تحریر:ڈاکٹر ظفر چوہدری
ساٹھ کی دہائی میں معیار زندگی آج کے مقابلے میں کافی پسماندہ تھا۔ اکثر گائوں اور دیہاتوں میں بجلی کی سہولت میسر نہ تھی۔ ہمارے گائوں روہیلانوالی میں بھی 1972ء میں بجلی آئی۔ آمد و رفت کے ذرائع بہت محدود تھے۔ قوت خرید بہت کم تھی۔ صحت اور تعلیم کی سہولیات بھی بہت کم تھیں ( یہ الگ بات کہ یہ دونوں شعبے آج کل بھی کسی بھی حکومت کی ترجیح میں شامل نہیں ہیں )جاگیردارانہ نظام یا وڈیرہ شاہی موجود تھی جسے سرکار کی حمایت بھی حاصل ہوتی تھی۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ جاگیرداری نظام میں لوگوں کو اچھا یا برا مگر انصاف فوری مل جاتا تھا۔ عدالتی نظام جو انگریز حکومت کا تسلسل تھا وہ بھی کسی حد تک مراعات یافتہ طبقہ کے اثر کے باوجود غریب آدمی کو آج کی نسبت سستا اور جلد انصاف فراہم کر دیا کرتا جبکہ آج کل کے عدالتی نظام انصاف خریدا تو جا سکتا ہے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ اس زمانے میں بہی کھاتہ ( ایک سرخ جالی والی سفید کاغذ کی بنی ہوئی کاپی ) ہوتی تھی۔ اگر اس پر رقم کا اندراج بمعہ نشان انگوٹھا ہوتا تو دو ماہ میں فیصلہ ہو جاتا تھا جبکہ آج کل چیک کے ڈس آنر ہونے پر 489/F کا پرچہ درج کرایا جاتا ہے جس میں کسی اور ثبوت کی ضرورت نہیں ہوتی مگر اس کا بھی فیصلہ سالوں میں نہیں ہوتا ہے۔ اسی طرح انتظامیہ جس میں پولیس‘ پٹواری اور بیورو کریسی شامل ہیں‘ وہ بھی اس قدر کرپٹ نہیں ہوتے تھے۔ جیسے جیسے مادی ترقی ہوتی گئی رشوت کے ریٹ اور طریقہ کار بھی بدلتا گیا۔ میں آپ کو ایک واقعے کی تفصیلات سے آگاہ کرتا ہوں کہ میں اپنے نانا جان کے ہمراہ اپنی خالہ سے ملنے گیا جو خان گڑھ میں رہتی تھیں۔ جب وہاں پہنچے تو میرے خالو کے ایک بھائی جس کا نام میں دانستہ نہیں لکھ رہا کیونکہ وہ اب اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں جو کہ پٹواری تھے‘ وہ نانا جان سے ملنے آئے اور کہا کہ آپ ہمارے ہاں کھانا کھائیں۔ نانا جان نے کہا بہت مہربانی میں بیٹی کے ہاں ہی کھانا کھائوں گا‘ آپ کا بہت بہت شکریہ۔ جب پٹواری صاحب نے شکوہ کیا کہ آپ کبھی میرے یہاں کھانا نہیں کھاتے کیا آپ مجھ سے ناراض ہیں؟ تو نانا جان نے کہا تم بھی میرے بیٹوں جیسے ہو مگر تم نے پوچھ ہی لیا ہے تو پھر سنو! میں حرام کی بجائے اپنے داماد کے گھر کھانا کھانا پسند کرتا ہوں کہ وہ کاشتکاری کر کے رزق حلال کماتے ہیں۔ یہ واقعہ 1965ء کا ہے۔ اب میں 1990ء میں پیش آنے والا واقعہ بتاتا ہوں۔ میرے دوست ڈاکٹر اختر صاحب وہ روہیلانوالی میں پریکٹس کرتے ہیں ان کی بیوی کی نشتر ہسپتال میں لیبر روم داخل تھی ان کی بیوی نے بھائی میاں عبدالغفار اس وقت محکمہ انہار میں ایکسین تھے۔ ایک ماہ قبل وہ اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں۔ وہ نہ صرف انتہائی ایماندار مشہور تھے بلکہ حقیقت میں انتہائی ایماندار تھے۔ اگر ہم ان کو ضرورت سے بھی زیادہ ایماندار کہیں تو بے جا نہ ہو گا۔ وہ بھی اپنی بہن کی خبر گیری کرنے نشتر آ گئے۔ گائوں سے ڈاکٹر صاحب اور میرے مشترکہ دوست بھی آئے ہوئے تھے۔ میاں عبدالغفار نے وہاں موجود چار پانچ دوستوں سے کہا کہ آپ دوپہر کا کھانا میرے ہاں کھائیں۔ دوستوں میں سے سب سے ’’سمجھدار‘‘ دوست نے کہا کہ آپ کا حکم سر آنکھوں پر۔ ہمیں بازار میں کام ہے اگر جلد فارغ ہو گئے تو خدمت میں حاضر ہوں گے۔ میاں صاحب نے کہا جب بھی فارغ ہوں آپ آ جائیں۔ خیر‘ میاں عبدالغفار صاحب کے جانے کے بعد سب دوستوں نے مجھے کہا کہ ڈاکٹر صاحب اگر کھانا کھلاتا ہے آپ ہمیں ٹیسٹی ہوٹل سے کڑاہی گوشت کھلائیں ورنہ ہمیں پتہ ہے میاں صاحب کے ہاں سے دال روٹی کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا۔ 1965ء سے لیکر 1990ء صرف 25 سال میں ہماری اخلاقی اقدار 180 ڈگری پر بدل چکی تھیں۔ کیا وجہ ہے دن رات مبلغین کے تبلیغ اور اسلام کے زریں اصولوں کی یاد دہانی کے باوجود ان سالوں میں ہمارا اخلاقی ڈھانچہ کس قدر بوسیدہ ہو چکا تھا۔ اب تو بتیس سال مزید یعنی 2023ء تک اور گزر چکے ہیں ہمارا اصل مسئلہ اخلاقی اقدار کی مسلسل زوال پذیری ہے جس سے رشوت کے نئے نئے طریقے ذخیرہ اندوزی اور سینہ زوری کی نت نئی اور طاقت ور فصل آئے روز تیار ہو کر سامنے آ رہی ہے۔