پاکستان میں عام انتخابات کے انعقاد کو دو روز کزر چکے ہیں- اس وقت جب یہ ادارتی سطور لکھی جا رہی ہیں تب تک الیکشن کمیشن پاکستان محض 150 حلقوں کے فارم نمبر 47 جاری کر پایا ہے۔ ان میں سے 10 قومی اسمبلی کے حلقوں پر پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں نے عدالت سے رجوع کیا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ ان کے پاس فارم 45 کے مطابق جو رزلٹ ہے فارم 47 کا رزلٹ ان کے مطابق نہیں ہے۔ این اے-123 لاہور جہاں سے میاں محمد نواز شریف امیدوار تھے وہاں کل ڈالے گئے ووٹ اس حلقے کے رجسٹرڈ شدہ ووٹوں سے تجاوز کرگئے ہیں- انتخابی رولز کے مطابق 9 فروری کو صبح کے دو بجے الیکشن کمیشن پاکستان نے ریٹرننگ افسران کوفارم 47 جاری کرکے نتائج پبلک کرنا تھے۔ لیکن وہ نہیں کیے جاسکے۔ انتخابی نتائج میں غیرمعمولی تاخیر اور آر ٹی ایس کی طرح الیکشن کمیشن پاکستان کے سسٹم کے بیٹھ جانے سے شکوک و شبہات میں اضافہ ہوا ہے۔ کمیونیکشن سروسز کی معمطلی نے بھی الیکشن کمیشن پاکستان کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ الیکشن کمیشن پاکستان کے کردار پر اٹھنے والے ان سوالات نے یہ خدشہ پیدا کردیا ہے کہ موجودہ انتخابات کے بعد پاکستان میں سیاسی استحکام آنے کے امکانات انتہائی کم ہوگئے ہیں- اس موقعہ پر سب سے اہم ترین سوال یہ ہے کہ پاکستان میں نئی حکومت کون بنائے گا؟ اب تک کے نتائج سے صاف نطر آرہا ہے کہ پاکستان کی نئی تشکیل پانے والی قومی اسمبلی ایک معلق ایوان ہوگی جس میں کسی ایک جماعت کے پاس سادہ اکثریت تو درکنار عام نشتیں 100 بھی نہیں ہیں- دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ ازاد امیدواروں کی تعداد ایسا لگ رہا ہے کہ وہ ایوان میں سب سے زیادہ ہوگی- اگر پاکستان تحریک انصاف کے پاس اس کا انتخابی نشان ہوتا اور اس نشان پر اسے انتخابی کموپئن چلانے کی اجازت دی جاتی تو اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ اس وقت قومی اسمبلی کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہوتی اور وہ اکیلے ہی آسانی سے حکومت بناسکتی تھی- اب ایسا نہیں ہے۔ پاکستان کی انتخابات کی تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ غیر منتخب ہئیت مقتدرہ جیسے انتخابات سے قبل اور دوران نتائج کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور جو ان کے عتاب کا شکار ہوں ان کے مینڈیٹ کو کنٹرولڈ شکل دینے کی کوشش میں رہتی ہیں ، ویسے ہی وہ مابعد انتخابات/ پوسٹ الیکشنز صورت حال میں حکومت کی تشکیل میں اپنا کردار فیصلہ کن بنانے میں لگی رہتی ہیں- اس مرتبہ جبکہ 100 سے زائد آزاد امیدوار ہیں تو کیا غیرمنتخب ہئیت مقتدرہ ان 100 میں سے کئی ایک کو توڑ کر کیا پنجاب میں لارجسٹ پارٹی بنکر سامنے آنے والی سیاسی جماعت کو نئی حکومت کی ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھانے کی کوشش کرےگی یا وہ پاکستان کی انتہائی تقسیم شدہ سیاسی فضا میں ‘مفاہمت’ اور ‘صلح جوئی’ کی طرف قدم بڑھائے گی؟ یہ بہت اہم سوال ہے جس کا جواب پاکستان کے آغندہ کے منظر نامے کا تعین کرے گا- گیند اس وقت واضح طور پر غیر منتخب ہئیت مقتدرہ اور پاکستان مسلم لیگ نواز کی کورٹ میں ہے اور ان دونوں کو فیصلہ کرنا ہے کہ پاکستان کو کس طرف لیجایا جائے گا؟ اس سوال کا جواب اس لیے بھی اہمیت حامل ہے پاکستان نے معاشی دیوالیہ پن سے بچنے کے لیے انتہائی سخت شرائط پر آئی ایم ایف سے 3 ارب ڈالر لیے ہوئے ہیں- آئی ایم ایف کی طرف سے یہ سہملت مارچ 2024 میں ختم ہوجائے گی- نئی حکومت کو ایک نئے توسیعی پروگرام کی ضرورت ہوگی- ایک نئے پروگرام کے لیے نئی حکومت کا مضبوط ہونا اور ملک میں سیاسی استحکام کا ہونا بہت ضروری ہوگا- ایک نئے پروگرام کو شروع کرنے کے لیے سیاسی اتفاق اور رضامندی کی ضرورت ہوگی اور نئی حکومت متنازعہ ہوئی اور اس پروگرام پر اتفاق نہ ہوا تو آئی ایم ایف سے ایسے کسی پروگرام کی منظوری لینا انتہائی مشکل ہوجائے گا۔ہمیں معاشی استحکام حاصل کرنے کے لیے اس وقت جو سیاسی تناؤ اور درجہ حرارت کی بلندی ہے، اس تناؤ اور بلندی کا سبب یہ ہے کہ اس ملک کی سب سے زیادہ مقبول جماعت پاکستان تحریک انصاف زیرعتاب ہے؟ ان کو انتخابی نشان سے محروم کیا گیا- ان کے ممکنہ امیدواروں اور حامیوں کے خلاف سخت ترین کریک ڈاؤن کیا گیا- ان کے بہت سارے امیدواروں ںے جیلوں میں رہ کر انتخاب لڑا ہے۔ اور چند دن پہلے اس جماعت کے بانی سربراہ سابق چیئرمین عمران خان اور ان کی اہلیہ کو لگاتار تین دن عدالتوں نے مسلسل سزائیں سنائیں اور ابھی بھی ان کے خلاف فوجی عدالتوں میں ٹرائل چل رہا ہے۔ عمران خان پاکستان میں بڑے پیمانے پر عوامی حمایت برقرار رکھتے ہیں، اور مسلسل کریک ڈاؤن اور ان کا جیل میں رہنا ایسے وقت میں تناؤ کو جنم دے گا جب معیشت کو آگے بڑھانے کے لیے غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے استحکام کی ضرورت ہے۔ اگر پاکستان تحریک انصاف سے مفاہمتی عمل شروع نہ کیا گیا تو کسی طرح کا استحکام حاصل کرنا مشکل ہوگا- نئی حکومت کے سامنے بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی سے نمٹنا بڑا چیلنج ہے۔ اور اس سے نمٹنے کے لیے بھی اتفاق رائے کی اشد ضرورت ہے۔ دو ہزار چودہ میں میں فوجی آپریشن کے ذریعے بہت سے عسکریت پسند گروپوں کو افغانستان میں بھگا دینے کے بعد گزشتہ 18 ماہ کے دوران عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ افغانستان میں 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد دوبارہ منظم ہوئے، اور مبینہ طور پر نیٹو کی زیرقیادت افواج کے پیچھے چھوڑے گئے جدید ہتھیار استعمال کر رہے ہیں۔ جنوب مغرب میں ایک نسلی قوم پرست بلوچ شورش، جو اہم اتحادی چین کے مفادات کو بھی نشانہ بناتی ہے، نے بھاپ پکڑ لی ہے۔ بیجنگ نے معدنیات سے مالا مال صوبہ بلوچستان اور اسٹریٹجک بندرگاہ گوادر میں کانوں میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔ ٹی ٹی پی کے حملوں نے اسلام آباد اور طالبان کے درمیان غیر معمولی تصادم کا باعث بنا، جن کے بارے میں پہلے خیال کیا جاتا تھا کہ ان کے قریبی تعلقات ہیں، جیسا کہ اسلام آباد نے لاکھوں غیر قانونی افغانوں کو بے دخل کر دیا ہے، جن میں سے اکثر کئی دہائیوں سے پاکستان میں مقیم ہیں۔ پاکستان اور ایران نے گزشتہ ماہ ایک دوسرے کی سرزمین پر مبینہ عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر مشترکہ طور پر مشترکہ فضائی حملے کیے ، اور جب کہ دونوں کے درمیان تعلقات مستحکم دکھائی دیتے ہیں، اس واقعے نے پاکستان کے لیے اس کی مغربی سرحد پر سیکیورٹی کے لیے ایک نئی پریشانی کا آغاز کر دیا ہے۔ دریں اثنا، اس کی مشرقی سرحد پر، پرانے دشمن بھارت کے ساتھ تازہ کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے جب اسلام آباد نے نئی دہلی پر پاکستان کے اندر قاتلانہ مہم چلانے کا الزام لگایا ہے۔ بھارت میں بھی مئی تک انتخابات ہونے والے ہیں، اور بھاری مینڈیٹ کے ساتھ بھارت کی ہندو قوم پرست حکومت کی اقتدار میں واپسی پاکستان کی نئی حکومت کے لیے معاملات کو مزید پیچیدہ بنا سکتی ہے۔ ایسے میں پاکستان اگر سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوا تو بہت بڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
گیس کی قیمتوں میں پھر اضافہ
آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے حال ہی میں سدرن اور ناردرن سوئی دونوں کمپنیوں کے لیے گیس کی قیمتوں میں 9 سے 35 فیصد کے درمیان نمایاں اضافے کا اعلان کیا ہے۔ یہ اقدام بین الاقوامی مالیاتی فنڈ/ آئی ایم ایف کی جانب سے جاری اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے تحت مقرر کردہ شرائط کو پورا کرنے کی کوششوں کے ایک حصے کے طور پر سامنے آیا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے عملے کی تشخیص نے 8 نومبر 2023 کو قدرتی گیس کے نرخوں میں تیزی سے اضافے کو تسلیم کیا تھا۔ اس اضافے کی وجہ ستمبر 2020 اور جنوری 2023 کے درمیان ٹیرف میں ایڈجسٹمنٹ کی کمی تھی۔ 2020 میں وبائی امراض کی وجہ سے درپیش چیلنجوں کے باوجود، بعد میں آنے والے سیاسی عوامل نے اس عرصے کے دوران گیس کے نرخوں کو ایڈجسٹ کرنے میں ناکامی کا سبب بنے۔ میں اس حوالے سے مشاہدات پر روشنی ڈالی گئی۔ سب سے پہلے، گیس سیکٹر کے اندر گردشی قرضہ مالی سال 23 کے اختتام تک اندازاً 2.084 ٹریلین روپے تک پہنچ گیا، جو جی ڈی پی کا 2.5 فیصد بنتا ہے۔ اس اعداد و شمار میں پچھلے مالی سال کے مقابلے میں خاطر خواہ اضافہ ہوا، جو پاور سیکٹر کے مقابلے میں بڑھتے ہوئے مالی بوجھ کی نشاندہی کرتا ہے۔ لیکویڈیٹی کی رکاوٹوں نے گیس کی قلت کو بڑھا دیا، جس سے سیکٹر کے چیلنجز میں اضافہ ہوا۔ پاکستان کی جانب سے بات چیت کرنے والے نگرانوں نے قرض میں اس اہم اضافے کی وجہ ستمبر 2020 سے اوگرا کی جانب سے مقرر کردہ آخری صارف گیس کی قیمتوں میں ایڈجسٹمنٹ کو لاگو کرنے میں ناکامی کو قرار دیا ہے۔ پہلے جائزہ مذاکرات کے دوران، جو کہ 15 نومبر 2023 کو کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا، گیس کے شعبے کے حوالے سے، نگرانوں نے آئی ایم ایف سے پانچ وعدے کیے تھے۔ ان وعدوں میں مستقل صارف کی قیمتوں کی تازہ کاری جاری رکھنے، کیپٹیو پاور کے لیے مراعات کو کم کرنے، غیر گھریلو صارفین کے لیے قیمتوں کے تعین کے ڈھانچے کو بہتر بنانے، دیسی اور درآمد شدہ آر این ایل جی میں قیمتوں کو یکجا کرنے، اور گیس کے گردشی قرض کی نگرانی اور انتظام کو بہتر بنانے کے وعدے شامل تھے۔ گیس کے شعبے کو متعدد چیلنجز کا سامنا ہے، جن میں آئینی دفعات شامل ہیں جو گیس فیلڈز کی میزبانی کرنے والے صوبوں کے حق میں ہیں، جیسے کہ سندھ اور بلوچستان، اور دیسی اور درآمدی آر ایل این جی کی لاگت کے درمیان بڑھتا ہوا تفاوت۔ ان چیلنجوں کے باوجود، اوگرا کا ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن نیٹ ورکس میں نقصانات کی حد کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ کھیلوں سے متعلق اخراجات سمیت بڑھتے ہوئے غیر آپریشنل اخراجات، سوالات کو جنم دیتا ہے، خاص طور پر اس شعبے میں بڑھتے ہوئے گردشی قرضوں کے پیش نظر یہ بہت اہم ہے۔گیس کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ، جو یکم جنوری 2024 سے لاگو ہوا، جنوری کے لیے صارفین کی قیمتوں کے اشاریہ میں ظاہر نہیں ہوا، جس نے ماہ بہ ماہ کمی کو ظاہر کیا۔ تاہم، ان قیمتوں میں اضافے کا اثر آنے والے مہینوں میں سی پی آئی پر پڑنے کی امید ہے۔ پاور ریگولیٹر، نیپرا نے بھی اس ماہ سے لاگو نرخوں میں اضافے کی منظوری دے دی ہے، جس سے ممکنہ افراط زر کے دباؤ میں مزید اضافہ ہو گا۔ تاہم، اگر موسمی حالات بہتر ہوتے ہیں، گیس اور بجلی کی طلب کو کم کرتے ہیں، تو یہ گھریلو بلوں پر کچھ دباؤ کو کم کر سکتا ہے۔ بہر حال، موجودہ شرحیں اوسط آمدنی حاصل کرنے والوں کے لیے چیلنجز کا باعث ہیں جو پہلے ہی ضروری اخراجات کے حوالے سے سخت انتخاب کا سامنا کر رہے ہیں۔ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے نا اہلی، بدعنوانی اور اشرافیہ کے درمیان وسائل کے ارتکاز سے نمٹنے کے لیے جامع شعبہ جاتی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ یہ نقطہ نظر صارفین پر اضافی اخراجات کا بوجھ ڈالنے یا غریبوں کو غیر متناسب طور پر متاثر کرنے والے بالواسطہ ٹیکسوں پر انحصار کرنے کی بجائے اصلاحات نافذ کرنے کے لیے آئی ایم ایف جیسے بین الاقوامی اداروں کے ساتھ تعلقات کو فائدہ پہنچانے پر زور دیتا ہے۔ گیس سیکٹر پر مالی دباؤ کو کم کرنے اور پاکستان کی آبادی کے لیے پائیدار توانائی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے بغیر کسی تاخیر کے اصلاحات کو نافذ کرنے کے لیے فوری کارروائی کی ضرورت ہے۔