اسلام آباد: ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے انکشاف کیا ہے کہ امریکی افواج کے انخلا کے دوران افغانستان میں 7.2 بلین ڈالر مالیت کا عسکری سازوسامان چھوڑا گیا، جو اب پورے خطے کے لیے ایک سنگین خطرہ بنتا جا رہا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ افغان طالبان رجیم نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی امن کے لیے بھی چیلنج بن چکی ہے۔
سینئر صحافیوں کے ساتھ اہم ملاقات کے دوران ڈی جی آئی ایس پی آر نے ملکی سلامتی کی صورتحال پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ 4 نومبر 2025 سے اب تک 4910 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کیے گئے جن میں 206 دہشتگرد مارے گئے۔ رواں برس مجموعی طور پر 67023 آپریشنز کیے گئے جن میں خیبرپختونخوا میں 12857 اور بلوچستان میں 53309 کارروائیاں شامل ہیں۔ ان آپریشنز کے نتیجے میں 1873 دہشتگرد ہلاک ہوئے، جن میں 136 افغان بھی شامل ہیں۔
انہوں نے بارڈر مینجمنٹ سے متعلق پھیلائے جانے والے پروپیگنڈے کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاک افغان سرحد مشکل جغرافیہ رکھتی ہے، خیبرپختونخوا کی سرحدی پٹی 1229 کلومیٹر پر محیط ہے اور بعض سینٹرز کے درمیان فاصلہ 20 سے 25 کلومیٹر تک ہے، جس کے باعث نگرانی ایک مسلسل چیلنج ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے الزام عائد کیا کہ افغان طالبان کی مکمل سہولت کاری کے باعث دہشتگرد پاکستان میں داخل ہوتے ہیں، جبکہ بارڈر کے دونوں اطراف منقسم دیہات اور کمزور گورننس صورتحال کو مزید پیچیدہ بناتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نان کسٹم پیڈ گاڑیاں اسی کرائم نیٹ ورک کا حصہ ہیں جو دہشتگردی میں استعمال ہوتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے افغانستان سے مطالبہ کیا ہے کہ دہشتگردوں کی پشت پناہی بند کرے اور ایک قابلِ تصدیق میکنزم کے تحت دوطرفہ معاہدہ کرے۔ اگر ثالث ملک اس نگرانی کی ذمہ داری لیتے ہیں تو پاکستان کو کوئی اعتراض نہیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ طالبان کا یہ کہنا کہ دہشتگرد “مہمان” ہیں غیر منطقی بات ہے: “اگر وہ پاکستانی ہیں تو انہیں ہمارے حوالے کیا جائے۔ یہ کیسے مہمان ہیں جو اسلحہ لے کر پاکستان میں داخل ہوتے ہیں؟”
انہوں نے SIGAR رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ امریکی سازوسامان دہشتگردوں کے ہاتھ لگنے کا بڑا ذریعہ بنا ہوا ہے۔ طالبان حکومت تمام قومیتوں کی نمائندگی نہیں کرتی اور نہ ہی خواتین کا کوئی کردار ہے، اس لیے انہیں افغانستان کے عوام کا نمائندہ نہیں کہا جا سکتا۔
بھارت سے متعلق بات کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھارتی آرمی چیف کے حالیہ بیان کو “خود فریبی” قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر سندور طرز کی کارروائی ہوئی تو بھارت کے لیے وہ ایک “horror فلم” ثابت ہو گی۔
ایرانی ڈیزل اسمگلنگ کو دہشتگردی کی فنڈنگ کا بڑا ذریعہ قرار دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ کریک ڈاؤن سے پہلے روزانہ 20.5 ملین لیٹر ڈیزل اسمگل ہوتا تھا جو اب گھٹ کر 2.7 ملین لیٹر رہ گیا ہے۔
بلوچستان میں نیشنل ایکشن پلان پر تیزی سے عملدرآمد جاری ہے اور 27 اضلاع میں پولیس سسٹم نافذ ہو چکا ہے جبکہ روزانہ 140 اور ماہانہ 4000 سے زائد کمیونٹی انگیجمنٹ میٹنگز کی جا رہی ہیں، جن کے مثبت اثرات سامنے آ رہے ہیں۔







