شاعر احمد فرہاد کی جبری گمشدگی کیس کا ڈرامائی ڈراپ سین ہوگیا- اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس محسن اختر کیانی کی عدالت میں کل جب شاعر احمد فرہاد کی جبری گمشدگی کیس کی سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل پاکستان نے روسٹروم پر آکر فاضل جج کو بتایا کہ ڈھیرکوٹ تھانہ راولا کوٹ آزاد کشمیر پولیس نے تسلیم کیا ہے کہ شاعر احمد فرہاد کو انھوں نے حاضر ڈیوٹی افسر سے بدتمیزی کرنے اور اسے کار سرکار سے روکنے کے جرم میں گرفتار کیا ہوا ہے-
اس موقعہ پر اٹارنی جنرل پاکستان نے عدالت میں شاعر احمد فرہاد پر درج ایف آئی آر کی نقل اور ڈھیرکوٹ تھانہ راولا کوٹ آزاد کشمیر پولیس کا تحریری بیان بھی جمع کرایا –
عدالت نے کیس بند کرنے کے لیے شرط عائد کی کہ شاعر احمد فرہاد تک اس کے اہل خانہ کو رسائی دی جائے-
کیا واقعی شاعر احمد فرہاد کا مقدمہ جبری گمشدگی کا مقدمہ نہیں تھا؟
کیا انھیں 11 روز پہلے ان کے گھر داخل ہوکر مبینہ طور پر اغوا نہیں کیا گیا تھا؟
کیا اس کیس کی مدعیہ مسز احمد فرہاد کا یہ دعوا غلط تھا کہ رات گئے ایک انٹیلی جنس ایجنسی کے اہلکار ان کے گھر داخل ہوئے اور ان کے شوہر کو زبردستی اٹھا کر لے گئے اور پھر انھیں جبری لا پتا کر دیا؟ اس دوران انھوں نے ان کے گھر پر لگے سی سی ٹی وی کیمرے بھی توڑ دیے-
اس بیان کا کیا ہوگا جو آئی جی اسلام آباد پولیس نے عدالت میں داخل کیا تھا جس میں انھوں نے یہ دعوا کیا تھا کہ شاعر احمد فرہاد گھر سے نہیں بلکہ گھر سے باہر اغوا ہوئے تھے؟
اس دوران میڈیا رپورٹس کے مطابق ایک انٹیلی جنس ایجنسی سے تعلق رکھنے والے افسر نے عدالت کو بتایا تھا کہ احمد فرہاد کی آخری لوکیشن چیف منسٹر ہاؤس صوبہ خیبر پختون خوا کے باہر پائی گئی تھی –
لیکن تھانہ ڈھیر کوٹ آزاد کشمیر پولیس کی ایف آئی آر کے مندرجات کے مطابق شاعر احمد فرہاد کو انھوں نے اپنے تھانے کی حدود میں کوہالہ پل سے اس وقت گرفتار کیا تھا جب انھوں نے وہاں ناکے پر موجود پولیس اہلکاروں سے بدتمیزی کی اور ان کے سرکاری کام میں دخل اندازی کی – لیکن احمد فرہاد کے خلاف تھانہ ڈھیرکوٹ پولیس نے جو مقدمہ درج کیا ہے وہ 28 مئی بروز بدھ صبح آٹھ بجے درج کیا جبکہ اس ایف آئی آر میں جرم کا ارتکاب ٹھیک اس روز ہونا بتایا گیا ہے جس دن شاعر احمد فرہاد لاپتا ہوئے تھے-
سوال یہ جنم لیتا ہے کہ تھانہ ڈھیر کوٹ آزاد کشمیر پولیس نے قریب قریب 11 روز تک شاعر احمد فرہاد کے اپنی تحویل میں ہونے کی اطلاع حکومت پاکستان کو کیوں نہیں دی؟ قانون کے مطابق مقدمے کا فوری اندراج کرکے گرفتار شاعر احمد فرہاد کو 24 گھنٹوں میں علاقہ مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیوں نہیں کیا، اگر وہ واقعی ان کی تحویل میں تھا؟ پولیس کا موقف یہ ہے کہ وہ 11 روز تک تھانے کی حدود کا تعین کرنے میں مصروف تھے –
ان تمام سوالات ، حقائق و واقعات کو دیکھتے ہوئے عام تاثر یہ بن رہا ہے کہ تھانہ ڈھیر کوٹ میں 28 مئی کو احمد فرہاد کے خلاف 11 روز پہلے ہوئے وقوعے کا مقدمہ درج کرنا اور احمد فرہاد پر تھانہ ڈھیر کوٹ پولیس کے ساتھ کوہالہ پل پر بدتمیزی اور کار سرکار میں مداخلت کرنے کا الزام بادی النظر میں خود ساختہ اور کچھ کرداروں کی کھال بچانے کا حیلہ ہے –
انسانی حقوق کے کارکن اور فوجداری مقدمات کے ماہر وکلاء کا موقف یہ ہے احمد فرہاد کیس کا یہ ڈرامائی ڈراپ سین ان کی جبری گمشدگی جیسے غیر آئینی و غیر قانونی فعل کی سنگینی سے پیدا شدہ صورت حل سے نکلنے کی تدبیر ہے –
ملک کے ایک موقر انگریزی اخبار 28 مئی کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں احمد فرہاد کیس کے ڈرامائی ڈراپ سین کی کاروائی کو رپورٹ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس روز اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج محسن اختر کیانی نے ملک کی تمام انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سیکٹر انچارج اور کمانڈنگ افسران کو طلب کر رکھا تھآ – عدالت نے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڈ کو بھی طلب کیا تھا جو اس روز عدالت میں موجود تھے – اخبار کی اس رپورٹ سے صاف یہ تاثر ملتا ہے کہ شاعر احمد فرہاد کی جبری گمشدگی کے کیس میں حکومت کے نمائندہ اٹارنی جنرل پاکستان نے ملک کی ٹاپ کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اعلی عہدے داروں اور وفاقی وزیر قانون کو جواب دہی سے بچانے کے لیے احمد فرہاد کی آزاد کشمیر پولیس کی قید میں ہونے کا ثبوت فراہم کیا-
شاعر احمد فرہاد کی جبری گمشدگی کے کیس کے اس ڈرامائی ڈراپ سین نے احمد فرہاد کیس کو تو کلوز کردیا ہے لیکن سوال یہاں یہ جنم لیتا ہے کہ کیا اس سے پاکستان میں سب سے سلگتے ہوئے مسئلے یعنی جبری گمشدگیوں کے مسئلے لو بھی حل کردیا ہے؟ کیا اس نے جبری گمشدگیوں کے عمل میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کردار پر اٹھنے والی انگلیاں بھی گرا دی ہیں؟
حکومت نے شاعر احمد فرہاد کی جبری گمشدگی کے معاملے کو جس طرح سے ہینڈل کرنے کی کوشش کی ہے اس سے بلوچستان، سندھ اور کے پی کے میں جبری گمشدگیوں کے ہزاروں لاینحل مقدمات کی پیچیدگی اور بڑھا دیا ہے – سیکورٹی اداروں اور انٹیلی جنس اداروں کے کردار بارے شکوک و شبہات اور بڑھ گئے ہیں – اس سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر دباؤ میں اور اضافہ ہوا ہے جو منتخب حکومتیں ہیں اور ان حکومتوں میں شامل سیاسی جماعتیں اپنی جمہوری اساس پر فخر کرتی ہیں اور وہ آئین و قانون کی پاسداری کے مطالبات اپنے سیاسی حریفوں سے کرتی رہتی ہیں –
پاکستان میں جبری گمشدگیاں عالمی سطح پر پاکستان کی حکومت کے لیے سخت شرمندگی کا سبب بن رہی ہیں –
ابھی ایک روز پہلے بلوچ یک جہتی کمیٹی کی مرکزی رہنماء ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے ناروے میں ایک بین الاقوامی فورم پر تقریر کرتے ہوئے بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین پامالی ہونے کا الزام عائد کیا- انھوں نے دعوا کیا کہ بلوچستان میں ہزاروں خاندانوں کی خواتین اپنے پیاروں کی جبری گمشدگی کے خلاف سالہا سال سے جدوجہد کر رہی ہیں اور انھیں کسی ریاستی ادارے نے انصاف فراہم نہیں کیا- ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی پاکستان کی حکومت کے خلاف چارج شیٹ بہت سنگین ہے اور یہ پاکستان کے بین الاقوامی فورم پر کشمیر اور فلسطین میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اٹھائی جانے والی آواز کو کمزور اور اخلاقی جواز سے محروم کرنے کا سبب بن سکتی ہے- پاکستان کے ارباب اختیار کو اس مسئلے کا جلد از جلد حل نکالنے کی ضرورت ہے –
سرمایہ کاری کے لئے مستحکم سیاسی نظام اورجدید ٹیکنالوجی کی ضرورت
سرمایہ کاری کے سازگار ماحول کے لیے قانون کی حکمرانی پر مبنی ایک مستحکم سیاسی نظام ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، ویلیو ایڈڈ مصنوعات کی تیاری پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے ایک وسیع صنعتی بنیاد کی ترقی اور مستقبل کی تشکیل کرنے والی ٹیکنالوجیوں کو اپنانا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔
ہمیں اپنی صنعتوں کو جدید بنانے اور ان میں ٹیکنالوجی کے استعمال کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس سے نہ صرف ہماری پیداوار میں اضافہ ہوگا بلکہ عالمی منڈیوں میں ہماری مسابقتی صلاحیت بھی بڑھے گی۔ مزید برآں، پائیدار ترقی کے لیے تعلیمی نظام میں جدت اور تحقیق کو فروغ دینا ہوگا تاکہ ہم مستقبل کی ٹیکنالوجیز میں خود کفیل ہوسکیں۔
ملک میں سرمایہ کاری کی راہ میں رکاوٹیں دور کرنے کے لیے شفاف پالیسیوں اور بدعنوانی کے خاتمے پر زور دینا ہوگا۔ حکومت اور نجی شعبے کے درمیان بہتر تعاون اور موثر حکمت عملیوں کے ذریعے ہم اپنی معیشت کو مستحکم اور ترقی یافتہ بنا سکتے ہیں۔
مستقبل کی معیشت میں کامیابی کے لیے ہمیں آج ہی سے اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ ہم عالمی سطح پر اپنے قدم جما سکیں اور اپنے عوام کے لیے بہتر مواقع فراہم کر سکیں۔
اسی تناظر میں، ہمیں اپنی برآمدات میں اضافہ کرنے کے لیے نئی منڈیوں کی تلاش کرنی ہوگی۔ عالمی تجارت کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے معیاری مصنوعات کی تیاری اور برآمدات کے عمل کو آسان بنانا ہوگا۔ اس مقصد کے لیے، تجارتی معاہدات اور عالمی اداروں کے ساتھ شراکت داری قائم کرنا ضروری ہے۔
علاوہ ازیں، ہمیں اپنے مالیاتی نظام کو بھی مضبوط بنانا ہوگا تاکہ سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو اور ملک میں سرمایہ کاری کی رفتار تیز ہو۔ ٹیکس کے نظام میں اصلاحات، کاروبار کے لیے آسان قوانین، اور مالی شفافیت کو یقینی بنا کر ہم ایک مستحکم اقتصادی ماحول فراہم کر سکتے ہیں۔
ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے، عوامی سطح پر شعور بیدار کرنا بھی اہم ہے۔ ہمیں اپنے نوجوانوں کو جدید تعلیم اور ہنر سے آراستہ کرنا ہوگا تاکہ وہ مستقبل کے چیلنجز کا سامنا کرنے کے قابل ہو سکیں۔ اس مقصد کے لیے، تعلیمی اداروں اور صنعتی شعبے کے درمیان روابط کو مضبوط کرنا ہوگا۔
مجموعی طور پر، ملک میں سرمایہ کاری کے فروغ اور معاشی ترقی کے لیے ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ مستحکم سیاسی نظام، جدید صنعتی بنیاد، شفاف پالیسیوں اور عوامی شمولیت کے ذریعے ہم اپنے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ، زرعی شعبے کو بھی جدید خطوط پر استوار کرنا ہوگا۔ جدید زرعی تکنیکوں اور ٹیکنالوجیز کو اپنانا ضروری ہے تاکہ پیداوار میں اضافہ ہو اور کسانوں کی آمدنی میں بہتری آئے۔ زرعی مصنوعات کی پروسیسنگ اور برآمدات کو فروغ دینے سے ملکی معیشت کو مزید استحکام ملے گا۔
توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کرکے توانائی کے وسائل کو بڑھانا بھی ضروری ہے۔ متبادل توانائی کے ذرائع جیسے شمسی اور ہوائی توانائی کو فروغ دے کر نہ صرف توانائی کی ضروریات پوری کی جا سکتی ہیں بلکہ ماحولیاتی مسائل کا بھی تدارک کیا جا سکتا ہے۔
علاوہ ازیں، صحت کے شعبے میں بہتری لانا بھی اہم ہے۔ ایک صحت مند قوم ہی ترقی کی ضمانت دے سکتی ہے۔ صحت کی سہولیات کو بہتر بنا کر، عوامی صحت کے پروگرامز کو فروغ دے کر اور جدید طبی ٹیکنالوجیز کو اپنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
آخری بات یہ ہے کہ ہمیں معاشرتی انصاف اور مساوات کو یقینی بنانا ہوگا۔ تمام شہریوں کو برابر مواقع فراہم کرنا اور سماجی ناہمواریوں کو کم کرنا ہماری ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے۔ انصاف پر مبنی معاشرتی نظام ہی مستحکم اور ترقی یافتہ قوم کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔
ان تمام اقدامات کے ذریعے ہم ایک مضبوط، مستحکم اور خوشحال ملک کی تعمیر کر سکتے ہیں جہاں سرمایہ کاری، ترقی اور خوشحالی کا دور دورہ ہو۔ یہ تمام کوششیں ہمیں مستقبل کی مشکلات کا سامنا کرنے کے قابل بنائیں گی اور ہمیں عالمی منظر نامے پر ایک مضبوط مقام دلائیں گی۔