صحافت ایک ایسا شعبہ ہے جو کسی بھی معاشرے کے شعور، ترقی اور شفافیت کا آئینہ ہوتا ہے۔ یہ وہ آئینہ ہے جس میں قومیں اپنا چہرہ دیکھتی ہیں، اپنی غلطیوں سے سیکھتی ہیں اور اصلاح کی راہ پر گامزن ہوتی ہیں۔ تاہم، جب اس آئینے پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جائے، یا اسے توڑنے کی کاوش ہو، تو صرف صحافی متاثر نہیں ہوتے بلکہ پوری قوم کی بصیرت دھندلا جاتی ہے۔ حالیہ دنوں میں اسلام آباد سے صحافی مراد وحید کی گرفتاری اور ان پر سائبر کرائم ایکٹ کے تحت مقدمہ درج ہونا ایک ایسا واقعہ ہے جو ہمیں بطور قوم یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا ہم صحافت کو اپنا اتحادی سمجھتے ہیں یا محض ایک مخالف آواز جسے خاموش کر دینا کافی سمجھا جاتا ہے؟مراد وحید ایک تجربہ کار اور فعال صحافی ہیں جنہوں نے مختلف میڈیا اداروں میں خدمات انجام دی ہیں اور ایک آزاد نیوز ویب سائٹ کے ذریعے اپنی آواز کو عام کیا۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے سوشل میڈیا پر ایسی معلومات اور آراء شیئر کیں جنہیں اداروں کے مطابق “خوف و ہراس پھیلانے والی” اور ریاست مخالف” قرار دیا گیا۔ اس الزام کے تحت ان پر پیکا ایکٹ 2016 کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا، جس میں سائبر دہشت گردی، جھوٹی معلومات کی اشاعت اور نفرت انگیزی کے الزامات شامل ہیں۔ یہ الزامات سنگین نوعیت کے ہیں اور ان کا تعلق ملکی سلامتی جیسے حساس معاملات سے جوڑا گیا ہے۔ مگر اس پورے معاملے میں جس چیز نے سب سے زیادہ سوالات کو جنم دیا، وہ مراد وحید کی گرفتاری کا طریقہ تھا، جسے ان کے اہلِ خانہ اور انسانی حقوق کے کارکنان نے ایک “جبری گمشدگی” کے طور پر بیان کیا۔رات کی تاریکی میں کسی صحافی کو بغیر وارنٹ کے، شناخت ظاہر کیے بغیر، ماسک پہنے افراد کے ہاتھوں گھر سے لے جانا اور بعد میں ایف آئی اے کے حوالے کر دینا، ایک ایسے ریاستی رویے کی نشاندہی کرتا ہے جس میں قانون کی شفافیت کم اور طاقت کا مظاہرہ زیادہ نظر آتا ہے۔ ان کی ساس، جو کہ خود ایک بیمار خاتون ہیں، نے واقعے کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے الزام لگایا کہ انہیں دھکا دیا گیا، ان کا فون لے لیا گیا، اور ان کے دل کی بیماری کی بھی پرواہ نہیں کی گئی۔ یہی نہیں، مراد کے ایک قریبی ساتھی صحافی نے جب واقعے کی ویڈیو بنانے کی کوشش کی تو انہیں بھی زد و کوب کیا گیا اور ان کا سامان چھین لیا گیا۔ یہ سب باتیں اس پورے واقعے کو مزید پیچیدہ بنا دیتی ہیں اور اس میں شفاف قانونی کارروائی کی جگہ طاقت کے بے دریغ استعمال کا تاثر غالب آ جاتا ہے۔اس اداریے کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ مراد وحید یا کسی بھی شہری کو قانون سے ماورا قرار دیا جائے۔ اگر ان پر واقعی ایسے الزامات ہیں جو سائبر کرائم ایکٹ کے زمرے میں آتے ہیں، تو ان کا جائزہ لینا، تحقیقات کرنا اور عدالتی کارروائی عمل میں لانا بالکل ضروری ہے۔ مگر یہ تمام کارروائیاں آئینی حدود کے اندر، شفافیت کے ساتھ اور ملزم کو اس کے قانونی حقوق فراہم کرتے ہوئے ہونی چاہئیں۔ جب قانون کے نفاذ کا عمل خود غیر شفاف اور خوف زدہ کرنے والا بن جائے، تو پھر قانون کی ساکھ پر ہی سوال اٹھنے لگتے ہیں۔ ریاست کا یہ فرض ہے کہ وہ قانون کا نفاذ بھی کرے اور اس بات کو بھی یقینی بنائے کہ یہ قانون کسی شخص، ادارے یا حلقے کے لیے انتقامی ہتھیار نہ بنے۔پیکا ایکٹ کا مقصد یقیناً ریاستی سلامتی کو درپیش خطرات، سائبر دہشت گردی اور جھوٹی معلومات کے پھیلاؤ کو روکنا ہے، مگر جب اس قانون کا استعمال صحافیوں، سماجی کارکنوں اور مخالف رائے رکھنے والوں کے خلاف ایک آلہ کار کے طور پر کیا جائے، تو اس کی حیثیت ایک سنسرشپ قانون جیسی ہو جاتی ہے۔ حکومت کو اس پہلو پر نہایت سنجیدگی سے غور کرنا ہو گا کہ آیا پیکا ایکٹ کے اطلاق میں شفافیت، مساوات اور آئینی تقاضوں کا لحاظ رکھا جا رہا ہے یا نہیں۔ اگر اس قانون کا مقصد صرف ان آوازوں کو دبانا ہے جو ریاستی بیانیے سے اختلاف رکھتی ہیں، تو یہ ایک خطرناک رجحان ہے جو صرف صحافت کو نہیں بلکہ ہمارے جمہوری مستقبل کو بھی متاثر کرے گا۔دوسری جانب صحافیوں اور میڈیا اداروں کو بھی اپنے کردار پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ آزادی اظہار ایک بنیادی حق ضرور ہے، مگر اس کے ساتھ ذمہ داری بھی لازم ہے۔ جب کسی خبر، تجزیے یا رپورٹ میں ایسے الفاظ یا انداز اختیار کیے جائیں جو جذبات کو بھڑکائیں، بغیر تصدیق کے معلومات پھیلائیں یا ذاتی حملے کریں، تو اس سے صحافت کا وقار بھی متاثر ہوتا ہے اور قومی یکجہتی کو بھی خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔ بلوچستان جیسے حساس موضوعات پر رپورٹنگ کرتے وقت، صحافیوں کو اپنی ذمہ داریوں کا بخوبی احساس ہونا چاہیے۔ اظہارِ رائے کا مطلب یہ نہیں کہ کسی کی نجی زندگی یا قومی اداروں کی حساس معلومات کو غیر ذمہ دارانہ انداز میں عام کیا جائے۔یہ توازن — اظہارِ رائے اور ذمہ دارانہ رپورٹنگ کے درمیان — ہی وہ نکتہ ہے جہاں صحافت اور ریاست دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مکالمے، برداشت اور شفاف ضابطہ کار کے ساتھ آگے بڑھنا ہو گا۔ نہ تو صحافت کو دشمن سمجھا جائے، نہ صحافی خود کو قانون سے بالاتر جانیں۔ اگر ہم واقعی ایک پرامن، جمہوری اور باشعور معاشرے کی طرف جانا چاہتے ہیں، تو ہمیں دونوں پہلوؤں پر اصلاح کی ضرورت ہے۔مراد وحید کا واقعہ ایک لمحۂ فکریہ ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ جب ریاستی ادارے اور صحافتی ادارے ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے ہو جائیں، تو نقصان صرف افراد کا نہیں، اداروں کا بھی ہوتا ہے۔ اور بالآخر یہ عوام کا نقصان ہے، کیونکہ وہ سچائی سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ایسے وقت میں ضروری ہے کہ حکومت اعتماد کی فضا قائم کرے، پیکا ایکٹ جیسے قوانین کے اطلاق میں احتیاط برتے، اور میڈیا سے متعلقہ معاملات کو سنجیدہ مکالمے کے ذریعے حل کرے۔ اسی طرح، میڈیا کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے پلیٹ فارمز کو ذاتی رنجشوں یا سنسنی خیزی سے پاک رکھے، اور پیشہ ورانہ اخلاقیات کو اپنی ترجیح بنائے۔پاکستان کو ایک ایسے دوراہے پر لا کھڑا کیا گیا ہے جہاں ہمیں یہ طے کرنا ہے کہ ہم جبر، سنسر اور خوف کی راہ اختیار کرنا چاہتے ہیں یا مکالمہ، برداشت اور شفافیت کی۔ مراد وحید کا واقعہ صرف ایک خبر نہیں بلکہ ایک موقع ہے — سیکھنے کا، سنبھلنے کا اور آگے بڑھنے کا۔ اگر ہم نے اس موقع کو ضائع کیا، تو یہ خدشہ ہے کہ آئندہ ایسے واقعات معمول بن جائیں گے، اور ایک زندہ، باشعور قوم خاموشی کی زنجیروں میں جکڑ دی جائے گی۔
ملتان محکمہ صحت کے معاملات پر سنجیدہ سوالات
حالیہ دنوں روزنامہ “قوم” ملتان میں شائع ہونے والی ایک خبر نے ملتان کے محکمہ صحت میں جاری کرپشن، اختیارات کے ناجائز استعمال اور محکمانہ بدنظمی کی ایک تشویشناک تصویر پیش کی ہے۔ اس خبر میں جن الزامات اور حقائق کو اجاگر کیا گیا ہے، وہ نہ صرف عوام کے اعتماد کو مجروح کرتے ہیں بلکہ یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ اگر معاملات کو فوری طور پر درست نہ کیا گیا تو ایک پورا نظام مفلوج ہو سکتا ہے۔خبر کے مطابق ملتان کے محکمہ صحت میں کروڑوں روپے کی مالی بے ضابطگیوں، بوگس بھرتیوں، جعلی ادویات کی ترسیل، اور جعلی بلوں کے ذریعے قومی خزانے کو نقصان پہنچانے جیسے معاملات کی اینٹی کرپشن کے کرائم ریسرچ سیل نے تحقیقات شروع کیں، تاہم متعلقہ اتھارٹی کی جانب سے اس تحقیقات میں غیرمعمولی رکاوٹوں اور عدم تعاون کا سامنا رہا۔ انکوائری افسران بارہا محکمہ صحت کو سرکاری ریکارڈ کی فراہمی کی درخواست کرتے رہے مگر ریکارڈ نہ دیا گیا، جس کی وجہ سے تحقیقات آگے نہ بڑھ سکیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ محکمہ صحت میں شفافیت اور جوابدہی کا فقدان ہے، اور یہ ایک ایسا المیہ ہے جو کسی بھی مہذب اور جمہوری معاشرے میں ناقابل قبول ہے۔خبر میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ سابق سی ای او ہیلتھ ملتان ڈاکٹر فیصل رضا قیصرانی کے خلاف سنگین الزامات موجود ہیں، جن میں بوگس بھرتیاں، غیر قانونی رہائش، ناجائز ہاؤس رینٹ کی وصولی، اور جعلی ادویات کی خریداری جیسے معاملات شامل ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ محکمہ صحت کے کیشیئر، سٹور کیپر اور کمپیوٹر آپریٹرز پر بھی مبینہ طور پر ایسے ہی الزامات ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ محکمہ صحت ملتان کے اندرونی نظام میں ایک منظم کرپشن نیٹ ورک موجود ہے، جو کئی سالوں سے بغیر کسی روک ٹوک کے کام کرتا آ رہا ہے۔اس سارے منظرنامے میں سب سے پریشان کن پہلو یہ ہے کہ محکمہ اینٹی کرپشن ملتان، جو اس تمام بدعنوانی کی تحقیق پر مامور ہے، خود بےبس اور غیر مؤثر دکھائی دیتا ہے۔ جس ادارے کی ذمہ داری بدعنوانی کے خاتمے کی ہے، اگر وہی ادارہ سرکاری ریکارڈ تک رسائی حاصل نہ کر پائے، تو انصاف کا عمل کہاں سے شروع ہو گا؟ اس سے بڑھ کر المیہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ جب کرپشن کا شکار ادارہ ہی تحقیقات میں رکاوٹ بن جائے؟اسی ضمن میں ایک اور افسوسناک پہلو یہ بھی سامنے آیا کہ بعض ملازمین اور افسران، جن پر الزامات عائد ہیں، مختلف سیاسی اور بااثر شخصیات کی پشت پناہی حاصل ہونے کے باعث تحقیقات سے بچے ہوئے ہیں۔ ایک نام سلیم قریشی کا بھی آیا ہے، جنہیں سابق چیئرمین پی ٹی آئی ملتان کا بھائی بتایا جا رہا ہے۔ اگر الزامات کی تفتیش سیاسی دباؤ، ذاتی تعلقات یا “پلی بارگیننگ” کے ذریعے کمزور کی جائے، تو یہ پوری احتسابی مشینری کی ناکامی کی علامت ہے۔ادھر بعض ذرائع کے مطابق کچھ مدعیان نے مبینہ طور پر پلی بارگین کے ذریعے درخواستیں واپس لے لی ہیں یا اس کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اگر یہ سچ ہے، تو پھر یہ ایک بہت ہی سنگین مسئلہ ہے کیونکہ اس سے کرپشن میں ملوث عناصر کو کھلی چھوٹ ملتی ہے، اور متاثرہ عوام کے لیے انصاف کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو جاتا ہے۔ اس قسم کی قانونی چالاکیوں اور بے جا رعایتوں کا خاتمہ تبھی ممکن ہے جب احتساب کے عمل کو مکمل خودمختار اور غیرجانبدار بنایا جائے۔یہ حقیقت ہے کہ محکمہ صحت کا تعلق براہِ راست عوامی خدمت سے ہے۔ اگر یہاں کرپشن ہو گی، تو اس کا اثر مریضوں پر پڑے گا۔ اگر ادویات چوری ہوں گی یا جعلی ہوں گی، تو مریضوں کی زندگی خطرے میں پڑے گی۔ اگر بنیادی صحت مراکز میں بھرتیاں بوگس ہوں گی، تو غریب عوام کو صحت کی سہولیات کون فراہم کرے گا؟ لہٰذا صحت جیسے حساس شعبے میں کرپشن صرف مالی جرم نہیں بلکہ یہ ایک انسانی جرم بھی ہے، جس کی سزا متاثرہ مریض روزانہ اپنی جان کی قیمت پر ادا کرتے ہیں۔اس پس منظر میں حکومتِ پنجاب اور بالخصوص محکمہ اینٹی کرپشن کو چاہیے کہ وہ اس معاملے کو بطور ٹیسٹ کیس لیں۔ اس انکوائری کو جلد از جلد مکمل کیا جائے، اور جو ریکارڈ اب تک فراہم نہیں کیا گیا، اس کے لیے قانونی دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے سخت اقدامات کیے جائیں۔ اگر کسی بھی محکمے کا افسر ریکارڈ کی فراہمی میں دانستہ رکاوٹ ڈالے، تو اسے بھی اسی جرم کا حصہ دار سمجھا جائے۔ مزید برآں، اگر کوئی بھی سیاسی یا بااثر شخصیت اس عمل میں مداخلت کرے، تو اسے قانون کی گرفت میں لایا جانا چاہیے تاکہ عوام کا اعتماد بحال ہو۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ صحافتی ادارے اور میڈیا رپورٹرز اس حساس موضوع پر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کریں۔ کرپشن جیسے معاملات پر رپورٹنگ کرتے ہوئے حقائق کی مکمل تصدیق، فریقین کا مؤقف اور قانونی پہلوؤں کا مکمل احاطہ ضروری ہوتا ہے۔ سنسنی خیزی، قیاس آرائی یا ذاتی حملے صحافت کے اصولوں کے منافی ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ تحقیقاتی صحافت ایک مؤثر ہتھیار بنے تو ہمیں اس میں پیشہ ورانہ مہارت، غیرجانبداری اور ذمہ داری کا عنصر لازمی طور پر شامل کرنا ہو گا۔یہ وقت ہے کہ ہم بحیثیت قوم اپنی ترجیحات کا تعین کریں۔ کیا ہم ان اداروں کو بچانا چاہتے ہیں جو عوامی خدمات کے ضامن ہیں یا ان عناصر کو تحفظ دینا چاہتے ہیں جو ان اداروں کو کھوکھلا کر رہے ہیں؟ ملتان محکمہ صحت میں جاری مبینہ کرپشن کی یہ داستان ہمیں متنبہ کرتی ہے کہ اگر اب بھی ہم نے اپنی آنکھیں بند رکھیں تو کل یہی سسٹم ہمارے بچوں کی صحت، تعلیم، انصاف اور روزگار کے حق کو نگل جائے گا۔ہم حکومتِ پنجاب، اینٹی کرپشن اتھارٹی اور دیگر متعلقہ اداروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لیں، شفاف اور مؤثر تحقیقات کو یقینی بنائیں اور جو افراد بھی اس بدعنوانی میں ملوث پائے جائیں، ان کے خلاف بلا تفریق قانونی کارروائی عمل میں لائیں۔ یہی اقدام ہمیں ایک بہتر، شفاف اور جوابدہ ریاست کی طرف لے جا سکتا ہے۔
آئی ایم ایف حکومت معاہدہ: کیا تبدیلی آئے گی؟
پاکستان کی معیشت کے لیے ایک تازہ ہوا کا جھونکا اُس وقت محسوس کیا گیا جب بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے 37 ماہ پر مشتمل سات ارب ڈالر کے ایکسٹینڈڈ فنڈ فسیلٹی (EFF) پروگرام کے پہلے جائزے پر عملے کی سطح (Staff Level) پر معاہدہ کر لیا۔ اس پیش رفت کو نہ صرف ملکی ماہرین معیشت نے سراہا بلکہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں بھی زبردست بہتری دیکھنے کو ملی، جہاں کے ایس ای-100 انڈیکس 1200 پوائنٹس کے قریب بڑھا۔ یہ صورتحال ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب پاکستان آئندہ مالی سال کے بجٹ کی تیاریوں میں مصروف ہے، اور زرمبادلہ کے ذخائر مسلسل دباؤ کا شکار ہیں۔اس معاہدے کے تحت، آئی ایم ایف کے بورڈ کی منظوری کے بعد، پاکستان کو ایک ارب ڈالر کی قسط جاری ہو گی۔ اس کے علاوہ، ریزیلینس اینڈ سسٹین ایبلیٹی فسیلٹی (RSF) کے تحت بھی 1.3 ارب ڈالر کے نئے 28 ماہ کے معاہدے پر دستخط ہوئے ہیں۔ یہ دونوں معاہدے ظاہر کرتے ہیں کہ عالمی مالیاتی ادارے اب پاکستان کے معاشی اقدامات پر ایک بار پھر اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں، جو کہ کسی بھی غیر مستحکم معیشت کے لیے نہایت اہم اشارہ ہے۔اس موقع پر خوش فہمی کا شکار ہونے کے بجائے، ہمیں یہ اعتراف کرنا ہوگا کہ یہ کامیابی ایک سمت کی نشاندہی ضرور کرتی ہے، لیکن یہ کوئی منزل نہیں۔ اقتصادی ماہرین کی رائے میں، معاہدہ اگرچہ “مثبت” اور “حوصلہ افزا” ہے، مگر اس سے وابستہ شرائط، پائیدار اصلاحات اور معاشی نظم و ضبط پر مسلسل عملدرآمد کے بغیر یہ کامیابی دیرپا ثابت نہیں ہو سکتی۔ یہ معاہدہ معیشت کو سہارا ضرور دیتا ہے، لیکن اصل امتحان اب شروع ہوتا ہے۔آئی ایم ایف کے ساتھ ماضی کے تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے، ایک بات واضح ہے کہ ایسی مالی امداد وقتی ریلیف ضرور فراہم کرتی ہے، مگر اگر اس کے ساتھ طویل المدتی معاشی اصلاحات نہ ہوں تو یہ امداد ایک بار پھر محض وقتی سہولت بن کر رہ جائے گی۔ اسی پس منظر میں ماہرین نے حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ وہ پروگرام کے تحت دی گئی شرائط سے انحراف نہ کرے اور پالیسیوں میں استحکام کو ترجیح دے۔سعد حنیف، جو اسماعیل اقبال سیکیورٹیز کے ریسرچ ہیڈ ہیں، نے بجا طور پر نشاندہی کی ہے کہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر اب بھی کمزور ہیں، اور جب تک ہم برآمدات کی بنیاد کو وسیع نہیں کرتے، خاص طور پر ٹیکسٹائل کے علاوہ دیگر شعبوں میں، تب تک معیشت حقیقی معنوں میں خود کفیل نہیں ہو سکتی۔ صرف وقتی ترقی یا GDP کی نمو سے مطمئن ہو جانا مستقبل کے معاشی جھٹکوں کا پیش خیمہ بن سکتا ہے، جیسا کہ ماضی میں متعدد بار دیکھا جا چکا ہے۔مزید برآں، صنعتی ترقی کے تازہ ترین اعداد و شمار بھی ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہیں۔ پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس کے مطابق رواں مالی سال کی دوسری سہ ماہی میں صنعتی ترقی میں 0.18 فیصد کی کمی دیکھی گئی۔ یہ کمی ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ہمیں روزگار کے مواقع بڑھانے، مقامی پیداوار کو فروغ دینے اور درآمدات پر انحصار کم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف بین الاقوامی معاہدوں پر انحصار کرکے معیشت کی بنیاد مضبوط نہیں کی جا سکتی بلکہ اندرونی اصلاحات ناگزیر ہیں۔معاشی ترقی کا دارومدار صرف مالی امداد پر نہیں ہوتا، بلکہ پالیسیوں کے تسلسل، اداروں کی فعالیت، اور کاروبار دوست ماحول کی دستیابی پر بھی ہوتا ہے۔ حکومت کو اس موقع کو ایک سنجیدہ موقع سمجھتے ہوئے، صنعتی پالیسی، ٹیکس اصلاحات، برآمدات میں تنوع اور توانائی کی فراہمی جیسے اہم شعبوں میں اصلاحات کرنا ہوں گی۔ صنعتی پیداوار میں کمی اور پالیسی کا فقدان سرمایہ کاروں کے اعتماد کو متاثر کرتا ہے، جو کسی بھی معیشت کے لیے نقصان دہ ہے۔اس اداریے کے ذریعے ہم حکومتِ پاکستان کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے ساتھ یہ معاہدہ یقیناً ایک مثبت قدم ہے، مگر یہ کسی بھی صورت منزل نہیں۔ اصل کام تو اب شروع ہوتا ہے۔ اس موقع پر حکومت کو فوری طور پر تین پہلوؤں پر توجہ دینی ہوگی: اول، آئی ایم ایف معاہدے کی شرائط پر مکمل عملدرآمد؛ دوم، معیشت کے اندرونی ڈھانچے کی اصلاح؛ اور سوم، عام آدمی تک اس معاہدے کے ثمرات کی رسائی۔عوام کے لیے مہنگائی، بے روزگاری اور مالی عدم تحفظ اب بھی بنیادی چیلنج ہیں۔ اگر آئی ایم ایف کی امداد کا فائدہ صرف اعداد و شمار تک محدود رہا اور عوامی زندگی میں بہتری نہیں آئی، تو یہ کامیابی دیرپا نہ ہو سکے گی۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ نہ صرف مالی نظم و ضبط پر توجہ دے بلکہ سماجی بہبود، صحت، تعلیم اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے بھی ٹھوس اقدامات کرے۔آخر میں، یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ بین الاقوامی مالی ادارے صرف اس وقت معاون ثابت ہوتے ہیں جب ایک قوم خود اپنے مسائل کے حل کے لیے تیار ہو۔ امید ہے کہ موجودہ حکومت اور متعلقہ ادارے اس معاہدے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے، قومی ترقی کے لیے اس موقع کو ضائع نہیں ہونے دیں گے۔