تحریر: ڈاکٹر ظفر چوہدری
ضیاء الحق کے مارشل لاء میں نواز شریف پنجاب کابینہ میں گورنر پنجاب جنرل (ر) جیلانی کی سفارش اور ذاتی دلچسپی پر وزیر خزانہ بنے ۔ جنرل جیلانی کے متعلق بھی بہت کچھ کہا جاتا رہا مگر ان سے قریبی تعلق رکھنے والوں کا کہنا تھا کہ وہ مالی بدعنوانیوں میں بالکل ملوث نہیں تھے حتیٰ کہ میاں محمد شریف نے انہیں اپنے گھر کی تعمیر کیلئے مفت سریا دینا چاہا جو انہوں نے لینے سے انکار کر دیا البتہ وہ دوست نواز تھے اور شریف خاندان ملک ریاض کی طرح یہ جانتا تھا کہ کاروباری معاملات میں متعلقہ اداروں اور شخصیات کو کیسے رام کیا جا سکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ نواز شریف جنرل جیلانی کے ساتھ کارڈ کھیلتے جس میں شرط لگائی جاتی تھی اور وہ جان بوجھ کر ہار جاتے تھے اس طرح جنرل جیلانی صاحب سمجھتے تھے کہ انہوں نے اپنی مہارت سے نواز شریف کو مات دی ہے۔ تاہم یہ کہانی بھی غیر مصدقہ ہے اور اللہ ہی جانتا ہے کہ یہ محض افواہ تھی یا حقیقت۔ وزیر خزانہ کی حیثیت سے میاں نواز شریف نے اپنے والد میاں محمد شریف کی سرپرستی میں کاروبار کو بہت توسیع دی‘ بینکوں سے قرضوں کی حصول آسان ہو گیا پھر جب 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات ہوئے جس میں ایم آر ڈی میں شامل جماعتوں نے بائیکاٹ کر دیا تو پیپلز پارٹی بھی اسی جال میں پھنس گئی جس کے نتائج وہ آج تک بھگت رہی ہے۔
1985ء کے غیر جماعتی انتخابات سے ہماری جمہوریت مکمل طور پر ’’کمرشل‘‘ ہو گئی اور تاجر طبقہ براہ راست سیاست میں شراکت دار ہو گیا کیونکہ پہلے تاجر سیاستدانوں پر خرچ کر کے اپنے مفادات حاصل کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ میاں نواز شریف نے بھی غلام مصطفی کھر کو اسی زمانے میں 10 ہزار روپے نذرانہ پیش کیا تھا۔ اس وقت وہ کافی رقم تھی اور لطف کی بات یہ ہے کہ پارلیمانی نظام میں دنیا بھر میں جب بھی کوئی سیاسی جماعت تشکیل پاتی ہے وہ اپنے منشور پر انتخابات میں حصہ لیتی ہے پھر جیت کر حکومت بناتی ہے مگر یہاں الٹی گنگا بہائی گئی۔ پہلے انتخابات کروائے گئے اور بعد میں پارلیمنٹ کے منتخب ممبران پر مشتمل ایک عدد جماعت بنائی گئی اور ظاہر ہے کہ وہ مسلم لیگ ہی تھی جس کے پہلے ہی اجلاس میں جنرل ضیاء الحق نے فرمایا کہ انتخابی اخراجات کی حد تو 15 لاکھ روپے تھی مگر آپ کی اکثریت نے اس سے کئی گنا زیادہ خرچ کیا ہے لیکن میں آپ سب کو معاف کرتا ہوں۔ دراصل ضیاء الحق کو کرپشن سے کوئی بھی مسئلہ نہیں تھا ان کو صرف اپنی حکومت کی اطاعت اور توسیع کرانا ہی مقصود تھا۔ ضیا حکومت نے عملی طور پر قانون سازی پارلیمان کی بجائے اپنے ہاتھ میں لے رکھی تھی اور اراکین اسمبلی کو ترقیاتی فنڈ کے ذریعے کرپشن پر لگا کہ اپنے اپنے حلقوں میں ’’منی مارشل ایڈمنسٹریٹر‘‘ بنا کر تھانیدار‘ تحصیلدار ‘ ڈی سی اور ایس پی اپنی مرضی کے لگوانے کا اختیار دے دیا یہ سب اقدامات بنیادی طور پر عوام میں پیپلز پارٹی کو کمزور کرنے اور مقامی بااثر خاندانوں کی نئی کھیپ تیار کر لی جسے ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ فرقہ پرستی‘ قوم پرستی اور ذات پات کو فروغ دے کر عوام میں تقسیم در تقسیم کو مزید گہرا کر دیا حالانکہ قیام پاکستان سے ہی ایک قوم نہ بننے کی وجہ قبائلی سرداری اور جاگیرداری نظام کو کہا جاتا مگر اس دور میں شہری کاروباری طبقہ کے علاوہ صنعت کار بھی اس کھیل کا حصہ بن گئے۔ اس دور میں مذہبی جماعتوں کو افغان جہاد کی چھتری کے نیچے بے پناہ وسائل فراہم کئے گئے۔ اسی افغان جہاد نے کلاشنکوف کلچر‘ منشیات اور افغان مہاجرین کی صورت میں ہماری معاشرتی اقدار کو تباہ کر دیا۔ افغان طالبان جو آج کالعدم پی ٹی ٹی کی سرپرستی کر رہے ہیں اسی کے نتیجہ میں تاجر ٹیکس دینے کو تیار نہیں اور کالعدم پاکستان طالبان تحریک ملکی سلامتی کیلئے مسلسل عذاب بنی ہوئی ہے۔ ویسےتو کہتے ہیں کہ بھٹو زندہ ہے اور تاریخ میں بھی زندہ رہے گا مگر عملی طور پر ہمارے ملک کے تمام اداروں اور کالعدم پی ٹی ٹی امن و امان کی صورتحال معاشرتی اور سماجی جبر‘ ظاہری پارسائی اور عوام کشی کی شکل میں جنرل ضیاء الحق بھی ہر جگہ زندہ ہے۔ ضیاء الحق کی سیاسی باقیات یعنی نواز شریف اور ان کی سیاسی جماعت نے ذوالفقار علی بھٹو‘ بے نظیر اور زرداری کے خلاف جو کچھ کہہ رکھا ہے اس سے معافی مانگ کر وہ دوبارہ رجوع تو کر چکے ہیں مگر فاصلے موجود ہیں۔ خدا کرے کہ ہماری سماجی اور معاشرتی اقدار بھی ضیا الحق دور کی دو عملی اور خود ساختہ پارسائی کے چنگل سے آزاد ہو جائیں۔