آج کی تاریخ

میرا قائد عمران خان فوجی آپریشن کیخلاف تھا، ہم بھی اس کے خلاف ہیں،نو منتخب وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی-میرا قائد عمران خان فوجی آپریشن کیخلاف تھا، ہم بھی اس کے خلاف ہیں،نو منتخب وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی-ایران کا غزہ امن کانفرنس میں شرکت سے انکار، "اپنے عوام پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے"، ایرانی وزیرِ خارجہ-ایران کا غزہ امن کانفرنس میں شرکت سے انکار، "اپنے عوام پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے"، ایرانی وزیرِ خارجہ-سپر ٹیکس کیس کی سماعت میں ججز اور وکلا کے درمیان دلچسپ تبادلہ خیال-سپر ٹیکس کیس کی سماعت میں ججز اور وکلا کے درمیان دلچسپ تبادلہ خیال-پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی، کے ایس ای-100 انڈیکس 4 ہزار پوائنٹس گر گیا-پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی، کے ایس ای-100 انڈیکس 4 ہزار پوائنٹس گر گیا-نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی: غزہ میں دوبارہ فوجی کارروائی کا اشارہ-نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی: غزہ میں دوبارہ فوجی کارروائی کا اشارہ

تازہ ترین

استحکامِ پاکستان، مگر کیسے؟

پاکستان کے حالات بظاہر کچھ سنبھلے ہوئے لگتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں، ہندوستان کے ساتھ ایک کشیدگی کے موقع پر، پاکستان نے جس طرح مؤثر انداز میں اپنا دفاع کیا، وہ قابلِ تعریف ہے۔ قوم میں ایک نئی خوداعتمادی اور فخر نے جنم لیا ہے۔ حکومت اور فوج کے درمیان تعلقات میں بھی وقتی طور پر کوئی تلخی نظر نہیں آتی۔ حکومت کہہ رہی ہے کہ معیشت بہتر ہو رہی ہے، مہنگائی کا جن بھاگا جا رہا ہے، اور قرضوں کی قسطیں وقت پر دی جا رہی ہیں۔ اپوزیشن کمزور ہے، بٹی ہوئی ہے، اور عوامی نمائندگی کے باوجود دبا دی گئی ہے۔ بظاہر سب کچھ ٹھیک لگتا ہے۔
مگر ایک عام آدمی کے لیے—جس کا چولہا ٹھنڈا ہے، بچوں کی فیسیں دینا مشکل ہو گیا ہے، اسپتالوں میں دوائیں نہیں ملتیں، اور ہر مہینے بجلی کا بل آسمان پر چڑھا ہوا نظر آتا ہے—یہ “استحکام” کتنا سچا ہے؟ کیا ہم واقعی سنبھل چکے ہیں؟ کیا یہ استحکام عوام کے لیے بھی ہے یا صرف ان کے لیے جن کی میزوں پر فائلیں چلتی ہیں اور فیصلے ہوتے ہیں؟
آج کا پاکستان اندر سے کھوکھلا ہو چکا ہے۔ عام انسان کا حال ایسا ہے جیسے خشک دریا کے کنارے پیاسا کھڑا ہو۔ آئی ایم ایف سے لیا گیا قرض وقتی سہارا ضرور ہے، مگر اس کے بدلے جو شرائط قبول کی گئیں، ان کا سارا بوجھ عوام پر ڈالا گیا۔ بجلی، گیس، آٹا، پٹرول—ہر شے کی قیمت بڑھ گئی، مگر تنخواہیں وہیں کی وہیں۔ مزدور کی محنت بےمول ہو گئی، کسان کی فصل بےقیمت، اور نوجوان کا خواب بےمعنی۔
یہ “استحکام” اگر صرف فائلوں میں ہے تو پھر اُس ریڑھی والے کو کیا فائدہ جس کی روزی پولیس کے ہاتھوں ضبط ہو جاتی ہے؟ اس خاتون کو کیا فرق پڑتا ہے جو دوائی نہ ہونے پر اسپتال کے فرش پر بچہ جنتی ہے؟ اس طالبعلم کو کیا امید ملتی ہے جس کا باپ اسکول کی فیس ادا نہیں کر سکتا؟ قوم کے یہ بیٹے اور بیٹیاں کب تک قربانی دیتے رہیں گے جبکہ طاقت ور طبقے ٹیکس دینے سے بھی انکاری ہیں؟
ملک میں آج بھی صرف چند مخصوص طبقے ٹیکس دیتے ہیں، اور باقی طاقت ور ادارے، بڑے زمیندار اور اشرافیہ نہ صرف ٹیکس سے بچتے ہیں بلکہ قوم کے وسائل پر قابض بھی ہیں۔ ایسی معیشت جہاں غریب کا خون چوسا جائے اور امیر کے لیے سب معاف ہو، وہ کیسے مستحکم ہو سکتی ہے؟
ملک میں سرکاری ادارے کروڑوں کا نقصان دے رہے ہیں، لیکن اُن کی نجکاری پر کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھایا جا رہا۔ وہی لوگ ان اداروں پر قابض ہیں جو اصلاحات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ سرمایہ کاری نہیں ہو رہی، صنعتیں بند ہو رہی ہیں، اور نوجوان باہر جانے کے لیے سمندروں میں ڈوبنے کو تیار بیٹھے ہیں۔
تعلیم کا حال بھی کچھ مختلف نہیں۔ ملک میں آج بھی تقریباً 2 کروڑ 60 لاکھ بچے اسکول سے باہر ہیں۔ یہ صرف ایک عدد نہیں، بلکہ اتنے ہی خوابوں، امنگوں اور مستقبلوں کی موت ہے۔ سرکاری اسکول زبوں حالی کا شکار ہیں، اساتذہ غیر حاضر، اور سہولیات کا وجود ہی نہیں۔ کیا یہی ہے وہ پاکستان جس کا خواب قائداعظم نے دیکھا تھا؟ جہاں انصاف امیر کے دروازے پر دستک دے اور غریب عدالت کے باہر فائل کے ساتھ بوڑھا ہو جائے؟
سیاسی منظرنامے میں بھی عام آدمی کی آواز دبائی جا رہی ہے۔ اپوزیشن کو جیلوں میں ڈالنا، سیاسی قیادت کو مقدمات میں الجھانا، میڈیا پر قدغنیں لگانا—یہ سب اُس عوام کو مزید مایوس کر رہا ہے جو پہلے ہی بے آواز ہے۔ اگر کسی پارٹی کو ووٹ دیا بھی جائے تو وہ اگلے دن جیل میں ملتی ہے۔ اگر بولنے کی کوشش کی جائے تو غداری کا الزام لگا دیا جاتا ہے۔ کیا یہی جمہوریت ہے؟ کیا یہی آئین ہے؟ کیا یہی ریاستِ مدینہ کا خواب ہے؟
آج بھی ملک کے دور دراز علاقوں، خاص طور پر بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں خون بہہ رہا ہے۔ جنہیں قومی دھارے میں لانا چاہیے، انہیں غدار کہا جا رہا ہے۔ جو اپنی زمین، اپنے وسائل، اور اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے سوال اٹھائیں، اُنہیں ملک دشمن کہا جا رہا ہے۔ اگر ہم ہر مختلف آواز کو دبائیں گے تو ہم کس کے ساتھ بات کریں گے؟ پھر ہم شکوہ کیوں کرتے ہیں کہ دشمن ہماری کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتا ہے؟
فوج اور سول حکومت کے تعلقات اگرچہ فی الحال خوشگوار دکھائی دیتے ہیں، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ سب ٹھیک ہے۔ جب عوام کے ووٹ سے منتخب لوگ غیر مؤثر ہوں، اور فیصلے کسی اور جگہ ہوتے ہوں، تو اعتماد کا رشتہ کمزور پڑتا ہے۔ عوام کو معلوم ہوتا ہے کہ اصل طاقت کہاں ہے، اور وہ جانتے ہیں کہ اُن کی آواز کب سنی جائے گی اور کب نہیں۔ اگر اقتدار عوامی نمائندوں کے ہاتھ میں نہ ہو، تو پھر جمہوریت صرف کاغذ پر رہ جاتی ہے۔
استحکام صرف چند رپورٹوں، فائلوں اور پریس کانفرنسوں سے نہیں آتا۔ یہ تب آتا ہے جب ایک مزدور سکون سے شام کا کھانا کھا سکے، جب ایک ماں کو اسپتال میں عزت اور علاج ملے، جب ایک بچہ سکول جا سکے، اور جب ایک نوجوان کو نوکری کی امید ہو۔ جب قانون طاقتور اور کمزور دونوں کے لیے برابر ہو، تب ملک مستحکم ہوتا ہے۔
لہٰذا سوال یہ نہیں کہ پاکستان کو استحکام چاہیے یا نہیں—سب کو چاہیے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کون سا استحکام؟ ایسا استحکام جو طاقتور کو مزید طاقت دے؟ یا ایسا جو غریب کو بھی جینے کا حق دے؟ اگر ہم نے اپنے نظام کو انصاف پر نہیں کھڑا کیا، اگر ہم نے اپنے اداروں کو عوامی خدمت کا مرکز نہیں بنایا، اگر ہم نے غریب کی فریاد کو ایوانوں تک نہ پہنچایا، تو یہ وقتی سکون کل ایک بڑے طوفان میں بدل سکتا ہے۔
پاکستان کو آج روایتی سیاست، مصلحتوں، اور وقتی تدبیروں کی نہیں بلکہ ایک نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے—جہاں ریاست عوام کی ہو، عوام ریاست کے۔ جہاں نہ امیر کا استحقاق ہو اور نہ غریب کی محرومی۔ اگر ہم واقعی استحکام چاہتے ہیں، تو انصاف کو بنیاد بنانا ہوگا۔ ورنہ جو استحکام آج ہمیں اطمینان دے رہا ہے، وہ کل ایک نیا بحران جنم دے سکتا ہے۔
استحکام پاکستان ممکن ہے، ضرور ہے—مگر صرف اُسی دن جب یہ ریاست غریب کی ہو، فیصلے انصاف پر ہوں، اور اقتدار عوام کے پاس ہو۔ تب جا کر یہ سرزمین واقعی سلامت ہو گی، اور ہم کہہ سکیں گے: ہاں، پاکستان مستحکم ہے، اور سب کے لیے ہے۔

اٹھہتر سالوں میں تعلیم کو ملی گرانٹس مگر نتیجہ صفر

عالمی بینک کی جانب سے حالیہ دنوں میں پنجاب میں ابتدائی تعلیم بہتر بنانے کے لیے 47.9 ملین ڈالر کی خطیر گرانٹ کی منظوری ایک ایسا واقعہ ہے جس پر قوم کو خوش ہونے کے بجائے سر جھکا کر شرمندہ ہونا چاہیے۔ اس گرانٹ کا مقصد اسکول سے باہر رہ جانے والے بچوں کو دوبارہ تعلیم کے دائرے میں لانا، اساتذہ کی تربیت بہتر بنانا اور نچلی سطح کی تعلیم میں بہتری لانا بتایا گیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان کو ابتدائی تعلیم کے لیے بیرونی امداد ملی ہو؟ کیا یہ پہلا منصوبہ ہے جس میں “بچوں کو اسکول لانے” اور “اساتذہ کو مضبوط کرنے” کی بات کی جا رہی ہے؟ کیا ہم اس سے پہلے دنیا کے درجنوں اداروں سے اربوں روپے کی امداد اور قرضے نہیں لے چکے؟
سچ تو یہ ہے کہ اگر ان تمام غیر ملکی امداد، قرضوں، گرانٹس اور قومی بجٹ میں تعلیم کے لیے مختص رقوم کو جمع کیا جائے، تو اتنی خطیر رقم بن جاتی ہے کہ اس سے نہ صرف پاکستان بلکہ پورے جنوبی ایشیا میں پرائمری تعلیم کی شرح 100 فیصد تک پہنچائی جا سکتی تھی۔ مگر اس قوم کی بدقسمتی یہی ہے کہ یہاں ہر بچہ اسکول میں لانے کے نام پر حکمرانوں، افسر شاہی اور تعلیمی اسٹبلشمنٹ کی جیبیں بھرنے کی روایت بن چکی ہے۔
عالمی بینک کی اس تازہ گرانٹ سے پہلے بھی کئی دہائیاں گزریں، جہاں یونیسف، یو ایس ایڈ، جائیکا، اقوام متحدہ اور درجنوں بین الاقوامی اداروں نے پاکستان میں تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے اربوں روپے کی مدد دی۔ پاکستان کا قومی بجٹ بھی ہر سال تعلیم کے لیے خطیر رقم مختص کرتا رہا ہے، صوبائی حکومتوں نے بھی لاکھوں کروڑوں روپے اسکولوں، اساتذہ اور بچوں کے لیے مخصوص کیے۔ پھر آج، 2025 میں، ہم اس مقام پر کیسے کھڑے ہیں کہ دو کروڑ سے زائد بچے اسکول سے باہر ہیں؟ یہ صرف اعداد نہیں، یہ ایک قومی سانحہ ہے۔
خاص طور پر پنجاب کی صورت حال تو مزید افسوسناک ہے۔ ایک طرف دعوے ہیں کہ ہم تعلیم کا معیار بلند کر رہے ہیں، دوسری طرف حکومت نے ہزاروں پرائمری اور مڈل اسکولوں کو ہائی اسکولز میں ضم کر دیا ہے۔ نتیجہ یہ کہ دور دراز دیہات میں اسکول کا وجود ہی ختم ہو گیا، اور وہ بچے جو پیدل دو کلو میٹر بھی نہیں جا سکتے، تعلیم سے محروم کر دیے گئے۔ اسی پنجاب حکومت نے، جو عالمی بینک کی گرانٹ سے اب ترقی کا دعویٰ کر رہی ہے، ہزاروں سرکاری اسکول نجی شعبے کے حوالے کر دیے ہیں، جس کا سیدھا مطلب ہے: “جس کے پاس پیسہ ہے وہ پڑھے، غریب کا بچہ یا تو کام کرے یا بھٹک جائے”۔
یہ المیہ صرف پنجاب تک محدود نہیں۔ بلوچستان، سندھ اور خیبر پختونخوا بھی اسی راہ پر گامزن ہیں۔ بلوچستان میں تعلیم کے لیے عالمی بینک نے 100 ملین ڈالر کی منظوری دی، مگر وہاں بھی تعلیمی انفراسٹرکچر تباہ حالی کا شکار ہے۔ سندھ میں بدعنوانی نے تعلیم کو نگل لیا ہے۔ خیبر پختونخوا میں دہشت گردی، بدانتظامی اور سیاسی اکھاڑ پچھاڑ نے تعلیمی نظام کی جڑیں ہلا دی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کہاں گئی وہ تمام امداد، وہ اربوں کی گرانٹس، وہ ہزاروں منصوبے، وہ لاکھوں دعوے؟ کہاں گئے وہ ادارے جن کا کام تھا ان رقوم کا احتساب کرنا؟ کیا کبھی کسی نے حساب مانگا کہ گزشتہ 78 سالوں میں پرائمری تعلیم کے نام پر جو پیسہ آیا، اُس سے کیا حاصل ہوا؟ کتنے اسکول بنے؟ کتنے بچے پڑھ سکے؟ کتنے اساتذہ واقعی تربیت یافتہ ہوئے؟ اگر یہ سوال آج نہیں اٹھائے گئے تو پھر کب؟
یہ حقیقت اب ناقابلِ انکار ہے کہ پاکستان میں تعلیم صرف ایک “پراجیکٹ” ہے—ایک ایسا منصوبہ جس کے نام پر فنڈز آتے ہیں، بیرون ملک سفر ہوتے ہیں، سیمینار منعقد ہوتے ہیں، اخبارات میں رنگین تصاویر آتی ہیں، اور پھر فائل بند ہو جاتی ہے۔ جبکہ اصل بچے آج بھی کچرا چنتے، ہوٹلوں میں برتن دھوتے، اینٹیں ڈھوتے یا کسی چوراہے پر سگنل پر بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔ یہ بچے ریاست کی وہ تصویر ہیں جو ہر عالمی گرانٹ کے باوجود بد سے بدتر ہو رہی ہے۔
تعلیم کا معاملہ اب محض اصلاحات، نئے منصوبے یا امدادی پیکیجز سے نہیں سلجھنے والا۔ یہ ایک سیاسی عزم اور اجتماعی ایمانداری کا تقاضا کرتا ہے۔ جب تک پاکستان کے حکمراں طبقے، سول و عسکری افسر شاہی اور تعلیمی شعبے کے بااختیار لوگ یہ طے نہیں کرتے کہ تعلیم صرف غریب کی مجبوری نہیں بلکہ قوم کی پہلی ترجیح ہے، تب تک یہ گرانٹس آئیں گی اور ضائع ہو جائیں گی۔
ہمیں اس بیانیے کو ختم کرنا ہوگا کہ “سب کچھ ٹھیک ہو رہا ہے”۔ ہمیں کھل کر تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم تعلیم کے میدان میں بری طرح ناکام ہو چکے ہیں، اور اس ناکامی کی سب سے بڑی ذمہ دار وہ اشرافیہ ہے جو ہر حکومت میں اقتدار کے مراکز پر براجمان رہتی ہے۔ آج بھی اگر ہم نے ہوش کے ناخن نہ لیے، تو اگلی عالمی گرانٹ کے وقت بھی ہم یہی لکھ رہے ہوں گے کہ “دو کروڑ بچے اسکول سے باہر ہیں”۔
آخر میں، عالمی بینک کی گرانٹ کا خیرمقدم ضرور کیا جانا چاہیے، لیکن صرف خیر مقدم کافی نہیں—قوم کو اس بار یہ سوال ضرور پوچھنا چاہیے: پچھلی بار والی گرانٹس کہاں گئیں؟ اور اب ان پیسوں کا حساب کون دے گا؟ اگر اس مرتبہ بھی سب کچھ ویسے ہی چلا، تو پھر تعلیم کا یہ سودا صرف اشرافیہ کی فائلوں میں چمکتا رہے گا، اور غریب کا بچہ اندھیرے میں ہی بھٹکتا رہے گا۔
وقت آ گیا ہے کہ تعلیم کو اس ملک کی بقا کا مسئلہ سمجھا جائے، اور جو قومیں تعلیم کو کاروبار سمجھتی ہیں، وہ ہمیشہ قوموں کی صف میں سب سے پیچھے کھڑی رہتی ہیں۔ ہمیں طے کرنا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہونا چاہتے ہیں: تاریخ کے فٹ نوٹ میں؟ یا ترقی کے صفِ اول میں؟

سیف سٹی کیمروں کے نیچے لٹتا ہوا ملتان


ملتان، جو کبھی صوفیاء کی سرزمین اور ثقافت کا گہوارہ کہلاتا تھا، آج بے امنی، خوف اور لاقانونیت کی نئی تاریخ لکھ رہا ہے۔ شہر میں سیف سٹی کے جدید کیمروں کا جال بچھا دیا گیا ہے، بلند و بانگ دعوے کیے گئے کہ اب کوئی مجرم قانون کی آنکھ سے بچ نہیں پائے گا، اب شہری خود کو محفوظ سمجھیں۔ لیکن افسوس، حقیقت ان دعووں کے بالکل برعکس ہے۔
ابھی چند روز قبل شہر کے مرکزی مقام، چوک کہچری میں، جہاں عام طور پر پولیس کی بھاری نفری موجود رہتی ہے، دن دہاڑے ایک مسلح گروہ نے، جو موٹر سائیکلوں پر سوار تھا، ایک خاتون سے اسلحے کے زور پر گاڑی چھین لی۔ حیرت انگیز اور دل دہلا دینے والی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ دن کی روشنی میں ہوا، سیف سٹی کیمروں کی موجودگی میں ہوا، عوام کے بیچوں بیچ ہوا—لیکن پولیس چار گھنٹے بعد جائے واردات پر پہنچی، جب نہ کوئی مجرم باقی تھا، نہ ثبوت، اور نہ امید۔
یہ واقعہ کوئی پہلا نہیں، نہ ہی آخری ہوگا۔ ملتان کے گلی کوچوں میں عام شہریوں کو اسلحہ دکھا کر لوٹنے، ان کے موبائل، نقدی، زیورات، موٹر سائیکلیں چھیننے کی وارداتیں روز کا معمول بن چکی ہیں۔ کہیں کسی نوجوان کو دفتر جاتے ہوئے روکا گیا، کہیں بچوں کے سامنے ماں سے پرس چھینا گیا، کہیں بزرگ شہری کا راستہ کاٹ کر سب کچھ لوٹ لیا گیا۔ مگر قانون کے رکھوالے، جنہیں تنخواہیں، گاڑیاں، اور اختیارات عوام کے تحفظ کے لیے دیے گئے ہیں، وہ اکثر موقع پر موجود نہیں ہوتے، یا دیر سے آتے ہیں، یا واردات کو معمولی قرار دے کر فائل بند کر دیتے ہیں۔
ون فائیو (15) پر کی گئی کالیں اکثر یا تو مصروف ملتی ہیں یا پھر جواب دینے والا اہلکار ایک بے نیازی سے کہا کرتا ہے: “ٹھیک ہے، بندہ بھجواتے ہیں”—اور یہ “بندہ” کبھی پہنچتا ہے، کبھی نہیں۔ اور اگر پہنچ بھی جائے، تو پوچھ گچھ ایسے انداز میں کی جاتی ہے جیسے مدعی خود ہی مجرم ہو۔ متاثرہ شہری، جو پہلے ہی لٹ چکا ہوتا ہے، تھانے جا کر مزید تذلیل، دھونس اور تاخیر کا سامنا کرتا ہے۔
ملتان کے تھانے، جہاں انصاف کا دروازہ کھٹکھٹایا جانا چاہیے، وہاں اب جرم کی ایف آئی آر درج کروانا خود ایک جدوجہد بن چکی ہے۔ پولیس کا رویہ یہ ہوتا ہے کہ واردات کو کم سنگین ظاہر کیا جائے، یا اسے بالکل ہی درج نہ کیا جائے، تاکہ تھانے کے ریکارڈ میں جرائم کی شرح کم دکھائی جائے۔ گویا عوام کا درد نہیں، بلکہ پولیس کی کارکردگی کا گراف اہم ہے۔ سوال یہ ہے: اگر جرم ہوا ہے، تو اسے چھپانے سے کس کا فائدہ ہوگا؟ نقصان تو آخرکار عوام کا ہی ہے۔
سیف سٹی منصوبہ، جس پر کروڑوں روپے خرچ کیے گئے، جس کا مقصد جرائم کی روک تھام اور فوری ردِعمل تھا، وہ اب محض ایک دکھاوا بن کر رہ گیا ہے۔ کیمرے تو لگ گئے، مگر نہ ان کی مانیٹرنگ مؤثر ہے، نہ ان سے حاصل ہونے والے فوٹیج پر کارروائی کی جاتی ہے۔ کیمرے خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں، جیسے خود جرم کا حصہ ہوں۔ ان کی موجودگی میں واردات ہونا، ریاستی مشینری کی ناکامی کا کھلا اعتراف ہے۔
کیا عوام کا تحفظ صرف اشتہاروں میں دیا جا رہا ہے؟ کیا سیف سٹی کا مطلب صرف کیمرے لگانا ہے، یا یہ بھی لازم ہے کہ وہ نظام فعال ہو، مجرموں کی شناخت ہو، اور پولیس فوراً حرکت میں آئے؟ کیا پولیس کا کام صرف وی آئی پیز کی پروٹوکول ڈیوٹی ہے، یا وہ عوام کی بھی محافظ ہے؟ کیا ریاست کی رٹ صرف کمزور پر چلتی ہے، یا وہ مجرموں پر بھی لاگو ہوتی ہے؟
ملتان کے شہری روز مرتے ہیں—ڈر سے، بے بسی سے، اور انصاف نہ ملنے کی اذیت سے۔ خواتین، بچے، بزرگ، نوجوان—کوئی محفوظ نہیں۔ قانون صرف کتابوں میں ہے، عوام کے لیے نہیں۔ اور جب قانون مظلوم کے بجائے مجرم کی سہولت بن جائے، تو ریاست کو یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ اس کا وجود کس کے لیے ہے۔
ان حقائق کی روشنی میں ضروری ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب فوری طور پر اس صورتِ حال کا نوٹس لیں۔ سیف سٹی منصوبے جیسے بڑے اور مہنگے نظام پر خرچ ہونے والی رقم عوام کے ٹیکس کی رقم ہے، جس کا بنیادی مقصد شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا تھا۔ اگر ان کیمروں کی موجودگی میں بھی وارداتیں نہ رکیں، اور پولیس کا ردِعمل چار گھنٹے تاخیر کا شکار رہے، تو اس نظام کی فعالیت پر سوالات اٹھنا فطری ہیں۔
اسی طرح، پولیس اسٹیشنوں میں ایف آئی آر درج کرنے میں تاخیر یا پس و پیش، نہ صرف عوامی اعتماد کو مجروح کرتا ہے بلکہ جرائم کے اعدادوشمار کو غیر حقیقی بنا دیتا ہے۔ اس رجحان کو روکنے کے لیے محکمہ پولیس کو مؤثر نگرانی، داخلی احتساب اور شہریوں سے شفاف رابطے کا پابند بنایا جانا ضروری ہے۔ ون فائیو جیسے ایمرجنسی سروس پلیٹ فارمز کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے، عملے کی تربیت بہتر بنانے اور جواب دہی کا نظام سخت کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔
ملتان جیسے بڑے اور تاریخی شہر میں یہ صورتِ حال انتہائی تشویش ناک ہے۔ اگر یہاں کے شہری دن دہاڑے غیر محفوظ ہوں، تو یہ ایک صوبائی نظامِ تحفظ کی مجموعی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔ امن کا قیام صرف نگرانی کے کیمرے لگا دینے سے ممکن نہیں، بلکہ یہ انصاف، ردِعمل، اور قانون پر یکساں عمل درآمد سے حاصل ہوتا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اور متعلقہ محکمہ جات شہریوں کے ساتھ اپنا اعتماد بحال کریں۔ اگر سیکیورٹی کا ڈھانچہ صرف کاغذوں میں موجود رہے، تو زمینی حقیقتیں مزید تشویش ناک ہوتی جائیں گی۔
وزیراعلیٰ پنجاب، جو خود کو گورننس کے حوالے سے فعال ثابت کرتی آئی ہیں، ان سے امید کی جاتی ہے کہ وہ اس معاملے کو محض ایک سنگل واردات نہیں بلکہ ایک اجتماعی طرزِ حکمرانی کے چیلنج کے طور پر لیں گی—اور فوری طور پر مؤثر، شفاف اور نتائج دینے والے اقدامات کی ہدایت جاری کریں گی۔ یہی وقت ہے کہ ریاست شہریوں کو یہ احساس دلائے کہ وہ اکیلے نہیں، اور قانون صرف تحریری کتاب کا نام نہیں بلکہ ان کی عملی ڈھال ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں