تحریر: ڈاکٹر ظفر چوہدری
یہ بات تو1970کے انتخابات اور1971 کی جنگ سے شروع ہوئی تھی کہاں جا پہنچی۔ ہندوستان کی جنگ آزادی میں نمایاں مسلمان شخصیات میں جمعیت علما ہند کے رہنمائوں کی قربانیاں بے مثال تھیں بہت سے علما کو کالا پانی اور مالٹا جزائر میں قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ سارے نام لکھنا تو ممکن نہیں مگر چند بڑے نام مولانا محمود الحسن، مولانا الیاس کاشمیری اس کے علاوہ مولانا عبید اللہ سندھی اور مجلس احرار کے رہنما مولانا حسرت موہانی، خاکسار تحریک کے رہنما علامہ عنایت اللہ المشرقی اور سید عطا اللہ شاہ بخاری شامل ہیں۔ اس کے علاوہ خان عبدالغفار خان جنہیں سرحدی گاندھی بھی کہا جاتا ہے اور عبدالصمد اچکزئی نے بھی طویل عرصہ انگریزوں کی جیل میں گزرا۔ خان عبدالغفار خان نےصوبہ سرحد( موجودہ کے پی کے) میں تعلیم کے فروغ اور قبائلی تنازعات ختم کرانے کے حوالے سے نمایاں خدمات سرانجام دیں اور ان رہنمائوں میں بہت سے رہنما نیلسن منڈیلا سے بھی زیادہ عرصہ جیل میں رہے مگر تحریک پاکستان کی مخالفت کرنے کیوجہ سے ان کے خلاف بھی افواہوں کا بازار گرم رہااور مولانا حسرت موہانی کے علاوہ جو تحریک پاکستان کے حامی تھے۔ مگرمولانا حسرت موہانی وہ بھی پاکستان نہ آئے بلکہ انہوں نے کہا کہ میں پاکستان میں کفر کے الزام میں مارے جانے کی بجائے ہندوستان میں مسلمان کی حیثیت سے مارے جانے کو پسند کرونگا۔ اس جملے میں ہماری گزشتہ76سال کی تاریخ پنہاں ہے اور آج بعض حوالوںسے غور کریں تو 76 سال سے کی ان کی بات میں کتنا وزن تھا۔
تحریک آزادی ہند کے رہنمائوں کو غداران وطن بنا کر پیش کیا گیا اور مفاد پرست عناصر نے قائد اعظم اور خان عبدالغفار خان میں صلح کی ہر کوشش کو ناکام بنا دیا۔ اسی طرح مولاناسید ابواعلیٰ مودودی نے عام فہم زبان میں اسلام کی تعلیم کے ذریعے مسلمانوں میں شعور پیدا کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا اور ان کی جماعت نےرفاہی کاموں میں نہایت ایمانداری سے پورے ملک میں قابل رشک خدمات سرانجام دیں ۔ ایمانداری کے حوالے سے بھی جماعت کارکنوں کا کردار مثالی رہا ۔ مجھے جماعت اسلامی کے دوست نے بتایا تھا کہ صرف اعجاز احمدچوہدری جو میاں طفیل مرحوم کے داماد تھےپر مالی کرپشن کے چند الزامات تھے اور وہ بھی جماعت سے فارغ کردیئے گئے۔ آج کل پی ٹی آئی کے سینئر ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی قابل ذکر مثال نہیں۔ جماعت اسلامی کی سیاست سے شدید اختلافات رکھنے والے بھی ایمانداری کے معاملے میں جماعت پر اعتماد کرتے ہیں۔ گوٹھ ماچھی صادق آباد میں 1957 میں ہونے والے اجلاس میں اگر جماعت اسلامی کو رفاہی کاموں تک رکھنے والوں کی دلیلوں کومان لیا جاتا تو شاہد حالات مختلف ہوتے۔ اس بارے اب بھی مختلف رائے پائی جاتی ہے۔ اس طرح ہماری پاک فوج بھی منفی پروپیگنڈہ سے متاثر ہوئی۔ چند گنے چنے لوگوں نے حلف کی خلاف ورزی کی اور پورے ادارے کو مورد الزام ٹھہرایا گیا۔ ہماری فوج کے جوان اورآفیسر نہایت محب وطن اور جذبہ شہادت سے سرشارہیں۔ جنرل مانک شاہ جو کہ1971 کی جنگ میں بھارتی افواج کے کمانڈر انچیف تھے میں نے ان کا ایک انٹرویو سنا جس میں اس نے مشرقی پاکستان میں لڑنے والوں پاک فوج کے جوانوں کی بہت ہی زیادہ تعریف کی اور یہ بھی کہا کہ میں نے پاکستان کے فوجی جنگی قیدیوں کی آنکھوں میں جو انتقام دیکھا ہے وہ کبھی نہیںبھول سکتا ۔1971 کے حوالے ہی سے مشرقی پاکستان میں خواتین سے ریپ
کرنے اور تین لاکھ بنگالی خواتین کے حاملہ ہونے کی مہم بھی بین الاقوامی سطح پر پاکستانی فوج کے مورال کو ختم کرنے کےلئے چلائی گئی تھی۔ چند واقعات ہو سکتے ہیں۔مگر پراپیگنڈا بہت ہی زیادہ تھا اسی طرح مکتی باہنی نے بہاریوں اور مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے سول ملازمین کے ساتھ جو کچھ کیا وہ بھی المناک داستان ہے۔اِس پر کوئی نہیں بولتا۔
عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد منظور ہونے کے بعد فوج میں تقسیم کی جو افواہیں پھیلائی گئیں وہ بھی افسوسناک تھیں۔ پاکستان کی افواج میں چین اینڈ کمانڈ سسٹم انتہائی مضبوط ہے۔جو کسی بھی ڈسپلن فورس کےلئے ضروری ہے۔ پچھلے گیارہ بارہ سال کے مسلسل پروپیگنڈہ سے چند ریٹائرڈ فوجی افسران اور ان کی بیگمات کا متاثر ہونا قدرتی عمل تھا۔ جس طرح عمران خان کو نجات دہندہ اور صلاح الدین ایوبی ثانی بنا کرپیش کیاگیا تو چند فوجی افسران کا متاثر اور کچھ کا اپنے ذاتی مقاصد کی تکمیل کے لئے عمران خان نیازی کی حمایت کرنا بھی ممکن ہو سکتا ہے۔ مگر 9 مئی کے واقعات کے بعد ثابت ہوگیا کہ ہمارا چین اینڈ کمانڈ سسٹم بالکل محفوظ ہے اور چیف آف سٹاف جنرل عاصم منیر کی لیڈر شپ اور گرفت بارے کمزوری کے حوالے سے پھیلائی جانے والی افواہیں بھی اپنے انجام کو پہنچ چکی ہیںکہ وقت نے بہت کچھ عیاں کر دیا ہے۔(ختم شد)