ایک ہی رات میں متعدد قوانین کا تیزی سے منظور کیا جانا، پارلیمنٹ میں احتجاج کے باوجود، طرز حکمرانی میں تشویشناک رجحان کی عکاسی کرتا ہے۔ بغیر کسی بحث کے، حکومت نے ایسے قوانین کو آگے بڑھایا جو ملکی جمہوری نظام اور طاقت کے توازن کو تبدیل کر سکتے ہیں، اور یہ سیاسی چالوں کی ایک اور مثال ہے۔ یہ طریقہ کار، جس میں گفتگو اور شفافیت کو نظرانداز کیا گیا، موجودہ حکومت کے طریقوں پر خدشات کو مزید گہرا کرتا ہے۔
حال ہی میں متعارف کردہ اقدامات میں سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد میں اضافہ اور پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں تبدیلیاں شامل ہیں، جو بظاہر عدلیہ پر انتظامیہ کی گرفت بڑھانے کے لیے کیے گئے ہیں۔ یہ دباؤ صرف عدالتی معاملات تک محدود نہیں ہے، بلکہ قومی سلامتی، شہری آزادیوں اور حکومت میں فوج کے کردار کو بھی بغیر کسی عوامی مشاورت کے قوانین کے ذریعے نشانہ بنایا گیا ہے۔ ایک حالیہ قانون میں حراست کے اختیارات کو وسعت دی گئی ہے، جس سے ممکنہ زیادتیوں کے خطرات میں اضافہ ہو رہا ہے، جبکہ دوسرا قانون فوجی قیادت کی مدت میں توسیع کا ہے، جو سول امور میں سیکورٹی ادارے کے گہرے مداخلت کا اشارہ دیتا ہے۔
فوجی قیادت کی مدت میں توسیع کے اثرات مسلح افواج کی ناپسندیدہ سیاسی وابستگی کی عکاسی کرتے ہیں۔ پیشہ ورانہ ضروریات کی بجائے، یہ توسیع سیاسی معاہدے کے حصے کے طور پر دیکھی جا رہی ہے، جس سے سول حکمرانی کا کردار مزید کمزور ہو رہا ہے۔ ایسے اقدامات سیاسی اور فوجی شخصیات کو باہم جکڑ کر جمہوری جوابدہی کو کمزور کر رہے ہیں، اور سول اداروں کے لیے اپنے کردار کو مؤثر طریقے سے ادا کرنا مشکل بنا رہے ہیں۔
یہ حکمت عملی اتحاد حکومت کی قانونی حیثیت اور اس کے فوجی حمایت پر انحصار پر سوالات اٹھاتی ہے۔ غیر منتخب عناصر کو مسلسل طاقت دینا ایک شیطانی چکر کو جنم دیتا ہے: جیسے جیسے فوج کا کردار بڑھتا ہے، سیاسی طبقہ مزید پسپائی اختیار کرتا ہے، اپنی اتھارٹی کو ختم کرتا ہے اور جمہوری ترقی کو مزید دبایا جاتا ہے۔ عدلیہ، جو اس طاقت کے ڈھانچے میں اہم توازن ہے، اس کو قابو میں لانے کا ہدف بنتی نظر آتی ہے۔ نئی ترامیم سے ایک “قابل اطاعت” عدلیہ کا تصور سامنے آتا ہے، جس سے سپریم کورٹ کے فیصلوں کو پلٹنے کا امکان اور دو تہائی اکثریت کے ذریعے مزید آئینی تبدیلیاں کی جا سکتی ہیں۔
اختیارات کے ایسے جارحانہ مجتمع سے جمہوریت کے لیے وسیع تر اثرات ہیں۔ یہ حکمرانی کے ایسے نمونہ کی عکاسی کرتا ہے جہاں جمہوری اصولوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے، سیاسی اختلاف کو دبایا جاتا ہے اور حکومت پر قانونی چیکز کو منظم طریقے سے ختم کیا جا رہا ہے۔ وکیل انتظار حسین پنجوتہ کی حالیہ گمشدگی، جو ایک کھلے ناقد تھے، آج کے سیاسی ماحول میں اختلاف رائے رکھنے والوں کو دھمکی دینے کا ایک واضح ثبوت ہے۔ دباؤ کا ہر عمل جمہوری آزادیوں کو ختم کرتا ہے، جس سے خوف اور خاموشی کا ماحول پیدا ہوتا ہے، جو کہ کھلی گفتگو اور تنقید کے بجائے ہے۔
پارلیمنٹ میں اس ہفتے جو کچھ ہوا وہ جمہوری اصولوں سے انحراف کی مزید عکاسی کرتا ہے۔ اہم سیاسی جماعتوں کے مابین تعاون، جو بظاہر سویلین بالادستی اور جمہوری سالمیت کے عزم میں شریک تھیں، اب شکوک کو جنم دیتا ہے کیونکہ دونوں جماعتیں بنیادی جمہوری اصولوں پر سمجھوتا کرتی نظر آتی ہیں۔ چارٹر آف ڈیموکریسی، جو کبھی مشترکہ عزم کا ایک چراغ تھا، سیاسی فائدے کی دوڑ میں فراموش ہو گیا ہے، جبکہ جماعتیں طاقت کے حصول کو حقیقی جمہوری ترقی پر ترجیح دیتی ہیں۔
مجموعی طور پر، یہ واقعات سیاسی موقع پرستی کی ایک گہری مثال ہیں، جو جمہوری اصولوں کی قیمت پر کی جا رہی ہے۔ سیاسی اور فوجی کرداروں کے مابین یہ اتحاد ملک کی آئندہ حکمرانی کے لیے سنگین چیلنجز پیدا کرتا ہے۔ غیر جمہوری قوتوں کو مضبوط بنا کر، آج کے سیاسی رہنما اس شہری حکمرانی کی بنیادوں کو کمزور کر رہے ہیں جس کے قیام کا وعدہ انہوں نے کیا تھا، شاید یہ بھول کر کہ جمہوری اداروں کو کمزور کرنے اور غیر منتخب قوتوں کو بااختیار بنانے کی طویل مدتی قیمت ان کے اپنے سیاسی بقاء کے لیے بھی خطرہ بن سکتی ہے۔
صرف وقت ہی بتائے گا کہ ان اقدامات کا دیرپا اثر کیا ہوگا، مگر اس کا موجودہ راستہ اس نظام کی پائیداری اور استحکام پر سنجیدہ سوالات اٹھا رہا ہے۔
پی آئی اے کی تباہی
پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کا آغاز 1955 میں ایک قومی ایئرلائن کے طور پر ہوا تھا، جس کا مقصد پاکستان کے عوام کو بین الاقوامی معیار کی سفری سہولتیں فراہم کرنا تھا۔ اپنے ابتدائی دنوں میں، پی آئی اے نے نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر بھی خود کو ایک قابلِ احترام اور پیشہ ور ایئرلائن کے طور پر منوایا۔ ایشیا کی پہلی ایئرلائن ہونے کا اعزاز حاصل کرنے والی پی آئی اے نے نیویارک تک جیٹ طیاروں سے سفر کر کے دنیا بھر میں اپنی پہچان بنائی۔ یہ ادارہ نہ صرف ایک مثالی سفری سہولت فراہم کرنے والا تھا بلکہ اس نے بہترین تکنیکی خدمات اور اپنے فلائٹ آپریشنز میں بھی نمایاں کارکردگی دکھائی۔
لیکن وقت کے ساتھ ساتھ پی آئی اے کا یہ عروج سیاسی مداخلت، ناقص انتظامات اور بدعنوانیوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔ بدانتظامی اور سیاسی دباؤ کے نتیجے میں پی آئی اے کا یہ عروج زوال میں بدل گیا، اور آج یہ ادارہ اپنے معاشی بحران کی وجہ سے خسارے میں ڈوبا ہوا ہے۔ پی آئی اے کی ناکامی کی کئی وجوہات ہیں، جن میں سب سے اہم وجہ سیاسی مداخلت ہے۔ ہر نئی حکومت نے اس ادارے کو اپنے مفادات کے تحت استعمال کیا اور غیر ضروری بھرتیاں اور ناقص فیصلے اس ادارے کو کمزور کرنے میں مددگار ثابت ہوئے۔
1970 اور 1980 کی دہائی میں، پی آئی اے میں سیاسی اور سفارشی بھرتیوں کا آغاز ہوا، جس نے نہ صرف ادارے کی کارکردگی کو متاثر کیا بلکہ اس کے مالی وسائل کو بھی زبردست نقصان پہنچایا۔ ان غیر ذمہ دارانہ فیصلوں کی بدولت ادارے کے انتظامی ڈھانچے میں نہ صرف کمزوری پیدا ہوئی بلکہ اس کی مالی حیثیت بھی خراب ہو گئی۔ اسی طرح، پی آئی اے کے اعلیٰ عہدیداران کی نااہلی، بدعنوانی اور ناقص انتظام نے بھی کمپنی کے زوال میں اہم کردار ادا کیا۔ مختلف ادوار میں پی آئی اے کے چیئرمین اور مینیجرز نے ذاتی مفادات کو ترجیح دی اور ادارے کے مفادات کو نظر انداز کیا۔ ان عہدیداروں نے جدید ٹیکنالوجی کو اپنانے کے بجائے پرانے طیاروں پر انحصار کیا، جس سے ادارے کی کارکردگی میں کمی آئی اور یہ ادارہ جدید فضائی صنعت سے پیچھے رہ گیا۔
پی آئی اے کو درپیش مسائل میں سے ایک بڑا مسئلہ اس کے بڑھتے ہوئے قرضے بھی ہیں۔ اس ادارے پر مختلف حکومتی قرضے اور دیگر مالی بوجھ ڈالے گئے ہیں، جو اب اتنے زیادہ ہو چکے ہیں کہ انہیں ادا کرنا تقریباً ناممکن ہو گیا ہے۔ پی آئی اے کے مالی مسائل کو حل کرنے کے لیے مختلف ادوار میں حکومتوں نے امداد فراہم کی، مگر یہ مالی امداد بھی ادارے کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے میں ناکام رہی۔ موجودہ حالات میں، پی آئی اے کی نجکاری کا فیصلہ کیا گیا ہے، مگر جس طریقے سے اس نجکاری کا عمل شروع کیا گیا، اس پر بھی کئی سوالات کھڑے ہو گئے ہیں۔
حال ہی میں، پی آئی اے کی نجکاری کے لیے واحد بولی سامنے آئی، جس میں ایک رئیل اسٹیٹ کے کاروباری شخص نے 10 ارب روپے کی پیشکش کی۔ یہ پیشکش ادارے کی کم از کم قیمت 80 ارب روپے کا محض 12.5 فیصد بنتی ہے۔ اس بولی کو نہ صرف شفافیت بلکہ اس نجکاری کے عمل کی قانونی حیثیت پر بھی سوالات کا سامنا ہے۔ ذرائع کے مطابق، بولی دینے والے شخص کے پاس اتنی رقم بھی موجود نہیں تھی کہ وہ اپنی پیشکش کو پورا کر سکے اور اس نے زمین کی قیمت سے بولی کو پورا کرنے کی کوشش کی۔
نجکاری کے وزیر علیم خان نے اس بولی کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ یہ نگران حکومت کے تحت پارلیمانی منظوریوں کے مطابق ہے، تاہم اس اقدام کو بزنس ریکارڈر اور دیگر حلقوں کی جانب سے تنقید کا سامنا ہے۔ انہوں نے غیر منتخب حکام کو مالیاتی فیصلے کرنے کا اختیار دینے کو جمہوریت کے منافی قرار دیا ہے۔ علیم خان کی جانب سے نجکاری کے عمل کی حمایت اور سابقہ نجکاری کمیشن کے چیئرمینز پر تنقید کو منافقت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، خاص طور پر اس وقت جب وہ خود بھی اسی حکومت میں شامل ہیں جسے انہوں نے کرپٹ قرار دیا تھا۔
دریں اثنا، سابق وزیر اعظم نواز شریف نے بھی نجکاری میں دلچسپی ظاہر کی اور کہا کہ ان کی بیٹی مریم نواز پی آئی اے کو خریدنا چاہتی ہیں اور اسے پنجاب ایئر کے طور پر دوبارہ برانڈ کرنا چاہتی ہیں۔ تاہم، یہ بات قابل غور ہے کہ پنجاب، جو خود مالی بحران کا شکار ہے اور جس نے حال ہی میں آئی ایم ایف کے بجٹ سرپلس کا ہدف پورا نہیں کیا، وہ پی آئی اے جیسی مالیاتی بحران زدہ ایئر لائن کو کیسے سنبھالے گا؟ اس کے علاوہ، اگر یہ خریداری ایک نجی خاندانی سرمایہ کاری کے طور پر کی جا رہی ہے، تو نواز شریف کو ورجن اٹلانٹک کے رچرڈ برانسن کا مشورہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ “اگر آپ کروڑ پتی بننا چاہتے ہیں تو اربوں روپے کے ساتھ ایئر لائن شروع کریں۔”
خیبر پختونخواہ حکومت نے بھی پی آئی اے کو قومی کنٹرول میں رکھنے کی خواہش ظاہر کی، مگر یہ بھی مالی اور انتظامی صلاحیت کی کمی کا شکار ہے۔ صوبائی وسائل کو بنیادی ڈھانچے اور سماجی خدمات پر خرچ کرنے کی ضرورت ہے، نہ کہ ایک خسارے میں چلنے والی ایئر لائن پر۔ پنجاب اور کے پی کے کی جانب سے پی آئی اے کو اپنے تحت رکھنے کی خواہش سے صوبائی ترجیحات پر سوالات اٹھتے ہیں، اور یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ ان وسائل کا بہتر استعمال کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔
پی آئی اے کی صورتحال سے پاکستان کے وسیع تر اقتصادی مسائل کی عکاسی ہوتی ہے۔ ملک میں کاروبار دوست ماحول کی کمی، سرمایہ کاروں کی محدود دلچسپی اور پبلک سیکٹر میں اصلاحات کے فقدان کی وجہ سے بڑے عوامی اثاثے فروخت کرنا مشکل ہے۔ اگر پی آئی اے جیسے ادارے کے نئے مالک کو پرانے قرضوں اور مالی ذمہ داریوں سے بچانے کے لیے ضروری اصلاحات نہ کی جائیں تو کوئی بھی سنجیدہ سرمایہ کار اس میں دلچسپی نہیں لے گا۔
آخرکار، پاکستان میں ایک مضبوط جوابدہی کا نظام ہی ان مسائل کا حل ہو سکتا ہے۔ شفافیت اور ذمہ داری کے اصولوں کو اپنائے بغیر پاکستان کی اقتصادی حالت میں بہتری لانا مشکل ہے۔ پی آئی اے جیسے قومی ادارے کی بحالی اور اس کے ذریعے اعتماد کو بحال کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ایسے اقدامات کیے جائیں جو ملک کو ایک شفاف اور جوابدہ مستقبل کی طرف لے جائیں۔
کل ملا کر، پی آئی اے کی کہانی اس بات کا مظہر ہے کہ کس طرح بدانتظامی، سیاسی مفادات اور ناقص حکمت عملیوں نے ایک کامیاب قومی ادارے کو ناکامی کی طرف دھکیل دیا۔ اس کہانی کا سبق یہ ہے کہ پاکستان میں سرکاری اداروں کی کامیابی کا انحصار سیاسی مداخلت کے خاتمے، شفافیت، اور مضبوط جوابدہی کے نظام کے قیام پر ہے۔ جب تک پاکستان ان اصولوں کو اپنانے کے لیے سنجیدہ اقدامات نہیں کرتا، پی آئی اے جیسے ادارے مزید بحران کا شکار ہوتے رہیں گے۔
پی آئی اے کی تباہی کا سبب صرف انتظامی ناکامیاں نہیں بلکہ ایک پورا نظام ہے جو ذاتی مفادات، سیاسی مداخلت اور غیر شفاف پالیسیوں پر مبنی ہے۔ اس کہانی سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اگر ہم پاکستان میں ایسے اداروں کو بچانا چاہتے ہیں تو ہمیں سیاسی دباؤ اور ذاتی مفادات سے ہٹ کر قومی مفاد کو اولین ترجیح دینی ہوگی۔ جوابدہی اور شفافیت کے ساتھ فیصلہ سازی کا عمل جاری رکھنا وقت کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ نسلوں کو ایک بہتر اور مضبوط پاکستان مل سکے۔
معلوم اور نامعلوم: اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا
اسکینڈل اور انصاف کی امید
اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا حالیہ جنسی ہراسانی اسکینڈل ہمارے تعلیمی اداروں میں موجود گہری بدعنوانی، بدانتظامی، اور غیر اخلاقی رویوں کی خوفناک تصویر پیش کرتا ہے۔ اس واقعے نے پورے معاشرے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، خاص طور پر جب یہ معلوم ہوا کہ تفتیشی عمل کے دوران اہم ترین شواہد اور ثبوتوں کی فائلیں غائب کر دی گئی ہیں۔ یہ اقدام ظاہر کرتا ہے کہ معاملے میں شامل کچھ عناصر کس قدر طاقتور اور بااثر ہیں جو اپنی طاقت کا استعمال کر کے انصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔ یہاں سوال یہ ہے کہ اگر اداروں کے اندر موجود یہ کالی بھیڑیں قانون اور عدلیہ کے سامنے کھڑے ہونے سے بچنے میں کامیاب ہوتی ہیں، تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟
روزنامہ قوم نے اس معاملے کو عوام کے سامنے لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے، اور اب سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ انصاف کی فراہمی کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔ مگر کیا صرف قانونی کارروائی ہی اس مسئلے کا حل ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اس مسئلے کی جڑیں نہ صرف یونیورسٹی کے اندر ہیں بلکہ اس کے باہر بھی موجود ہیں۔ اس اسکینڈل میں مبینہ طور پر منشیات مافیا اور بااثر افراد کی ملی بھگت شامل ہے جو اس نیٹ ورک کو پروان چڑھا رہے ہیں اور اپنے مفادات کی خاطر تعلیمی ماحول کو تباہ کر رہے ہیں۔
اس معاملے کی سنگینی کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ ایک تعلیمی ادارے میں ایسا نیٹ ورک کیسے قائم ہوا؟ ہمارے تعلیمی ادارے نوجوانوں کی ذہنی اور اخلاقی تربیت کے مراکز ہوتے ہیں، مگر اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور جیسے ادارے میں جنسی ہراسانی اور بدعنوانی کے اس نیٹ ورک کی موجودگی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ یہ کوئی اتفاق نہیں بلکہ ایک منظم سازش ہے جس کے پیچھے معاشرتی بگاڑ، بدعنوان عناصر اور قانونی کمزوریوں کا ہاتھ ہے۔ یہ واقعہ ہماری اجتماعی ذمہ داری کا مطالبہ کرتا ہے کہ ہم اس بگاڑ کے خلاف آواز بلند کریں اور ان طاقتور عناصر کو بے نقاب کریں جو قانون کے پیچھے چھپے ہوئے ہیں۔
ہم گورنر پنجاب سردار سلیم خان اور چیف منسٹر پنجاب محترمہ مریم نواز شریف سے پُرزور اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس معاملے میں ذاتی دلچسپی لیں اور فی الفور اقدامات کریں۔ ان پر لازم ہے کہ وہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے اندر اور باہر موجود ان افراد کو حراست میں لیں جو اس مکروہ فعل میں ملوث ہیں۔ اس کے ساتھ ہی، منشیات مافیا اور دیگر بااثر سرغنہ افراد کا بھی سراغ لگایا جائے تاکہ اس نیٹ ورک کو مکمل طور پر جڑ سے اکھاڑ پھینکا جا سکے۔ یہ صرف ایک یونیورسٹی کا مسئلہ نہیں بلکہ پورے تعلیمی نظام اور معاشرتی اقدار کے تحفظ کا مسئلہ ہے۔
اس اسکینڈل کے نتیجے میں بہاولپور کے شہریوں میں بھی بےچینی اور غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ انہیں یہ احساس ہو رہا ہے کہ ان کے بچوں کو تعلیمی ادارے میں وہ محفوظ ماحول فراہم نہیں کیا جا رہا جس کے وہ حقدار ہیں۔ لہذا، ہم بہاولپور کے عوام سے بھی درخواست کرتے ہیں کہ وہ اس معاملے میں خاموش تماشائی نہ بنیں بلکہ روزنامہ قوم کا ساتھ دیں اور اس کیس میں انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے اپنی آواز بلند کریں۔ عوام کی اجتماعی حمایت ہی ان طاقتور عناصر کے خلاف ایک مضبوط دیوار ثابت ہو سکتی ہے۔
یہ واقعہ ہماری اجتماعی بے حسی اور اداروں کی ناکامی کا بھی عکاس ہے۔ آج اگر ہم اس معاملے کو نظر انداز کرتے ہیں یا اسے دبانے کی کوششوں کا حصہ بنتے ہیں، تو کل کو یہی عناصر دیگر اداروں میں بھی ایسی ہی کاروائیاں جاری رکھیں گے۔ اس معاملے میں ملوث افراد اور ان کے سرپرستوں کو قانون کے سامنے لا کر ہی ہم معاشرتی انصاف اور اخلاقی اقدار کو بحال کر سکتے ہیں۔ ہمیں اپنے تعلیمی اداروں کو محفوظ بنانے اور ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے مستقل اور سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ کوئی بھی شخص تعلیمی ادارے میں اپنے اختیار کا غلط استعمال نہ کر سکے۔
سپریم کورٹ میں کیس لے جانے کا روزنامہ قوم کا فیصلہ بروقت اور قابل تحسین ہے۔ اس سے یہ امید بندھی ہے کہ انصاف کا عمل شفاف اور بے لاگ ہوگا۔ مگر یہ بھی ضروری ہے کہ تفتیشی عمل میں کسی بھی قسم کی مداخلت نہ ہو اور مکمل شفافیت برقرار رکھی جائے۔ ماضی میں بھی کئی ایسے کیسز میں شواہد کو غائب کر کے ملوث افراد کو بچایا گیا ہے۔ اگر اس معاملے میں بھی ایسا ہوا تو عوام کا قانون اور عدلیہ پر اعتماد ختم ہو جائے گا۔ سپریم کورٹ کو چاہیے کہ وہ اس کیس میں نہ صرف انصاف فراہم کرے بلکہ اس بات کو بھی یقینی بنائے کہ ایسے واقعات مستقبل میں دوبارہ نہ ہوں۔
اس اسکینڈل نے معاشرے کے ان پہلوؤں کو سامنے لایا ہے جو نہایت خطرناک ہیں۔ منشیات مافیا کا تعلیمی اداروں میں سرایت کرنا اور نوجوانوں کو بلیک میل کرنے کا منظم نیٹ ورک پورے نظام کی ناکامی کا مظہر ہے۔ اس نیٹ ورک کو ختم کرنے کے لیے نہ صرف تعلیمی اداروں بلکہ معاشرتی اور حکومتی سطح پر بھی مربوط کوششوں کی ضرورت ہے۔ ہمیں ان عناصر کو بے نقاب کرنا ہوگا جو تعلیمی اداروں میں منشیات اور دیگر غیر اخلاقی سرگرمیوں کو فروغ دے رہے ہیں۔ اس کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عوام کو یکجا ہو کر کام کرنا ہوگا تاکہ مستقبل میں ایسی گھناؤنی سرگرمیاں دوبارہ سر نہ اٹھا سکیں۔
آخر میں، ہم سب پر لازم ہے کہ ہم اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور اس معاملے میں اپنی آواز بلند کریں۔ یہ وقت خاموش رہنے کا نہیں بلکہ ایک اجتماعی عزم کے ساتھ ان معلوم اور نامعلوم عناصر کے خلاف کھڑے ہونے کا ہے جو ہمارے معاشرتی ڈھانچے اور تعلیمی اقدار کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ہمیں ان نامعلوم طاقتوں کا چہرہ بے نقاب کرنا ہوگا اور یہ پیغام دینا ہوگا کہ ہمارے تعلیمی ادارے ہماری اقدار کی حفاظت کرتے ہیں، انہیں تباہی کا اکھاڑہ نہیں بن