مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل اور بھارت کے درمیان بڑھتے گٹھ جوڑ پر پاکستان کو مکمل چوکنا رہنے کی ضرورت ہے جبکہ ایران کو اپنی خارجہ پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ نجی ٹی وی چینل پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی خوش آئند ہے، اور پاکستان نے اس پورے تنازع کو نہایت دانشمندی سے ہینڈل کیا۔
انہوں نے کہا کہ وزارت خارجہ، قومی سلامتی کمیٹی اور دیگر ریاستی اداروں نے خطے کی ایک نہایت نازک اور پیچیدہ صورت حال کو مؤثر طریقے سے سنبھالا اور قومی مفادات کا بھرپور دفاع کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کا ایران پر حملہ خطے کے لیے سنگین خطرات کا باعث بنا جبکہ بھارت کی جانب سے بلاجواز جنگ کی آگ پہلے ہی دہلیز پر آ چکی تھی۔
عرفان صدیقی نے کہا کہ ایران پاکستان کا برادر اسلامی ملک ہے، لیکن قطر میں امریکی تنصیبات پر ایران کے حملے سے صورتحال مزید الجھ گئی، جس سے متحدہ عرب امارات اور دیگر عرب ریاستوں میں بھی تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ پاکستان نہ تو قطر پر حملے کی حمایت کر سکتا تھا، نہ ہی ایران سے تعلقات خراب کرنا قومی مفاد میں تھا، اسی نازک توازن کو پاکستان نے نہایت خوبی سے برقرار رکھا۔
سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ امریکا کے ساتھ تعلقات کی بہتری خوش آئند ہے، اور صدر ٹرمپ نے امن کے لیے جو کردار ادا کیا، اس پر نوبل انعام کی تجویز بھی دی گئی۔ ساتھ ہی انہوں نے واضح کیا کہ ایران میں شخصیات کو نشانہ بنا کر قتل کرنے جیسے اقدامات ناقابل قبول ہیں اور پاکستان ان کی حمایت نہیں کر سکتا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی سفارتی حکمت عملی شفاف، اصولی اور مؤثر رہی ہے، جس پر اندرونِ ملک بھی کوئی اختلاف رائے موجود نہیں۔ عرفان صدیقی نے کہا کہ اب ایران کو بھارت کے کردار کی حقیقت معلوم ہو چکی ہے اور دونوں ممالک کے درمیان حالیہ جنگ کے اثرات مستقبل کی پالیسیوں پر گہرے اثرات مرتب کریں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ آج کے دور میں قومی خودمختاری اور وقار کے لیے مضبوط دفاعی صلاحیت ناگزیر ہو چکی ہے، اور اسی بنیاد پر پاکستان نے اپنی حکمت عملی استقامت کے ساتھ آگے بڑھائی۔
