اسحاق ڈار کا ارتقائی کردار اور نواز شریف کی واپسی
پاکستان کی سیاسی ڈائریکٹری میں ایک بار پھر تبدیلی کا موسم ہے۔ اسحاق ڈار کی حالیہ تعیناتی کے ساتھ جہاں وہ نائب وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہو کر ملک کے سیاسی و اقتصادی منظرنامے پر ایک نئی چھاپ چھوڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں، وہیں نواز شریف کی مسلم لیگ (ن) کے صدر کے طور پر واپسی ان کی سیاسی بقاء کی ایک نئی داستان رقم کرتی ہے۔ اس اداریہ میں ہم ان دونوں واقعات کا جائزہ لیں گے اور ان کے معنی اور مستقبل پر بات کریں گے۔
اسحاق ڈار کا سیاسی سفر کئی دہائیوں پر محیط ہے، لیکن ان کی حالیہ تقرری نے انہیں زیادہ مرکزی اور فعال کردار میں پیش کیا ہے۔ نائب وزیر اعظم کے طور پر، ڈار کے پاس اب وزرات خارجہ کا قلمدان بھی ہے، جو انہیں بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی نمائندگی کا موقع دیتا ہے۔ اس کے علاوہ، وفاقی نجکاری کمیٹی کے سربراہ کے طور پر ان کی حیثیت سے ان کے فیصلے ملک کی اقتصادی رہنمائی میں کلیدی اہمیت اختیار کر گئے ہیں – بعض حلقے کہتے ہیں کہ اسحاق ڈار اس وقت ڈی فیکٹو وزیر اعظم، وزیر خزانہ بھی ہیں۔ ان کے ناقدین اساق ڈار کے پچھلے ادوار میں بطور وفاقی وزیر حزانہ کردار اور ان کی پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہیں- ان کے خیال میں پاکستان کو مشکل ائی ایم ایف پروگرام سے مشکل ترین قرض پروگرام کی طرف دھکیلنے میں بنیادی کردار اسحاق ڈار کی پالیسیوں کا رہا ہے۔ وہ اب بھی اسے نیک ؤکون قرار نہیں دے رہے۔
دوسری طرف، نواز شریف کی مسلم لیگ (ن) کے صدر کے طور پر واپسی نے پارٹی کے اندرونی ڈائنامکس کو نئی جہت دی ہے۔ پاناما پیپرز کیس میں نااہل قرار دیے جانے کے بعد سے، شریف کی سیاسی موقف میں کئی تبدیلیاں آئیں۔ ان کی واپسی نہ صرف ان کے سیاسی کیریئر کے لئے اہم ہے بلکہ یہ پارٹی کے لئے بھی ایک نئے باب کا آغاز ہے۔
اسحاق ڈار کی تعیناتی اور نواز شریف کی واپسی، دونوں ہی پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر گہرے اثرات مرتب کر سکتی ہیں۔ ان دونوں رہنماؤں کے کرداروں کے توسط سے ملک کی داخلی و بین الاقوامی پالیسیاں شکل پائیں گی، اور ان کی کامیابیاں و ناکامیاں پاکستان کے مستقبل کے لئے تعینات کردہ راہوں کو متعین کریں گی۔ ہوسکتا ہے میاں محمد نواز شریف بطور مرکزی صدر پاکستان مسلم لیگ نواز اور اسحاق ڈار بطور ڈی فیکٹو وزیراعظم موجودہ سیاسی سیٹ اپ کا راستا بدلنے کی کوشش کریں اور اس سے کیا ان کی پارٹی متحد رہ سکے گی؟ کیا اسحاق ڈار ماضی سے مختلف نتائج دے سکیں گے؟ یہ سب ہنوز سوال ہیں اور ‘دلی دور است کی صورت حال کی مصداق ہے۔
پاکستان کا ڈیجیٹل انقلاب اور اس کے چیلنجز
حالیہ برسوں میں پاکستان میں ڈیجیٹل تبدیلی کی بہت زیادہ تشہیر دیکھنے میں آئی ہے۔ ای کامرس کاروباروں، ٹیکنالوجی کمپنیوں، سافٹ ویئر ہاؤسز، اور فری لانس اکانومی کا تیزی سے اضافہ ایک بڑے ڈیجیٹل انقلاب کی نشاندہی کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کی پہلی ڈیجیٹل ڈیولپمنٹ انڈیکس (ڈی ڈی آئی) رپورٹ کی بنیاد پر پاکستان میں ڈیجیٹل تبدیلی کے مراحل اور ان کے چیلنجز کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے
ڈی ڈی آئی رپورٹ کے مطابق، پاکستان کی بیشتر آبادی کے پاس انٹرنیٹ تک رسائی نہیں ہے، جس کی اہم وجوہات میں ناکافی انفرااسٹرکچر، مالی گنجائش کی کمی، اور مہنگائی شامل ہیں۔ اس کا نتیجہ ایک واضح ڈیجیٹل تقسیم کی صورت میں نکلا ہے، جہاں امیر طبقے نے غریب طبقے کے مقابلے میں 15 گنا زیادہ ڈیجیٹل ترقی دکھائی ہے۔ یہ تضاد نہ صرف معاشی بلکہ سماجی میدان میں بھی محسوس کیا جاتا ہے۔
خواتین کی ڈیجیٹل رسائی پر بھی خاصی پابندیاں ہیں۔ 83.5 فیصد خواتین کا کہنا ہے کہ موبائل فون رکھنے کے فیصلے میں ان کی کوئی رائے نہیں ہوتی اور یہ فیصلہ ان کے والدین یا شریک حیات کا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، مردوں میں یہ شرح 77 فیصد ہے۔ یہ صنفی تقسیم نہ صرف ڈیجیٹل ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے بلکہ یہ ایک بڑے سماجی مسئلے کی جانب بھی اشارہ کرتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں موجود 87.35 ملین انٹرنیٹ صارفین کی بڑی تعداد نے امید کی ایک کرن دکھائی ہے۔ ای کامرس کا شعبہ، جو کہ دنیا کا 36 واں بڑا ہے، اس میں مزید ترقی کے لئے بہت سارے امکانات موجود ہیں۔ اگرچہ براڈ بینڈ کے فکسڈ اخراجات ابھی بھی بہت سے لوگوں کے لئے ناقابل برداشت ہیں، تاہم موبائل انٹرنیٹ کے کم ریٹس نے ایک نیا دروازہ کھول دیا ہے۔
ڈیجیٹل ترقی کے لئے ضروری ہے کہ سیاسی مقاصد کے لئے انٹرنیٹ کی من مانی بندشوں کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ ای کامرس ریگولیٹری ماحول میں عدم مطابقت اور آن لائن پیمنٹ سسٹمز کو درپیش مسائل کا حل نکالنے کے لئے فوری پالیسی اصلاحات ضروری ہیں۔
پاکستان کے ڈیجیٹل انقلاب میں بہت سے چیلنجز موجود ہیں، لیکن ساتھ ہی ساتھ امید کی کرن بھی موجود ہے۔ اگر ہم ان چیلنجز کا مقابلہ کر سکیں اور ان کا حل تلاش کر سکیں تو پاکستان کا مستقبل روشن نظر آتا ہے۔ ڈیجیٹل ترقی میں بہتری کے لئے جامع اور فعال پالیسیوں کی تعمیر اس کی اہم کلید ہوگی۔
عالمی اقتصادی فورم کا اجلاس اور سعودی عرب
سعودی عرب کی میزبانی میں اتوار کو شروع ہونے والے عالمی اقتصادی فورم کے خصوصی اجلاس میں، جہاں دنیا بھر کے اہم سیاسی و اقتصادی رہنما شرکت کر رہے ہیں، مشرق وسطیٰ میں جاری کشیدگی اور غزہ میں جنگ سب سے زیادہ نمایاں موضوعات میں سے ایک ہونے کی توقع ہے۔ ہمیں اس اجلاس کے مقاصد، ممکنہ نتائج اور غزہ میں جاری صورتحال پر گہری نظر ڈالنے کی ضرورت ہے-
اس خصوصی اجلاس کا ایک اہم مقصد مشرق وسطیٰ میں جاری کشیدگی پر توجہ مرکوز کرنا ہے، جس میں غزہ کی جنگ اور اسرائیل-حماس تنازعہ کے مختلف پہلوؤں کو شامل کیا گیا ہے۔ اسرائیل کی جارحانہ جنگی کاروائی غزہ میں بڑے پیمانے پر جانی نقصان کا باعث بنی۔ اس فورم میں ان مسائل کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کا مقصد ایک پائیدار حل کی جانب بڑھنا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کی شرکت، فلسطینی رہنماؤں کے ساتھ مل کر غزہ میں جنگ بندی کے حصول کی کوششوں پر بات چیت میں اہمیت اختیار کرتی ہے۔ مصر اور قطر کی ثالثی کی کوششیں بھی ان تنازعات کے حل میں معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔ ان اقدامات کا مقصد علاقائی استحکام کو فروغ دینا اور اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی سمیت دیرپا امن کو یقینی بنانا ہے۔
سعودی عرب کی جانب سے اس اجلاس کی میزبانی کا ایک بڑا مقصد اپنے ویژن 2030 کے اقتصادی اصلاحات کے ایجنڈے کو پٹڑی سے نہ اترنے دینا بھی ہے۔ سعودی وزیر منصوبہ بندی فیصل الابراہیم کے بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ سعودی عرب دنیا کے ساتھ مل کر سلامتی اور خوشحالی کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
اس اجلاس سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ عالمی سطح پر مشرق وسطیٰ میں جاری کشیدگی کو حل کرنے کے لیے مزید پختہ و عملی اقدامات اٹھائے جائیں گے۔ اجلاس کے نتائج ممکنہ طور پر عالمی برادری کے لیے ایک رہنما خطوط کا کام دے سکتے ہیں کہ کس طرح سے ایک مشترکہ اور جامع حل کی جانب بڑھا جا سکتا ہے۔
عالمی اقتصادی فورم کا یہ خصوصی اجلاس نہ صرف مشرق وسطیٰ کی جاری کشیدگی کے حل کی طرف ایک اہم قدم ہو سکتا ہے، بلکہ یہ عالمی سطح پر امن و امان اور اقتصادی ترقی کے درمیان توازن بھی قائم کر سکتا ہے۔ اس اجلاس کی اہمیت اس بات میں ہے کہ یہ عالمی رہنماؤں کو مشترکہ مقاصد کے لیے ایک پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے، جہاں وہ جنگ، تشدد اور انسانی بحرانوں کا حل تلاش کر سکتے ہیں۔