افغانستان کی سرزمین گزشتہ چار دہائیوں سے مسلسل شورش، خانہ جنگی اور عالمی طاقتوں کی کشمکش کا میدان بنی رہی ہے۔ اب جبکہ وہاں طالبان کی حکومت قائم ہے، دنیا یہ امید لگائے بیٹھی تھی کہ شاید عسکریت پسندی اور دہشت گردی کے باب کچھ مدھم پڑ جائیں۔ لیکن اقوامِ متحدہ کی تازہ ترین رپورٹ نے اس تصور کو لرزا کر رکھ دیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق شام اور مشرقِ وسطیٰ میں سرگرم داعش کے جنگجو اب افغانستان کا رخ کر رہے ہیں۔ یہ پیش رفت نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان، وسطی ایشیا اور پورے خطے کے لیے ایک نئے خطرے کی گھنٹی ہے۔یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ طالبان کے قبضے کے بعد افغانستان پہلے ہی دہشت گرد گروہوں کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ بن چکا ہے۔ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی )، اویغور جنگجو، القاعدہ کے ارکان اور داعش-خراسان (IS-K) سب اسی سرزمین پر اپنے جھنڈے گاڑے بیٹھے ہیں۔ اب اگر ان میں شام اور عراق کے تجربہ کار داعش کے لڑاکے بھی شامل ہو جائیں تو یہ صورتحال خطے کو نئی ہلاکت خیزی کی طرف دھکیل سکتی ہے۔داعش-خراسان گزشتہ کچھ برسوں سے افغانستان میں متحرک ہے۔ اس کے حملے کابل ایئرپورٹ سے لے کر مختلف شیعہ مساجد اور عوامی مقامات تک پھیلے ہوئے ہیں۔ اگر اسے مشرقِ وسطیٰ سے براہِ راست کمک ملتی ہے تو نہ صرف اس کی عسکری صلاحیت بڑھے گی بلکہ اس کا جغرافیائی دائرہ بھی وسعت اختیار کرے گا۔ وسطی ایشیا کے ممالک پہلے ہی اسے سب سے بڑا خطرہ قرار دے چکے ہیں اور پاکستان کے لیے بھی یہ لمحۂ فکریہ ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان پہلے ہی ٹی ٹی پی کے حملوں کی زد میں ہے، اور اگر داعش-خراسان بھی مغربی سرحد پر پوری قوت سے کھڑا ہو گیا تو ہماری سلامتی کے چیلنج کئی گنا بڑھ جائیں گے۔یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ طالبان خود اس الجھن کے ذمہ دار ہیں۔ وہ القاعدہ اور ٹی ٹی پی جیسے “اتحادی” گروہوں کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں، مگر داعش کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ اس دوغلی پالیسی نے افغانستان کو عسکریت پسندوں کا جنگل بنا دیا ہے۔ ایک طرف طالبان عالمی سطح پر یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ وہ اب ایک ریاستی قوت ہیں، دوسری طرف ان کا عمل ظاہر کرتا ہے کہ وہ دہشت گرد گروہوں کو اپنی حکمتِ عملی کا حصہ سمجھتے ہیں۔ یہ تضاد نہ صرف ان کی حکومت کے لیے خطرہ ہے بلکہ پورے خطے کی سلامتی کے لیے ایک سنگین سوالیہ نشان ہے۔یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ داعش محض ایک عسکری گروہ نہیں بلکہ ایک نظریاتی تحریک ہے، جو اپنی خلافت کے خواب کو نئی سرزمینوں پر پھیلانے کے لیے بے چین ہے۔ شام اور عراق میں شکست کے بعد اگر یہ افغانستان میں قدم جماتی ہے تو وہاں سے یہ تحریک وسطی ایشیا کے راستے روس تک اور مغربی سرحدوں سے پاکستان تک اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ اس کے نتائج نہ صرف مزید خونریزی اور تباہی ہوں گے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ایک نئے عسکری بحران کو جنم دیں گے۔اب سوال یہ ہے کہ اس ابھرتے ہوئے خطرے کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟ سب سے پہلے تو افغان طالبان کو اپنی پالیسی میں بنیادی تبدیلی لانی ہوگی۔ وہ یہ فیصلہ نہیں کر سکتے کہ کون سا گروہ “قابلِ قبول” ہے اور کون سا “ناقابلِ قبول”۔ دہشت گردی کسی بھی شکل میں ہو، وہ نہ افغانستان کے عوام کے حق میں ہے نہ ہمسایہ ممالک کے۔ طالبان کو چاہیے کہ وہ القاعدہ اور ٹی ٹی پی جیسے گروہوں سے بھی قطع تعلق کریں اور داعش کے خلاف مشترکہ حکمتِ عملی اختیار کریں۔عالمی برادری کو بھی اس معاملے میں غفلت نہیں برتنی چاہیے۔ افغانستان کو تنہا چھوڑ دینا دراصل داعش اور دیگر گروہوں کو کھلی چھوٹ دینا ہے۔ اگر دنیا چاہتی ہے کہ وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا ایک نئے دہشت گردی کے طوفان سے محفوظ رہیں تو اسے طالبان پر دباؤ ڈالنا ہوگا کہ وہ ہر قسم کی عسکریت پسندی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کریں۔ اقوامِ متحدہ کی رپورٹ پہلے ہی واضح کر چکی ہے کہ یہ مسئلہ محض افغانستان تک محدود نہیں رہے گا بلکہ خطے کی سرحدوں کو پار کر کے دنیا کو متاثر کرے گا۔پاکستان کے لیے یہ لمحہ اور بھی حساس ہے۔ ہماری مغربی سرحد پر پہلے ہی بدامنی ہے۔ ٹی ٹی پی کے حملے بڑھ رہے ہیں، اور افغانستان میں داعش کی نئی موجودگی ان حملوں کو مزید سنگین بنا سکتی ہے۔ ایسے میں پاکستان کو اپنی سرحدی حکمتِ عملی مضبوط بنانی ہوگی، انٹیلی جنس شیئرنگ کو بڑھانا ہوگا، اور سب سے بڑھ کر اپنی داخلی کمزوریوں پر قابو پانا ہوگا۔ کیونکہ اگر اندرونی سطح پر انتشار اور سیاسی عدم استحکام رہا تو بیرونی خطرات کا مقابلہ مزید دشوار ہو جائے گا۔افغان طالبان کے لیے بھی یہ ایک امتحان ہے۔ اگر وہ واقعی دنیا کو یہ یقین دلانا چاہتے ہیں کہ وہ ایک ذمہ دار حکومت ہیں تو انہیں ہر عسکری گروہ کے خلاف کارروائی کرنا ہوگی، چاہے وہ ان کا پرانا اتحادی ہو یا موجودہ دشمن۔ بصورتِ دیگر، افغانستان ایک بار پھر عالمی دہشت گردی کا نیا مرکز بن جائے گا، اور اس کا خمیازہ سب سے پہلے افغان عوام اور پھر خطے کے دیگر ممالک کو بھگتنا ہوگا۔اختتام پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ داعش کا افغانستان میں ابھرنا محض ایک خبر نہیں بلکہ ایک خطرے کی گھنٹی ہے۔ اس خطرے کو نظر انداز کرنا نہ طالبان کے لیے ممکن ہے نہ خطے کے دیگر ممالک کے لیے۔ اگر ابھی مشترکہ اقدامات نہ کیے گئے تو آنے والے برسوں میں خطہ ایک بار پھر خون اور بارود کے گرداب میں پھنس سکتا ہے۔
