آج کی تاریخ

اخلاق اقدار کا زوال (4)

تحریر :ڈاکٹر ظفر چوہدری

ساٹھ کی دہائی میں جو سماجی نظام تھا شاید وہ قبائلی جاگیرداری اور ابتدائی صنعتی دور کا میکسچر تھا۔ تاہم اجتماعی معاشرتی اقدار کی باقیات بھی موجود تھیںاور دیہی معاشرہ اور شہری معاشرت میں فرق ظاہر ہونا شروع ہو چکا تھا۔ میرا مسئلہ یہ تھا کہ میں ایک قصبہ روہیلانوالی میں رہتا تھا۔ افتخار فخر چھاوڑی مذاق میں مجھے قصباتی بھی کہتے تھے بقول ان کے میں نہ دیہاتی ہوں اور نہ شہری ہوں بلکہ قصباتی ہوں۔ حالانکہ وہ خود زیادہ تر قصبات میں ہی رہے یا پھر ساہیوال اور بہاولپور میں اور آخر میں ملتان آباد ہو گئے۔ لیکن ان کا پس منظر تو دیہی تھا کیونکہ ان کے دادا جان قیام پاکستان سے پہلے 1930-35ء میں دنیا پور ضلع لودھراں منتقل ہو چکے تھے۔
گنجی بار کے علاقہ میں مشرقی پنجاب سے آباد کاری کے سلسلے میں بہت سے خاندان جنوبی پنجاب میں آباد ہو گئے تھے۔ اس زمانے میں ونگار لی جاتی تھی۔ اس کا مطلب تھا بغیر کسی معاوضے کے اپنے دوستوںاور برادری سے کام کرایا جاتا تھا یعنی فصل کاشت کرنے کے لیے ہل چلانے والی جوڑی بمعہ ہالی (چل چلانے والے کو ہالی کہتے تھے) لیے جاتے اس طرح فصل کی کٹائی بوائی وغیرہ کے موسم میں بھی ونگار لی جاتی تھی۔ میرے خیال میں قبائلی نظام میں تو سارے کام مشترکہ طور پر ہوتے تھے بس بانٹ لیے جاتے ہونگے جیسے لوہار ، موچی، درکھان، جولاہے سب ایک ہی قبیلے کے ہوتے تھے۔ جو غالباً بعد میں علیحدہ قومتیں بن گئیں۔
قبائلی نظام جیسے ہی جاگیرداری نظام میں تبدیل ہوا۔ قبائل کے جو جنگجو گردہ زمینوں پر قابض ہو گئے جو اس زمانے کے صنعت کار یا کاریگر تھے یعنی کمہار ، درکھان، لوہار، جولاہے اور موچی (جو جوتے بناتے تھے) وغیرہ کو کمتر درجہ پر رکھنے کے لیے کمی کمین بنا دیا یعنی (کام کرنے والے) ایسے محاورے میں بھی ہوتے تھے۔ جیسے چوڑیاں دے پٹھان ونگارے یعنی (چوڑھے پٹھانوں سے ونگار لے رہے ہیں) پٹھان سے مراد اس وقت کے بالا دست طبقات ہے اور چوڑھے سے مراد سب سے کمتر طبقہ ہے۔ ونگار تر کا رواج زیادہ تر ہم پلہ لوگوں میں تھا۔
عام لوگوں میں ایک دوسرے کا ہاتھ بٹانے اور مدد کرنے کا جذبہ ہوتا تھا۔ اسی طرح شادی بیاہ اور غمی خوشی کے موقع پر انتظامات کے لیے سب لوگ اکٹھے ہو جاتے تھے۔ خاص کر خواتین کپڑے بنانے میں مدد کرتی تھیں۔ رات کو خواتین خاص کر لڑکیاں اکٹھی ہوتی تھی اور خوب ہلہ گلہ ہوتا تھا۔ بزرگوں کی اپنی مجلس ہوتی۔ جن میں وارث شاہ، بلھے شاہ، غلام فرید کا کلام بھی سنا جاتا تھا۔ اِسی طرح بارات کی آمد پر یا ولیمے کی تیاری میں بہت سے لوگ کام کرتے تھے۔ گائوں کا نائی کھانا تیار کرتا تھا۔ اپنے ہی بندے کھانا لگاتے اور کھلاتے تھے اور مہمانوں کے لیے چارپائیاں اور بستر گائوں یا قصبہ کے لوگوں کے گھروں سے اکٹھے کئے جاتے تھے اور بارات تین چار دن تک قیام کرتی تھی لڑکی کے والدین کے علاوہ لڑکی کے چچا، ماموں یا دوست بارات کو کھانا کھلایا کرتے تھے۔ چھوٹی موٹی کو تاہیاں اور جھگڑے بھی ہوتے تھے مگر انہی کاموں کی وجہ سے لوگوں میںبہت زیادہ اجتماعی شعور پیدا ہوتا تھا۔ لڑکے کی شادی پر پنجابی میں نیوندا (سرائیکی میں نیندر کہتے ہیں اُردو میں مجھے پتہ نہیں) کیا کہا جاتا تھا۔غالباً سلامی کہا جاتا ہے اس رقم کا باقاعدہ حساب رکھا جاتا تھا۔ انڈیا میں نائی کیلئے علیحدہ سے پیسے دیئے جاتے تھے۔ یعنی آگ پانچ روپے نیوندرا لڑکے والد کو دیا ہے تو چار آنے نائی کو بھی دیئے جاتے تھے۔ جس کا حساب نہیں رکھا جاتا تھا۔ نائی جب شادی کی دعوت دیتے جاتا تھا تو بھی اسے کچھ پیسے لوگ دیتے تھے جسے آپ ٹپ سمجھ سکتے ہیں۔ ولیمے پر اکٹھے ہوالے والے پیسوں کو آپ اس دور کی کمیٹی سمجھ سکتے ہیں شادی کے تقریباً 90/80 فیصد اخراجات انہیں پیسوں سے پورے کیے جاتے تھے۔ جب ان کے بیٹوں کی شادی پر مذکورہ پیسے دوگنے کرکے لوٹانے پڑتے تھے لکھا جاتا تھا مثلا پرانے 5 نئے 10 روپے یعنی 5 روپے کا کھاتا چلتا رہے گا اگر کوئی پیسے برابر کر دیتا تو سمجھا جاتا تھا کہ وہ آئندہ برادری سے تعلق قائم نہیں رکھنا چاہتا۔
آج کے دور میں شادی کی تقریبات محض دکھاوا اور پروے پیسے کے چنائو کا ذریعہ بن گئی ہیں ۔ ڈھولکی، مائیاں، مہندی، بارات، ولیمہ وغیرہ پر مقابلہ بازی جس میں خواتین کا ہر فنکشن پر نیا سوٹ پہننا شامل ہے۔ اب تو دادیاں اور نانیاں بھی ایسے تیار ہوتی ہیںکہ دلہن اور اس کی ماں میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے اور پھر یہ اپنے خاوندوں کو بتاتی ہے کہ مجھے فلاں عورت کہہ رہی تھی کہ تم تو اپنی بیٹی کی بڑی بہن لگتی ہو۔
بڑے ہوٹلوں اور شادی گھروںمیں بات لاکھوں سے کروڑوں تک پہنچ چکی سے شادیوںگائوں کے غریبوں کو شادی کا کھانا مل جاتا تھا۔ آپ وہ ہوٹل یا شادی گھر والےکسی اور شادی میں شرکت کرنے والے لوگوں کو کھلا دیتے ولیمہ پر ملنے والے پیسے سے دعوت ولیمہ پر خرچ کرنے رقم کا نصف بھی نہیں ہوتے۔ سفید پوش طبقہ ان حالات میں بہت زیادہ پس رہا ہے مگر نک تے رکھنی اے (یعنی نیچی نہیں ہونے دیتی)

شیئر کریں

:مزید خبریں