آج کی تاریخ

بیانیے اور بانیوں کی کرشمہ سازی

افواہ اور حقیقت قسط نمبر (4)

تحریر:ڈاکٹر ظفر چوہدری (روداد)

آصف زرداری کے حوالے سے ایک واقعہ بارے میرے دوست ندیم سہو نے یاد دلایا کہ رانا مقبول احمد جو ان دنوں کراچی میں ڈی ۔ آئی۔ جی۔ پولیس تھے وہ نواز شریف کے بہت قریبی تھے نے آصف علی زرداری کی زبان کاٹنے کی کوشش کی تھی اور اس کوشش میں ان کی زبان زخمی ہو گئی تھی یہ واقعہ اس وقت کے اخبارات میں بھی نمایاں طور پر شائع ہوا تھا ۔ زرداری کے بارے میرے بچپن کے دوست اور کلاس فیلو ڈاکٹر کیپٹن (ر) ظفر اقبال قادر جو وفاقی سیکرٹری (ر)ریلوے بھی رہے ہیں اورجنہوں نے دوران ملازمت دو سال ا ٓصف زرداری کے ساتھ اس وقت کام کیا جب وہ صدر پاکستان تھے ظفراقبال قادر کے بارے گذشتہ کسی کالم میں تفصیل سے لکھ چکا ہوں ۔انہوں نے بتایا کہ زرداری صاحب ہر کسی کو عزت و احترام دیتے تھے اور کسی بھی کام کو شروع کرنے سے پہلے متعلقہ لوگوں سے تفصیلی مشاورت بھی ضرور کرتے تھے۔ ایوان صدر میں آنے والے لوگوں اور خاص طور پربچوں سے بڑی محبت اور شفت سے ملتے تھے یہ تو سب جانتے ہی ہیں کہ زرداری نے بطور صدر اٹھارویں ترمیم پر تما م سیاسی جماعتوں اور اداروں سے طویل مشاورت کی پھر صدر کے اختیارات منتخب وزیر اعظم کو منتقل کر دیئے تھے اور ساتھ ہی 1973 کے آئین کو کسی حد تک اپنی اصلی حالت میں بحال کیا ۔ انہوں نے کمال کا کام یہ کیا کہ سرکاری کارپوریشنز کے کارکنوں کو سرکاری مراعات کے علاوہ منافع میں بھی حصہ دار بنایا مگرجہاں تک کرپشن کا سوال ہے ان پر کوئی کیس بھی ثابت نہ ہو سکا اور پھر ان پر جسمانی تشددکرنیوالوں کو معافی بھی مانگنی پڑی ۔
جھوٹے کیس بنانے والے نیب کے نواز شریف دور کے سیف الرحمن نے بقول حامد میر ان کے پائوں پکڑ کر معافی مانگی ۔ جسٹس عبد القیوم کی آڈیو ٹیپ شہباز شریف اور سیف الرحمن کے ساتھ پکڑے جانے پر جسٹس عبد القیوم ملک کو مستعفی ہونا پڑا اور اس کیس میں بھی زرداری باعزت بری ہوئے۔نوائے وقت کے چیف ایڈیٹر مجید نظامی (مرحوم)نے آصف علی زرداری کو’’ مرد حُر‘‘ کا خطاب دیا تھا حالانکہ وہ نواز شریف کے بہت زیادہ حامی بلکہ سرپرست سمجھے جاتے تھے۔ اسی طرح نواز شریف پر بھی کرپشن کا کوئی کیس ثابت نہ ہو سکا ۔ ججز کو نواز شریف کے خلاف جس طرح استعمال کرنے کی کوشش کی گئی وہ بھی سب جانتے ہیں ۔ ایسا نہیں کہ ملک میں کرپشن نہیں ہوتی اگر کرپشن نہ ہوتی تو ہمارا ملک اس حالت تک کیسے پہنچتا۔ وائٹ کالر کرائم ایک تو ثابت کرنا بہت مشکل ہوتا ہے دوسرا ہمارا تفتیشی نظام جدید ذرائع استعمال کرنے سے مکمل طو رپر عاری ہے جبکہ ہمارا عدالتی نظام بھی گل سڑ چکا ہے اور اس کی بدبو نے سارا ماحول برباد کر رکھا ہے۔ طاقت اور اشرافیہ بھی کرپشن کو سیاسی ہتھکنڈوں کے طور پر استعمال کرتی آرہی ہے رہا مسئلہ بیورو کریسی کا تو اس کی معاونت کے بغیر بھی کرپشن ممکن نہیں ہوتی۔ بد قسمتی سے سیاستدان جوعوام کے ووٹ سے منتخب ہو کر آتے ہیں وہ بھی کوئی اچھی کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے ۔ اگر غیر منتخب قوتیں راہ میں رکاوٹ ہیں مگر وہ بھی خود کو اہل ثابت نہ کر سکے۔آج سے کوئی تیس دہائی پہلے پنجاب کے شہروں میں بجلی کے کھمبوں پر چھوٹے چھوٹے بورڈ لگے ہوتے تھے جو کہ غالباً میجر رشید وڑائچ (مرحوم)نے لگوائے تھے میں نے ایک ملاقات میں منو بھائی سے ان کے بارے میں پو چھا کہ ان کا کیا فائدہ ہے تو پہلے انہوں نے بتایا کہ میں نے میجر رشیدوڑائچ ( مرحوم )سے بھی سوال کیا تھا تو انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے معاشرے میں کرپٹ معزز بن گیا ہے ۔ کسی کرپٹ کے سامنے تو لوگ اسے نہیں کہتے اس لئے بورڈوں پر یہ لکھوا دیا ہے ’’ رشوت لینا جس کا کام ذلیل کمینہ اس کا نام‘‘ ۔ کرپشن اور لا قانونیت پر خاموشی بھی ہماری اخلاقی اقدار کی تنزلی کی سب سے بڑی مثال ہے۔
پیپلز پارٹی کا بھٹو اور بے نظیر کے بعد یہ المیہ رہا ہے کہ اسے اچھے ڈیفنڈر نہیں ملے اور قمر الزمان کائرہ کے علاوہ کوئی بھی پیپلز پارٹی اور آصف علی زرداری کے مئوقف کو مئوثر انداز میں سپورٹ نہیں کر سکا ۔ رہا معاملہ رضا ربانی اور اعتزازا حسن جیسے دانشوروں کا تو پارٹی کی ساکھ کے حوالے سے ان کا بھی کوئی قابل ذ کردار نہیں۔ نواز شریف اس حوالے سے خوش قسمت ہیں کہ انہیں ہر دور میں بہت سے ڈیفنڈ رز میسر رہے جو ان کے مئوقف کو ہر دفعہ خوبصورت الفاظ اور انداز میں پیش کرتے رہے ۔ اس حوالے سے آصف علی زرداری نے بھی کوتاہی کی اور کئی سال میں لاہور کے علاوہ اسلام آباد میں بھی مئوثرمیڈیا ٹیم نہ بنا سکے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں