آج کی تاریخ

جامعات میں عارضی وائس چانسلرز کا پکا راج، سپیشل پاورز کا بے دریغ استعمال، ایچ ای ڈی رٹ چیلنج-جامعات میں عارضی وائس چانسلرز کا پکا راج، سپیشل پاورز کا بے دریغ استعمال، ایچ ای ڈی رٹ چیلنج-نشترہسپتال ایچ آئی وی معاملہ: وی سی سمیت ڈاکٹرز کو سزائوں کی منظوری-نشترہسپتال ایچ آئی وی معاملہ: وی سی سمیت ڈاکٹرز کو سزائوں کی منظوری-نشتر میڈیکل یونیورسٹی میں غیر قانونی ترقی، محکمہ صحت رپورٹ پر سپیشل سیکرٹری کا انکوائری کا حکم-نشتر میڈیکل یونیورسٹی میں غیر قانونی ترقی، محکمہ صحت رپورٹ پر سپیشل سیکرٹری کا انکوائری کا حکم-بہاولپور میں غیر قانونی اسلحہ ڈیلرز خوفزدہ، سی سی ڈی کریک ڈاؤن سے قبل گودام غائب-بہاولپور میں غیر قانونی اسلحہ ڈیلرز خوفزدہ، سی سی ڈی کریک ڈاؤن سے قبل گودام غائب-کچے کے ڈاکوؤں کے حملے، رحیم یار خان پولیس نے ایم-5 پر حفاظتی قافلے تعینات کر دیئے-کچے کے ڈاکوؤں کے حملے، رحیم یار خان پولیس نے ایم-5 پر حفاظتی قافلے تعینات کر دیئے

تازہ ترین

ارشد ندیم کا بحران، — کوچ گیا، خواب بھی دھندلا گئے؟

پاکستان کے مایہ ناز جیولین تھرو چیمپیئن ارشد ندیم ایک نئے اور مشکل ترین موڑ پر کھڑے ہیں — وہ لمحہ جب ایک ایتھلیٹ کو صرف جسمانی نہیں، بلکہ روحانی اور جذباتی سطح پر بھی خود کو دوبارہ جوڑنا ہوتا ہے۔ ایک طرف انجریز اور کارکردگی میں واضح کمی، دوسری جانب کوچ اور روحانی باپ جیسے ساتھی سلمان بٹ کی زندگی بھر کی پابندی — یہ سب کچھ ایک ہی وقت میں ہونا صرف ایک حادثہ نہیں بلکہ ایک ایسے سسٹم کی کہانی ہے جو اپنے ہیروز کو تنہا چھوڑنے کا ہنر جانتا ہے۔
ارشد ندیم، جو اولمپکس میں پاکستان کی امیدوں کی آخری کرن بنے، جنہوں نے پیرس میں سونے کا تمغہ جیت کر عالمی منظرنامے پر پاکستان کا نام روشن کیا، آج شدید دباؤ اور بےیقینی کا شکار ہیں۔ صرف وہ نہیں، ان کے مداح، کوچ، اور کھیل سے محبت رکھنے والے ہر پاکستانی کو یہ سوال ستا رہا ہے: کیا ارشد ندیم کی کہانی یہاں رک گئی؟
سلمان بٹ پر پابندی کا اعلان، جو کہ پنجاب اتھلیٹکس ایسوسی ایشن کے متنازعہ انتخابات کے دوران مبینہ آئینی خلاف ورزیوں پر عائد کی گئی، بظاہر ایک انتظامی فیصلہ ہے۔ لیکن اس کے اثرات صرف ایک کوچ تک محدود نہیں۔ یہ فیصلہ ارشد ندیم کے کیریئر کی بنیادوں کو ہلا دینے کے مترادف ہے۔ کیونکہ سلمان بٹ صرف کوچ نہیں تھے، وہ ایک “روحانی والد” تھے، وہ قوت جو ارشد کو نہ صرف فزیکل ٹریننگ دیتی تھی، بلکہ ذہنی طور پر بھی میدان میں کھڑا رکھتی تھی۔
ارشد ندیم کا حالیہ عالمی چیمپئن شپ میں 10واں نمبر حاصل کرنا، ایک ایتھلیٹ کے طور پر ان کی جدوجہد کی علامت ہے۔ انہوں نے آپریشن کے بعد انجری سے واپس آنے کی کوشش کی، لیکن مطلوبہ کارکردگی نہ دکھا سکے۔ سلمان بٹ نے اپنی رپورٹ میں واضح کیا کہ ٹوکیو میں درجہ حرارت اور نمی کا تناسب غیر معمولی تھا، اور ارشد کی بچھڑے کی تکلیف نے کارکردگی کو متاثر کیا۔ ان کا تھرو — 82.75 میٹر — اولمپکس میں کیے گئے 92.97 میٹر کے تھرو سے خاصا کم تھا۔ گویا صرف جسمانی زخم نہیں، اعتماد بھی چوٹ کھا چکا تھا۔
ایسے وقت میں کوچ کا ساتھ چھن جانا ایک ایسا زخم ہے جس کا کوئی مرہم نہیں ہوتا۔
یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ سلمان بٹ نے ارشد کی میڈیا رسائی تک مکمل کنٹرول سنبھال رکھا تھا۔ ہر انٹرویو، ہر ملاقات، حتیٰ کہ پبلک بیانات تک ان کے ذریعے طے ہوتے تھے۔ یہ رویہ ایک پیشہ ور کوچ کے لیے قابلِ اعتراض ہو سکتا ہے، لیکن اگر ارشد خود اپنے کوچ کو اپنا “سب کچھ” مانتے تھے، تو کیا یہ تعلق جذباتی حدوں کو پار نہیں کر چکا تھا؟ شاید یہی وہ چیز تھی جو سلمان بٹ کو اتھلیٹ کے ساتھ ذاتی سطح پر جوڑتی تھی، اور یہی بات اداروں کو ہضم نہ ہو سکی۔
پاکستان میں کھیلوں کے ادارے ایک طویل عرصے سے تنظیمی بدانتظامی، ذاتی انا اور سیاست کی لپیٹ میں ہیں۔ کھلاڑیوں کے معاملات کو ذاتیات میں گھسیٹنا، کوچز کو طاقت کے کھیل کا حصہ بنانا، اور قومی ہیروز کو بغیر کسی منصوبہ بندی کے میدان میں چھوڑ دینا — یہ سب کچھ ہمارے کھیلوں کی زبوں حالی کا مظہر ہے۔
سلمان بٹ کے ساتھ جو کچھ ہوا، اس پر تنقید اپنی جگہ، لیکن کیا ایتھلیٹ کی کارکردگی کے تناظر میں اس فیصلے کی ٹائمنگ درست تھی؟ ایک ایسا کوچ، جو اپنے شاگرد کے ساتھ ہر لمحہ کھڑا رہا، جس نے اس کے سونے کے خواب کو تعبیر بخشی، اسے اچانک میدان سے باہر نکال دینا کیا ایک پیشہ ورانہ فیصلہ ہے، یا ایک انتقامی اقدام؟ اور سب سے اہم سوال: کیا ارشد ندیم اس کے بعد اپنی کھوئی ہوئی فارم واپس پا سکیں گے؟
اس صورتحال میں سب سے زیادہ ذمہ داری اتھلیٹکس فیڈریشن آف پاکستان پر عائد ہوتی ہے۔ ایک طرف انہوں نے سلمان بٹ کو زندگی بھر کے لیے پابندی کا شکار بنایا، دوسری طرف ارشد ندیم کو تنہا چھوڑ دیا — ایسے وقت میں جب انہیں سب سے زیادہ معاونت کی ضرورت تھی۔ یہ ایک بڑا خلا ہے جسے صرف نیا کوچ مقرر کر کے پر نہیں کیا جا سکتا۔ کسی بھی کوچ کو ارشد کے ساتھ رشتہ قائم کرنے، اس کا اعتماد حاصل کرنے اور اس کے ذہنی و جسمانی زخموں کو سمجھنے کے لیے وقت اور فہم درکار ہے۔ یہ محض تکنیکی تربیت کا معاملہ نہیں، بلکہ ایک مکمل ریہیب کا عمل ہے۔
کھیلوں کی دنیا میں ایسے واقعات کم نہیں۔ جب ایک چیمپئن اپنے عروج کے بعد زوال کا سامنا کرتا ہے، تو اسے سہارا دینے والا نظام یا تو اس کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے یا اسے تنہا چھوڑ دیتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں دوسرا راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔ ایک دن ہیرو، اگلے دن تنقید کا نشانہ — یہ ہمارا قومی رویہ بن چکا ہے۔
ارشد ندیم کو صرف نیا کوچ نہیں، بلکہ ایک نئے “سسٹم” کی ضرورت ہے۔ ایک ایسا نظام جو اس کی مکمل جسمانی بحالی، نفسیاتی معاونت، اور تربیتی تسلسل کو یقینی بنائے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ وہ دوبارہ 100 میٹر کی حد کو توڑنے کا خواب دیکھے، تو ہمیں اسے دوبارہ خواب دیکھنے کا حوصلہ دینا ہوگا۔
یہ موقع حکومتِ پاکستان، وزارتِ کھیل، اور اتھلیٹکس فیڈریشن کے لیے آزمائش ہے۔ وہ یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ پاکستان کھیلوں کے شعبے میں صرف جذباتی نعروں پر نہیں بلکہ عملی حکمتِ عملی پر یقین رکھتا ہے۔ ارشد ندیم کے لیے فوری طور پر ایک ماہر کوچ کا تقرر، ریہیب سینٹر کی سہولت، اور مکمل مالی و تکنیکی تعاون کو یقینی بنایا جانا چاہیے۔ صرف اس صورت میں ہم ایک چیمپئن کو دوبارہ عروج پر دیکھ سکتے ہیں۔
اس پورے معاملے میں میڈیا کا کردار بھی قابلِ غور ہے۔ ارشد کی کارکردگی میں کمی کے بعد، کئی ٹی وی چینلز اور تجزیہ نگاروں نے ان پر تنقید کے نشتر چلائے، بغیر اس بات کو سمجھے کہ وہ ایک طویل انجری اور ذاتی مسائل سے گزر رہے ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ کھیل کے میدان میں کامیابی صرف جسمانی صلاحیت پر نہیں بلکہ ذہنی توازن پر بھی منحصر ہوتی ہے۔
اب جبکہ سلمان بٹ منظر سے ہٹ چکے ہیں، ارشد کے لیے یہ ایک نیا آغاز ہو سکتا ہے — اگر ریاست اور ادارے اس لمحے کو سنجیدگی سے لیں۔ بصورتِ دیگر، ایک اور عظیم کھلاڑی خاموشی سے منظر سے ہٹ جائے گا، اور ہم صرف سوشل میڈیا پر “سونے کے دنوں” کی یادیں بانٹتے رہیں گے۔
ارشد ندیم ایک قومی اثاثہ ہیں۔ ان کی کامیابیاں صرف ذاتی نہیں، قومی فخر کا حصہ ہیں۔ ان کے ساتھ جو سلوک ہوا، وہ ایک فرد کا نہیں، پوری اسپورٹس پالیسی کا عکاس ہے۔ وقت آ چکا ہے کہ ہم صرف کھلاڑیوں کو جیتنے کے بعد سراہنے کی بجائے، انہیں ہار کے وقت سہارا دینا سیکھیں۔
یہی اصل کھیل ہے — میدان میں بھی اور میدان سے باہر بھی۔ اور اگر ہم یہ نہ سیکھ سکے، تو ہر ارشد ندیم کے ساتھ ایک “سلمان بٹ” بھی دفن ہوتا رہے گا — اور ہمارے خواب بھی۔

شیئر کریں

:مزید خبریں