں لے لیے، رہائشی مکان اور سامان کی توڑ پھوڑ کی گئی، خواتین کو تشدد کا نشانہ بنا کر بالوں سے گھسیٹتے ہوئے دہم کی طالبہ اقراء شفیق جس کے یہ دادا کا وراثتی رقبہ ہے، پر قبضہ کروانے کی نیت سے اس کی والدہ، چچی اور پھوپھو سمیت گرفتار کر کے ان پر دہشت گردی کے دفعات کے مقدمات میں انہیں چالان کر کے جیل بھجوا دیا۔جس کی ایس پی انویسٹیگیشن آر پی او بہاولپور کے حکم پر انکوائری کر رہے تھے، مگر گزشتہ روز امیر جماعت اسلامی کی پریس کانفرنس سے ایک گھنٹہ قبل ہی ایس پی انویسٹیگیشن نے ایک ہنگامی پریس بریفنگ کے دوران متاثرہ خاندان کو اچانک ناجائز قابض قرار دیا، جبکہ ریونیو ریکارڈ کے مطابق وہ 33 کنال 11 مرلے، بروئے کھاتہ نمبر 261، کھتونی نمبر 699 کے مالک و قابض بہت عرصے سے چلے آ رہے ہیں۔جماعت اسلامی کی پریس کانفرنس سے پہلے ہی ایس پی انویسٹیگیشن نے جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بجائے اس کے کہ وہ رپورٹ مکمل کرتے اور آر پی او بہاولپور کو انکوائری مکمل کر کے پیش کرتے، ایس ایچ او کو بچانے کے لیے ایک ہنگامی پریس کانفرنس اپنے دفتر میں ہی کر کے میڈیا نمائندگان کو متاثرہ خاندان پر مقدمات اور ناجائز قابض ظاہر کرتے رہے۔ان کی پریس کانفرنس سے یہ صاف پتہ چل رہا تھا کہ وہ انکوائری افسر نہ ہوں بلکہ ایس ایچ او کے سہولت کار ہوں۔ جماعت اسلامی نے اس پولیس گردی پر انصاف کے حصول کے لیے آخری حد تک جانے کا عندیہ دیتے ہوئے آج بروز بدھ اوچ شریف میں متاثرین کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے ایک بھرپور احتجاج کا بھی اعلان کیا ہے اور اگر پولیس نے مکمل مفصل انکوائری کر کے رپورٹ پیش نہ کی تو احتجاج کا دائرہ کار بڑھانے کا بھی کہا ہے ۔
