آج کی تاریخ

میرا قائد عمران خان فوجی آپریشن کیخلاف تھا، ہم بھی اس کے خلاف ہیں،نو منتخب وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی-میرا قائد عمران خان فوجی آپریشن کیخلاف تھا، ہم بھی اس کے خلاف ہیں،نو منتخب وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی-ایران کا غزہ امن کانفرنس میں شرکت سے انکار، "اپنے عوام پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے"، ایرانی وزیرِ خارجہ-ایران کا غزہ امن کانفرنس میں شرکت سے انکار، "اپنے عوام پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے"، ایرانی وزیرِ خارجہ-سپر ٹیکس کیس کی سماعت میں ججز اور وکلا کے درمیان دلچسپ تبادلہ خیال-سپر ٹیکس کیس کی سماعت میں ججز اور وکلا کے درمیان دلچسپ تبادلہ خیال-پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی، کے ایس ای-100 انڈیکس 4 ہزار پوائنٹس گر گیا-پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی، کے ایس ای-100 انڈیکس 4 ہزار پوائنٹس گر گیا-نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی: غزہ میں دوبارہ فوجی کارروائی کا اشارہ-نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی: غزہ میں دوبارہ فوجی کارروائی کا اشارہ

تازہ ترین

افغانستان کے ہمسایوں کا متفقہ پیغام

افغانستان کی موجودہ صورتحال اور اس کے ہمسایہ ممالک کی تشویش کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس کے موقع پر پاکستان، ایران، روس اور چین کے وزرائے خارجہ نے ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کر کے یہ واضح کر دیا ہے کہ اب مزید تاخیری حربے یا مبہم بیانات قابل قبول نہیں۔ ان چار ممالک کا ایک زبان ہو کر یہ مطالبہ کرنا کہ افغان سرزمین کو دہشت گردی، جنگ اور بیرونی مداخلت سے پاک ہونا چاہیے، طالبان حکومت کے لیے ایک کڑا اور دوٹوک پیغام ہے۔اس مشترکہ بیان میں نہ صرف داعش، القاعدہ، تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) جیسے گروہوں کے وجود پر شدید تشویش ظاہر کی گئی بلکہ طالبان سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ وہ ان کے خلاف مؤثر، ٹھوس اور قابل تصدیق اقدامات کریں۔ یہ الفاظ محض سفارتی جملے نہیں بلکہ ایک سخت تنبیہ ہیں کہ اگر طالبان عالمی برادری میں قبولیت چاہتے ہیں تو انہیں اپنے رویے اور پالیسی میں بنیادی تبدیلی لانا ہوگی۔پاکستان کی صورتحال اس پس منظر میں زیادہ سنگین ہے۔ گزشتہ ہفتے خیبر پختونخوا کے ضلع کرک میں سیکیورٹی فورسز نے 17 دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کی اطلاع دی۔ اسی طرح وزیر مملکت برائے داخلہ نے حالیہ پریس کانفرنس میں یہ انکشاف کیا کہ دہشت گرد حملوں میں ملوث 80 فیصد افراد افغان شہری ہیں۔ یہ اعداد و شمار نہ صرف پاکستان کے لیے لمحہ فکریہ ہیں بلکہ طالبان کے اس دعوے کی نفی بھی کرتے ہیں کہ وہ اپنی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔اس کے ساتھ ساتھ اعلامیے میں منشیات کی بڑھتی ہوئی اسمگلنگ پر بھی تشویش ظاہر کی گئی۔ افغانستان دنیا میں منشیات کی سب سے بڑی پیداوار کرنے والا ملک رہا ہے اور اس کے اثرات پورے خطے کو لپیٹ میں لیتے ہیں۔ اگر طالبان اپنی حکومت کو معتبر ثابت کرنا چاہتے ہیں تو انہیں دہشت گرد گروہوں کے ساتھ ساتھ منشیات کے کاروبار کے خاتمے کے لیے بھی سخت اقدامات کرنے ہوں گے۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ چین اور روس جیسے ممالک، جو طالبان کے ساتھ سفارتی اور معاشی تعلقات رکھتے ہیں، بھی اب کھل کر اپنی تشویش ظاہر کر رہے ہیں۔ روس واحد ملک ہے جس نے طالبان حکومت کو باضابطہ تسلیم کیا، جبکہ چین افغانستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر چکا ہے۔ اگر یہ دونوں ممالک بھی کھلم کھلا یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ افغانستان دہشت گرد گروہوں کی محفوظ پناہ گاہ بنا ہوا ہے تو طالبان کی تردیدوں کی کوئی وقعت باقی نہیں رہتی۔مشترکہ اعلامیے میں ایک اور اہم بات یہ تھی کہ چاروں ممالک نے امریکہ یا کسی اور طاقت کے دوبارہ افغانستان میں فوجی اڈے قائم کرنے کی سخت مخالفت کی۔ یہ مؤقف اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ افغانستان کی موجودہ ابتر صورتحال میں بیرونی فوجی مداخلت مزید تباہی ہی لائے گی۔ خطے کے ممالک اس بات پر متفق ہیں کہ افغانستان کو بیرونی مداخلت سے پاک کر کے اسے اپنے ہی لوگوں کے ہاتھ میں مضبوط اور مستحکم ریاست بنانا ہوگا۔اگر طالبان حکومت خطے کے ان چار ہمسایہ ممالک کے خدشات کو نظر انداز کرتی ہے تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ یہ ممالک اپنے سفارتی تعلقات کو کم ترین سطح پر لے جا سکتے ہیں اور طالبان کو مکمل عالمی تنہائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس وقت طالبان کے پاس ایک موقع ہے کہ وہ اپنے رویے میں تبدیلی لا کر دنیا کو یہ دکھائیں کہ وہ نہ صرف اپنے ملک کے عوام بلکہ اپنے ہمسایوں کی سلامتی کو بھی یقینی بنانے کے لیے سنجیدہ ہیں۔اصل سوال یہ ہے کہ کیا طالبان واقعی عالمی برادری میں اپنی جگہ بنانے کے لیے عملی اقدامات کرنے پر آمادہ ہیں یا پھر وہ محض بیانات کے ذریعے وقت گزاری کی پالیسی پر گامزن رہیں گے؟ وقت زیادہ نہیں ہے۔ اگر افغانستان سے دہشت گرد سرگرمیوں میں واضح کمی نہ آئی تو خطے کے ممالک مجبوراً سخت فیصلے کریں گے۔ طالبان کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اب ان کے پاس عذر کی کوئی گنجائش نہیں بچی۔

شیئر کریں

:مزید خبریں