بین الاقوامی فوجداری عدالت کے پراسیکیوٹر نے اسرائیل کے وزیراعظم اور وزیر دفاع کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنے کی درخواست کی ہے۔ یہ اقدام غزہ کے خون آلود عوام کے لئے انصاف کا راستہ کھولنے کی ایک کوشش ہے۔ اس سے پہلے بھی جنوبی افریقہ نے اسرائیل کے خلاف نسل کشی کے الزامات پر عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ دائر کیا تھا۔
حماس کے رہنماؤں کے خلاف وارنٹ کو “مقتول کو قاتل کے برابر” قرار دینے کا الزام لگاتے ہوئے، بنیامین نیتن یاہو نے بین الاقوامی فوجداری عدالت کی اس کارروائی کو “نفرت انگیز” قرار دیا۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی اسے “افسوسناک” کہا اور یہ کہا کہ “اسرائیل اور حماس کے درمیان کوئی برابری نہیں ہو سکتی”۔ بائیڈن کا یہ کہنا صحیح ہے لیکن ان کا مقصد کچھ اور تھا۔ شہریوں کے خلاف زیادتیوں کو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا، لیکن فلسطینی گروپوں نے اپنی زمین اور آزادی کے لئے جدوجہد کی ہے، جبکہ اسرائیل نے نکبہ سے لے کر غزہ کی حالیہ قتل و غارت گری تک فلسطینیوں کے خلاف جنگ جاری رکھی ہے۔
غزہ اور رفح میں صورتحال انتہائی سنگین ہے۔ غزہ کی پٹی ایک کھلا جیل خانہ بن چکی ہے جہاں لوگوں کی نقل و حرکت پر مکمل پابندی ہے۔ روزمرہ کی ضروریات کی فراہمی میں شدید قلت ہے۔ اسرائیلی حملوں نے غزہ کے انفراسٹرکچر کو تباہ کر دیا ہے، جس سے پانی، بجلی اور صحت کی سہولیات تک رسائی محدود ہو گئی ہے۔ بچوں کے لئے سکول جانا مشکل ہو گیا ہے اور بیشتر آبادی بے روزگاری اور غربت کی چکی میں پس رہی ہے۔
رفح کی صورتحال بھی کچھ مختلف نہیں۔ رفح غزہ کی پٹی کا جنوبی علاقہ ہے اور یہاں کے رہائشی بھی اسرائیلی بمباری اور حملوں سے محفوظ نہیں۔ یہاں کے مکینوں کو بھی انہی مسائل کا سامنا ہے جن کا سامنا غزہ کے لوگوں کو ہے۔ یہاں بھی پانی کی کمی، خوراک کی قلت اور صحت کی سہولیات کا فقدان ہے۔ رفح اور غزہ دونوں جگہوں پر معصوم بچوں کی ہلاکتیں اور خواتین کی بے بسی کی داستانیں دل دہلا دینے والی ہیں۔
بین الاقوامی فوجداری عدالت نے روسی صدر ولادیمیر پوتن اور سوڈان کے سابق آمر عمر البشیر کے خلاف بھی وارنٹ جاری کئے تھے، لیکن دونوں کو عدالت میں نہیں لایا جا سکا۔ امکان یہی ہے کہ نیتن یاہو اور ان کے وزیر دفاع کو بھی ان کے طاقتور حمایتیوں کی وجہ سے کبھی دی ہیگ میں انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا جائے گا۔ لیکن فلسطینی عوام اور ان کے پڑوسی عرب عوام پر اسرائیلی ظلم کی داستانیں طویل ہیں۔ نکبہ، دیری یاسین، صبرا و شتیلا، قانا اور غزہ میں جاری نسل کشی صرف چند مثالیں ہیں۔
بین الاقوامی قانونی نظام شاید ان کے ظلم کرنے والوں کو سزا نہ دے سکے، لیکن تاریخ نے پہلے ہی فلسطین کے بچوں کے حق میں فیصلہ سنا دیا ہے۔ اسرائیل کو جوابدہ ٹھہرانا ضروری ہے تاکہ غزہ اور رفح کے مظلوم عوام کے لئے انصاف کی راہ ہموار ہو سکے۔ ان کی جدوجہد، مصائب اور قربانیوں کو عالمی برادری کی توجہ کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کا اعادہ نہ ہو سکے۔
پاک – ایران گیس پائپ لائن: ہنوز دلی دور است
پاک-ایران گیس پائپ لائن: چیلنجز، مواقع اور بین الاقوامی سیاست
اسلام آباد میں منعقدہ پاکستان انرجی سمپوزیم میں وفاقی وزیر پیٹرولیم مصدق ملک نے پاک-ایران گیس پائپ لائن منصوبے کے حوالے سے اہم خطاب کیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان ایرانی گیس تک رسائی چاہتا ہے، لیکن بین الاقوامی پابندیوں کے پیش نظر احتیاط سے قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔
مصدق ملک نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان ایک غریب ملک ہے اور کسی پابندی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے ترکی، عراق اور آذربائیجان کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ان ممالک نے مختلف طریقوں سے بین الاقوامی پابندیوں سے چھوٹ اور توسیع حاصل کی ہے، اور پاکستان بھی ایسا طریقہ کار اپنانا چاہتا ہے جس سے ہمیں پابندیوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
یہ بیان واضح کرتا ہے کہ پاکستان کو امریکی حمایت اور گرین سگنل نہیں ملا ہے۔ امریکہ کی موجودہ پالیسی اور ایران پر عائد پابندیاں پاکستان کو اس اہم توانائی منصوبے پر پیشرفت کرنے سے روک رہی ہیں۔ وزیر پیٹرولیم کے بیان سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ پاک-ایران گیس پائپ لائن پر مستقبل قریب میں کام شروع ہونے کی امید نہیں ہے۔
2010 میں طے پانے والے پاک-ایران گیس پائپ لائن معاہدے کے تحت ایران کی جنوبی پارس گیس فیلڈ سے پاکستان کو 25 سال کے لیے 750 ملین سے 1 بلین مکعب فٹ یومیہ قدرتی گیس کی فراہمی کا منصوبہ تھا۔ پائپ لائن 1,900 کلومیٹر پر پھیلی ہے، جس میں سے 1,150 کلومیٹر ایران اور 781 کلومیٹر پاکستان میں ہے۔ ایران نے سرحد کے اطراف میں پائپ لائن کی تعمیر کے لیے پہلے ہی 2 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے اور یہ گیس سپلائی کے لیے تیار ہے۔
تاہم، پاکستان نے تعمیر شروع نہیں کی اور ایران پر پابندیوں کے باعث اس منصوبے کو فوری طور پر ممکن نہیں سمجھا۔ مصدق ملک نے کہا کہ حکومت نے گیس اور خام تیل سمیت پیٹرولیم مصنوعات کی مقامی پیداوار بڑھانے کے لیے متعدد پالیسیاں وضع کی ہیں۔ آبادی میں اضافہ اور جی ڈی پی میں ہر 1 فیصد اضافے کے لیے 1.5 فیصد توانائی کی ترقی کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ پالیسیاں بنائی گئی ہیں۔
مصدق ملک نے کہا کہ پاکستان سالانہ 18 سے 24 ارب ڈالر کی تیل اور گیس کی درآمدات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ حکومت تیل اور گیس کی مقامی پیداوار بڑھانے کے لیے عالمی ماہرین کو راغب کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور ریگولیٹری عمل کو شفاف بنانے کے لیے اسے مکمل طور پر ڈیجیٹل کرنے کے لیے پرعزم ہے۔
تاپی گیس پائپ لائن منصوبے پر زور دیتے ہوئے وزیر پیٹرولیم نے کہا کہ ترکمانستان کے ساتھ اس منصوبے پر کام جاری ہے اور اس کے آپریشنل ہونے سے پاکستان کو کم قیمت اور مسلسل گیس تک رسائی ملے گی۔
مصدق ملک کے یہ ریمارکس ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب پاکستان کو مہنگائی کا سامنا ہے اور حالیہ مہینوں میں اس میں معمولی کمی کے آثار نظر آئے ہیں۔ افراط زر کی بلند شرح نے ملک کے مرکزی بینک کو اہم شرح سود میں اضافہ کرنے پر مجبور کیا۔ پاکستان اس وقت 24ویں بیل آؤٹ پروگرام کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق بڑے فنڈ پروگرام لینے کی قیمت پاکستان کو معاشی رفتار سست کرنے والے اقدامات کی صورت میں چکانی پڑے گی۔
وزیر پیٹرولیم کی تقریر سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ پاک-ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی راہ میں بین الاقوامی سیاست اور پابندیاں ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔ اس منصوبے کے آغاز کے لیے امریکی پالیسی پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ امریکہ کو یہ سمجھنا چاہیے کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے متبادل ذرائع کی تلاش ہے، اور اس میں ایرانی گیس اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔
ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف مقدمہ۔ ایک اہم قدم
پیرس میں غیر سرکاری تنظیموں اور موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ افراد نے فرانسیسی تیل کمپنی ٹوٹل انرجیز اور اس کے بڑے شیئر ہولڈرز کے خلاف ایک اہم فوجداری شکایت دائر کی ہے۔ اس شکایت میں کمپنی پر غیر ارادی قتل اور موسمیاتی تبدیلی کے دیگر سنگین نتائج کے لیے مقدمہ چلانے کی درخواست کی گئی ہے۔
اس مقدمے میں 11 مدعی شامل ہیں، جن میں تین این جی اوز اور آٹھ موسمیاتی تبدیلی سے متعلق آفات کے متاثرین شامل ہیں۔ متاثرین کا تعلق آسٹریلیا، بیلجیم، فرانس، یونان، پاکستان، فلپائن اور زمبابوے سے ہے۔ پاکستان سے تعلق رکھنے والی خنزادی کے مطابق، 2022 میں تباہ کن سیلاب میں ان کی بہن کی موت واقع ہوئی تھی۔ دیگر مدعیوں نے بھی طوفانوں، سیلابوں یا جنگلاتی آگ سے متاثر ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔
یہ کیس کمپنی کے بورڈ، چیف ایگزیکٹو پیٹرک پویانے، اور بڑے شیئر ہولڈرز کے خلاف ہے جنہوں نے اس کی موسمیاتی حکمت عملی کی حمایت کی، جیسے کہ امریکی سرمایہ کاری کمپنی بلیک راک اور ناروے کا مرکزی بینک، نورجز بینک۔
شکایت میں کہا گیا ہے کہ ٹوٹل انرجیز نے جان بوجھ کر دوسروں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالا، غیر ارادی قتل، آفات سے نمٹنے میں غفلت، اور حیاتیاتی تنوع کو نقصان پہنچایا۔ بلوم، ایک شکایت کنندہ این جی اوز میں سے ایک نے بیان میں کہا کہ ٹوٹل نے جان بوجھ کر سائنسی حقائق کو نظرانداز کیا، وقت حاصل کرنے کے لیے شک پیدا کیا، موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے بنائے گئے قوانین کے خلاف لڑا، اور گیس کو کم کاربن ایندھن کے طور پر قائم کرنے کی حکمت عملی اپنائی۔
پراسیکیوٹر کے پاس تین ماہ ہیں کہ وہ اس بات کا فیصلہ کریں کہ آیا عدالتی تحقیقات کا آغاز کیا جائے۔ یہ جرائم ایک سے پانچ سال قید اور 150,000 یورو تک کے جرمانے کی سزا رکھتے ہیں۔
این جی اوز کے مطابق، یہ قانونی کارروائی موسمیاتی مقدمات کی تاریخ میں ایک مثال قائم کر سکتی ہے کیونکہ اس سے فوسل فیول پروڈیوسرز اور شیئر ہولڈرز کو مجرمانہ عدالتوں میں موسمیاتی تبدیلی کے سبب ہونے والے نقصانات کے لیے ذمہ دار ٹھہرانے کا راستہ کھل سکتا ہے۔
کلیر نووین، بلوم کی بانی ڈائریکٹر نے کہا کہ اس مقدمے کا مقصد ان کے فیصلوں کے مہلک نتائج کو تسلیم کرنا ہے، ان کی ہٹ دھرمی کو جو موسمیاتی استحکام اور تمام جانداروں کی زندگی کو خطرے میں ڈالنے والے فوسل پراجیکٹس کے لیے ووٹ دیتے ہیں۔
مدعیوں نے اپنے بیان میں کہا کہ ٹوٹل انرجیز کو 1971 سے ہی معلوم تھا کہ اس کی سرگرمیوں اور موسمیاتی تبدیلی کے درمیان براہ راست تعلق ہے۔ ان کا مقصد ایک قانونی مثال قائم کرنا ہے جس کے تحت نئے فوسل فیول پروجیکٹس کو مجرمانہ عمل سمجھا جائے۔
ہم اس قانونی کارروائی کی بھرپور حمایت کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ یہ مقدمہ موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ میں ایک اہم موڑ ثابت ہوگا۔ یہ ضروری ہے کہ کمپنیاں اور ان کے شیئر ہولڈرز اپنے اعمال کے نتائج کو سمجھیں اور ماحول کی حفاظت کے لیے ذمہ داری قبول کریں۔ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ نسلوں کے لیے ایک محفوظ اور مستحکم دنیا فراہم کی جا سکے۔
اس مقدمے کے ذریعے، ہم اس بات کی توقع رکھتے ہیں کہ دیگر کمپنیاں بھی اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کریں گی اور ماحول کی حفاظت کے لیے زیادہ ذمہ دارانہ رویہ اپنائیں گی۔ یہ وقت ہے کہ ہم سب مل کر اس زمین کو محفوظ بنائیں اور ایسے اقدامات کریں جو ہمیں موسمیاتی تبدیلی کے سنگین نتائج سے بچا سکیں۔