آج کی تاریخ

تازہ ترین

اسٹاک مارکیٹ میں تیزی — حقیقت یا خوش فہمی؟

وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں 145,000 پوائنٹس کی ریکارڈ سطح عبور کرنے پر اطمینان کا اظہار کیا گیا ہے، اور اسے حکومتی پالیسیوں پر سرمایہ کاروں کے اعتماد کی علامت قرار دیا گیا ہے۔ بظاہر یہ خوش آئند بات ہے، لیکن اس اطمینان کے پیچھے چھپے ہوئے پہلوؤں کو نظر انداز کرنا دانشمندی نہیں ہوگی۔ حقیقت یہ ہے کہ محض انڈیکس کی تیزی کو معیشت کی بہتری یا سرمایہ کاری کے اعتماد سے جوڑنا ایک سطحی تجزیہ ہے — اور اس بیانیے کے پیچھے کئی خامیاں چھپی ہوئی ہیں جنہیں سمجھنا نہایت ضروری ہے۔
سب سے پہلا اور سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ حکومت کی اپنی وزارتِ خزانہ کے جاری کردہ اعداد و شمار وزیراعظم کے اس اعتماد کو متزلزل کرتے ہیں۔ جولائی 2025 میں ختم ہونے والے مالی سال کے دوران غیر ملکی پورٹ فولیو سرمایہ کاری میں مجموعی طور پر 650.2 ملین ڈالر کی منفی رجسٹریشن ہوئی — یعنی سرمایہ باہر نکالا گیا، ڈالا نہیں گیا۔ پچھلے سال یہی اعداد و شمار 383.8 ملین ڈالر منفی تھے، جو ظاہر کرتے ہیں کہ صورتحال بد سے بدتر ہو رہی ہے۔
اسی طرح براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (FDI) بھی جولائی-جون 2024 میں 1.96 ارب ڈالر سے کم ہو کر جولائی-جون 2025 میں 1.80 ارب ڈالر پر آ گئی ہے۔ یہ کمی نہ صرف Special Investment Facilitation Council کی کارکردگی پر سوال اٹھاتی ہے بلکہ اس عمومی تاثر کی بھی نفی کرتی ہے کہ حکومت کی معاشی پالیسیوں پر بیرونی دنیا کا اعتماد بڑھ رہا ہے۔
پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ میں اصل میں چند بڑے کھلاڑی ہی ہیں جو انڈیکس کو کنٹرول کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ نے ایک موقع پر ان کمپنیوں کو ہدایت دی کہ وہ خود انڈیکس کا حساب لگانے اور اسے شائع کرنے سے باز رہیں، کیونکہ یہ طرزِ عمل “بکری کو بھیڑیے کے حوالے کرنے” کے مترادف ہے۔
بدقسمتی سے یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ اسٹاک مارکیٹ کی تیزی زیادہ تر انہی بااثر گروپس کی مرہون منت ہوتی ہے جو حکومتوں پر دباؤ ڈال کر اپنے لیے سازگار پالیسیز بنواتے ہیں — خواہ وہ ٹیکس چھوٹ ہو، ریگولیٹری نرمی ہو یا دیگر معاشی فوائد۔ یہی رجحان چینی، سیمنٹ اور تمباکو جیسی صنعتوں میں بھی دیکھا گیا ہے، جہاں “کارٹل” بنا کر منڈی کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔
مزید برآں، مارکیٹ کی تیزی کے بدلے جو ٹیکس حکومت کو حاصل ہوتا ہے وہ انتہائی قلیل ہے۔ پاکستان میں اسٹاک مارکیٹ سے سالانہ محض 15 ارب روپے سے بھی کم ٹیکس حاصل ہوتا ہے، جبکہ بھارت اسی شعبے سے 100 ارب روپے سے زائد جمع کرتا ہے۔ یہ فرق اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے ہاں مارکیٹ کو فائدہ پہنچانے کے لیے قومی خزانے کو نقصان دیا جاتا ہے — اور پھر اُسی فائدے کو “معاشی کامیابی” کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
جامع تجزیے کے لیے ایک نظریاتی جائزہ بھی ضروری ہے۔ یونیورسٹی آف شکاگو کے دو طلبا، علی اور عمر فاروق ساقب کی تحقیق کے مطابق پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ میں “مارکیٹ ایفیشنسی” یعنی شفافیت اور درست معلومات کی فراہمی نہ صرف مائیکرو بلکہ میکرو سطح پر بھی موجود نہیں۔ تحقیق اس بات پر زور دیتی ہے کہ مارکیٹ میں سرمایہ کاری کو مؤثر بنانے کے لیے معلومات کی شفاف فراہمی اور ڈیٹا بیس کی بہتری ضروری ہے — جو کہ فی الحال ناپید ہے۔
لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ اسٹاک مارکیٹ میں ہونے والی تیزی کا عام پاکستانی کی زندگی سے کوئی براہِ راست تعلق نہیں۔ پاکستان کی 44.2 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے (ورلڈ بینک کے مطابق)، اور ان کا نہ تو اسٹاک مارکیٹ سے کوئی تعلق ہے، نہ فائدہ۔ یہ ایک مخصوص طبقے کا کھیل ہے، اور اسی مخصوص طبقے کے لیے قوانین، پالیسیز اور فائدے ترتیب دیے جاتے ہیں — جسے پھر “قومی کامیابی” کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
اسٹاک مارکیٹ میں تیزی کو مکمل معاشی بہتری کا اشارہ سمجھنا ایک خوش فہمی ہے۔ جب تک غربت میں کمی نہیں آتی، مہنگائی پر قابو نہیں پایا جاتا، صحت و تعلیم کی سہولیات عام نہیں ہوتیں، اور روزگار کے مواقع پیدا نہیں کیے جاتے، تب تک انڈیکس کے اعداد و شمار محض اشرافیہ کے کھیل کا حصہ رہیں گے، نہ کہ قومی فلاح کا پیمانہ۔
وزیراعظم کو چاہیے کہ وہ محض نمود و نمائش پر مبنی کامیابیوں کے بجائے ان زمینی حقائق کو بھی تسلیم کریں جن کا عام پاکستانی کو سامنا ہے۔ اصل کامیابی وہ ہوگی جب انڈیکس کی تیزی کے ساتھ ساتھ عوام کی زندگیوں میں بھی آسانی آئے — بصورتِ دیگر یہ محض عددی خوش فہمی ہے، حقیقت نہیں۔معیشت اعداد سے نہیں، انسانوں کی حالت سے جانچی جاتی ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں