پاکستان ایک ایسے دور سے گزر رہا ہے جہاں دنیا بھر کے مسلمانوں کے دل فلسطین کے معصوم شہریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم سے زخمی ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے جاری وحشیانہ جارحیت نے نہ صرف غزہ کی زمین کو خون میں نہلایا ہے بلکہ مسلمانوں کے دلوں کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ایسے میں مسلمان دنیا بھر میں غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں، اور بلاشبہ یہ ردعمل فطری بھی ہے اور اخلاقی طور پر لازم بھی۔ تاہم، اس ردعمل کو اگر جذبات کے بے قابو بہاؤ میں بہا کر تشدد کی صورت میں ڈھال دیا جائے، تو یہ عمل نہ صرف اسلام کی تعلیمات سے انحراف ہے بلکہ ریاستی نظم و ضبط، عوامی سلامتی اور قومی وقار کے لیے بھی خطرناک رخ اختیار کر لیتا ہے۔اسی تناظر میں معروف اسلامی اسکالر مفتی تقی عثمانی کا حالیہ بیان ایک رہنمائی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسلام آباد میں فلسطین کے موضوع پر منعقدہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اسرائیلی مظالم کی شدید مذمت کی، اسرائیل اور اس کے حامی اداروں کے بائیکاٹ کی حمایت کی، لیکن ساتھ ہی اس بات پر زور دیا کہ یہ سب کچھ پرامن طریقے سے کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ اسلام جذباتی تشدد یا املاک کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دیتا۔ ایسے تمام اعمال شریعت کی نظر میں حرام ہیں۔مفتی صاحب کا بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ملک بھر میں کچھ لوگوں نے احتجاج کے نام پر قانون ہاتھ میں لے لیا ہے۔ لاہور، کراچی، میرپور خاص اور لاڑکانہ جیسے شہروں میں بین الاقوامی فاسٹ فوڈ چینز پر حملے کیے گئے، املاک کو نقصان پہنچایا گیا، اور بعض مقامات پر آگ زنی تک کی نوبت آ گئی۔ کئی مقامات پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں، جس کے نتیجے میں گرفتاریوں کے علاوہ دہشتگردی کے دفعات کے تحت مقدمات بھی درج کیے گئے۔یہ صورت حال ایک سنجیدہ غور و فکر کا تقاضا کرتی ہے۔ پہلا سوال یہ ہے کہ کیا ہم بحیثیت قوم اپنے جذبات کو نظم و ضبط کے تحت قابو میں رکھ پا رہے ہیں؟ کیا ہم بحیثیت امت مسلمہ اپنی اخلاقی قوت کو مثبت، مؤثر اور پرامن طریقے سے منظم کر کے دنیا کے سامنے ایک مثال پیش کر رہے ہیں؟ اور کیا ہم اس نازک وقت میں اسلام کے اصل پیغام، یعنی امن، برداشت اور توازن کو اپنانے میں کامیاب ہو رہے ہیں؟مفتی تقی عثمانی نے اپنے بیان میں جس “اعتدال” کی بات کی ہے، وہ اسلام کا بنیادی اصول ہے۔ اسلام صرف عبادات کا مذہب نہیں، بلکہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، جو انفرادی و اجتماعی زندگی کے ہر پہلو کے لیے ہدایات فراہم کرتا ہے۔ احتجاج، اختلاف رائے، اور مظلوم کی حمایت اسلام میں نہ صرف جائز ہیں بلکہ ان کی حوصلہ افزائی بھی کی گئی ہے، لیکن ان کا طریقہ کار واضح طور پر پرامن ہونا چاہیے۔اسلامی تاریخ ہمیں یہی درس دیتی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے بھی مکہ کے ظلم و ستم کا سامنا صبر، حکمت، اور امن کے ساتھ کیا۔ اگر ہم اسوۂ رسول کو نظر انداز کر کے اپنے جذبات میں بہہ جائیں، تو ہم نہ صرف اسلامی تعلیمات سے انحراف کرتے ہیں بلکہ اپنے مقصد کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ جس “بائیکاٹ” کو لوگ بنیاد بنا کر حملے کر رہے ہیں، وہ عالمی سطح پر ایک غیرمسلح، پرامن تحریک (BDS) کی صورت میں موجود ہے، جس کا دائرہ کار صرف ان کمپنیوں تک محدود ہے جو براہ راست یا بالواسطہ اسرائیل کے مظالم کی حمایت کرتی ہیں۔ مثلاً KFC جیسی کمپنی اس بائیکاٹ کی فہرست میں شامل نہیں ہے۔ لہٰذا ایسی کمپنیوں پر حملہ کرنا نہ صرف غیر منطقی ہے بلکہ اس سے اصل مقصد سے توجہ ہٹنے کا خطرہ بھی ہوتا ہے۔اس قسم کے پرتشدد اقدامات سے عالمی رائے عامہ پر بھی منفی اثر پڑتا ہے۔ جب ہم دنیا کو فلسطین کے مظلوموں کے ساتھ ہونے والے ظلم سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں، تو ضروری ہے کہ ہم اپنا کردار بھی ان کے مظلوم ہونے کے شایانِ شان رکھیں۔ اگر ہم خود قانون شکنی کریں، تو ہماری بات میں وہ اخلاقی وزن باقی نہیں رہتا جو عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ سکے۔مزید یہ کہ پرتشدد مظاہرے ریاستی اداروں کے لیے ایک چیلنج بن جاتے ہیں، جنہیں مجبوراً قانون نافذ کرنا پڑتا ہے۔ اس کے نتیجے میں مظاہرین کے خلاف سخت کارروائیاں ہوتی ہیں، گرفتاریوں اور مقدمات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، اور احتجاج کا مقصد دب جاتا ہے۔ یہی کچھ اس وقت لاڑکانہ اور کراچی جیسے شہروں میں دیکھا جا رہا ہے، جہاں احتجاج کرنے والے افراد پر انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات قائم کیے جا چکے ہیں۔پرامن احتجاج ایک جمہوری حق ہے، اور اسے مؤثر طریقے سے استعمال کیا جا سکتا ہے اگر اس کا دائرہ کار قانون کے اندر رہ کر رکھا جائے۔ بائیکاٹ، عوامی آگہی، معاشی دباؤ، اور سوشل میڈیا کے مؤثر استعمال جیسے ذرائع کے ذریعے نہ صرف ملک میں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ایک واضح پیغام دیا جا سکتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ، یہ حکومت وقت کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کے جذبات کو سمجھتے ہوئے مناسب اقدامات کرے۔ فلسطین کے مسئلے پر ایک سرکاری پالیسی تشکیل دی جائے، بائیکاٹ کے دائرہ کار کو واضح کیا جائے، اور عوام کو رہنمائی فراہم کی جائے تاکہ جذباتی بہاؤ میں قانونی اور اخلاقی حد پار نہ کی جائے۔آخر میں، ہم سب کو یہ سمجھنا ہو گا کہ اس وقت دنیا کو ایک مثبت، منظم اور پرامن امت مسلمہ کی ضرورت ہے، جو دلائل، کردار اور اخلاقیات کے ساتھ مظلوموں کی حمایت کرے، نہ کہ ہجوم، جلاؤ گھیراؤ اور قانون شکنی کے ساتھ۔ اگر ہم واقعی فلسطین کے بچوں، عورتوں، اور مظلوم عوام کے ساتھ مخلص ہیں، تو ہمارا ہر قدم ان کے شایانِ شان، اور اسلام کے پیغام امن کا مظہر ہونا چاہیے۔امن ہی راستہ ہے—اسی میں دین کی بھلائی ہے، ملک کی سلامتی ہے، اور عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی طاقت بھی۔
خزانے زمین میں دفن ہیں، مگر درکار ہے دانشمندانہ حکمت عملی
اسلام آباد میں ہونے والی حالیہ دو روزہ معدنیاتی سرمایہ کاری کانفرنس میں 300 سے زائد ملکی و غیر ملکی مندوبین کی شرکت نے پاکستان کے معدنی وسائل کے شعبے میں نئی امیدوں کو جنم دیا ہے۔ پاکستان، جو دہائیوں سے مالی بحرانوں، قرضوں اور عالمی مالیاتی اداروں پر انحصار کا شکار رہا ہے، اب اپنی معدنی دولت کو ملکی معیشت کے استحکام اور خود انحصاری کی بنیاد بنانے کی طرف متوجہ ہو رہا ہے۔ وزیرِاعظم شہباز شریف کا یہ کہنا کہ ملک کی معدنی دولت “کھربوں ڈالرز” کی مالیت رکھتی ہے، اس سمت میں ایک سنجیدہ اظہارِ ارادہ ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ آیا محض نیت اور بیانات کافی ہوں گے، یا ہمیں ٹھوس پالیسی، شفاف معاہدے اور صوبائی حقوق کے احترام پر بھی یکساں توجہ دینی ہو گی؟یہ حقیقت اب واضح ہوتی جا رہی ہے کہ پاکستان کے طول و عرض میں قیمتی معدنی ذخائر موجود ہیں—چاہے وہ بلوچستان میں سونے اور تانبے کے ذخائر ہوں، یا خیبر پختونخوا میں ہائیڈروکاربن کی نئی دریافتیں۔ ریکوڈک جیسے منصوبے کی بحالی اور اس پر عالمی دلچسپی نے سرمایہ کاروں کے اعتماد میں بھی اضافہ کیا ہے۔ تاہم، یہ عمل بظاہر جتنا پرکشش نظر آتا ہے، عملی سطح پر اتنا ہی پیچیدہ ہے۔سب سے پہلے، یہ ضروری ہے کہ حکومت محض پرجوش تخمینوں کی بنیاد پر غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کی بجائے حقائق پر مبنی معدنیاتی اسٹڈیز کو ترجیح دے۔ سرمایہ کار اس وقت تک اپنے وسائل نہیں لگاتے جب تک وہ یہ نہ جان لیں کہ کسی منصوبے کی اقتصادی افادیت، مقدار اور معیار کیا ہے۔ ماضی کے تلخ تجربات جیسے سانداک اور ریکوڈک کے معاملات ہمیں یہی سکھاتے ہیں کہ بغیر مکمل معلومات کے کیے گئے معاہدے ملک کے مفاد میں نہیں ہوتے۔مزید برآں، پالیسی سازوں کو یہ بھی ذہن نشین کرنا ہو گا کہ معاہدوں کی شفافیت اور وسائل کی مکمل ویلیو چین پر توجہ ناگزیر ہے۔ محض خام مال نکال کر برآمد کرنا ملک کے لیے کوئی دیرپا فائدہ نہیں رکھتا۔ ہمیں یہ یقینی بنانا ہو گا کہ معدنی وسائل کی مقامی سطح پر پراسیسنگ، ریفائننگ، اور تیار مصنوعات کی تیاری کے لیے انفراسٹرکچر قائم ہو، تاکہ ملک کی صنعتی بنیاد کو بھی تقویت ملے اور برآمدات میں حقیقی اضافہ ہو۔ریاستی پالیسی کا ایک اور اہم پہلو صوبائی شراکت داری اور حق داروں کی ترجیح ہے۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا وہ صوبے ہیں جہاں یہ قیمتی ذخائر موجود ہیں، لیکن افسوس کی بات ہے کہ انہی علاقوں میں احساس محرومی، شورش اور بدامنی بڑھ رہی ہے۔ بلوچستان کے عوام کا یہ مؤقف کہ ان کے وسائل سے فائدہ اٹھا کر باقی ملک کو ترقی دی جا رہی ہے، ایک جذباتی شکایت نہیں بلکہ ایک حقیقی سیاسی و معاشی مسئلہ ہے۔ جب تک ان منصوبوں کی آمدن کو مقامی ترقی، تعلیم، صحت اور روزگار میں استعمال نہیں کیا جائے گا، تب تک نہ صرف بداعتمادی بڑھے گی بلکہ سرمایہ کاری کے ماحول پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔اسی لیے ضروری ہے کہ سرمایہ کاری کے ہر منصوبے میں مقامی آبادی کو روزگار میں ترجیح دی جائے، اور منصوبوں سے حاصل شدہ آمدن کا ایک مخصوص حصہ مقامی فلاح و بہبود کے لیے مختص کیا جائے۔ یہ نہ صرف آئینی اور اخلاقی تقاضا ہے بلکہ عملی طور پر استحکام اور پائیداری کی ضمانت بھی ہے۔سیکیورٹی کا پہلو بھی ناقابلِ نظرانداز ہے۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں سیکیورٹی کی صورتحال ہمیشہ سرمایہ کاروں کے لیے تشویش کا باعث رہی ہے۔ آرمی چیف کی طرف سے کانفرنس میں دی گئی یقین دہانی حوصلہ افزا ضرور ہے، مگر محض وعدے کافی نہیں۔ زمینی سطح پر ٹھوس اقدامات، سیکیورٹی انفراسٹرکچر کی بہتری، اور مقامی کمیونٹی کی شمولیت جیسے عوامل ہی ان وعدوں کو قابلِ عمل بنائیں گے۔یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ بین الاقوامی سرمایہ کار صرف منافع کے پیچھے نہیں چلتے، بلکہ وہ پالیسی کے تسلسل، قانونی تحفظ، اور مقامی قبولیت کو بھی مدنظر رکھتے ہیں۔ اگر ہم ان پہلوؤں کو نظر انداز کرتے رہے تو یہ تمام ذخائر اور مواقع صرف کاغذوں تک محدود رہ جائیں گے۔ادھر ماحولیاتی پہلو بھی نہایت اہم ہے۔ معدنیات کی تلاش اور نکالنے کے عمل میں ماحولیاتی تحفظ کو نظر انداز کیا گیا تو اس کے اثرات نہ صرف قدرتی توازن پر پڑیں گے بلکہ مقامی آبادی کی زندگی اور صحت پر بھی سنگین نتائج مرتب ہوں گے۔ اس ضمن میں عالمی معیار کے مطابق ماحولیاتی اثرات کا تجزیہ اور پائیدار ترقی کے اصول اپنانا لازم ہے۔بالآخر، پاکستان کے لیے معدنی وسائل ایک نعمتِ غیر مترقبہ ہو سکتے ہیں—لیکن صرف اس صورت میں جب ان کا استعمال علم، شفافیت، انصاف اور حکمت عملی سے کیا جائے۔ یہ وسائل نہ صرف معیشت کو عالمی قرضوں کے شکنجے سے نجات دلا سکتے ہیں بلکہ عوامی فلاح، صوبائی ہم آہنگی، صنعتی ترقی اور قومی وقار کے فروغ کا ذریعہ بھی بن سکتے ہیں۔ مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھیں، اور ایک ایسی راہ اختیار کریں جو پائیدار ترقی، شفاف حکمرانی اور باہمی اعتماد پر مبنی ہو۔آج وقت کا تقاضا ہے کہ ہم صرف “کثیر دولت کے مالک” ہونے پر خوش نہ ہوں، بلکہ اس دولت کے استعمال کے لیے ایسی دانشمندانہ پالیسی اختیار کریں جو قوم کے ہر فرد کے لیے فائدہ مند ہو۔ تب ہی یہ دفن خزانے ہماری قومی خوشحالی کا حقیقی ذریعہ بن سکیں گے پاکستان کی اقتصادی صورتحال اس وقت شدید دباؤ کا شکار ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں سے لیے گئے قرضے، سخت مالیاتی اور مانیٹری پالیسی، اور بڑھتی ہوئی غربت ایک ایسے بحران کی شکل اختیار کر چکے ہیں جو پالیسی سازوں سے فوری اور عملی اقدام کا تقاضا کرتے ہیں۔ ایسے حالات میں پاکستان کے قدرتی وسائل، خاص طور پر معدنی خزانے، امید کی ایک کرن بن کر ابھرے ہیں۔ اسلام آباد میں منعقدہ حالیہ پاکستان منرلز انویسٹمنٹ فورم میں 300 کے قریب ملکی و غیر ملکی مندوبین کی شرکت نے ان ذخائر کی اہمیت کو مزید اجاگر کیا ہے۔وزیرِ اعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے اس فورم میں شرکت کر کے سرمایہ کاروں کو معاشی اور سیکیورٹی تحفظات کے حوالے سے یقین دہانی کرائی۔ یہ اعتماد سازی نہایت ضروری تھی کیونکہ ملک میں بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد ماضی میں قانونی پیچیدگیوں، معاہدوں کی عدم شفافیت، اور سیاسی عدم تسلسل کے باعث بری طرح مجروح ہوا ہے۔ ایسے میں اب یہ ممکن نظر آتا ہے کہ اگر حکومت اپنے وعدوں پر سنجیدگی سے عمل کرے، تو پاکستان واقعی اپنی معدنی دولت سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ایک نمایاں مثال ریکوڈک پروجیکٹ ہے، جو کہ دنیا کے سب سے بڑے سونے اور تانبے کے ذخائر میں سے ایک ہے۔ کئی سالوں کی قانونی جنگ، سیاسی تنازعات، اور وفاق و صوبے کے درمیان کشمکش کے بعد، بالآخر 2022 میں اس منصوبے کو نئے سرے سے تشکیل دیا گیا۔ اب اس کی ملکیت کچھ یوں طے ہوئی ہے: 50 فیصد بارک گولڈ کمپنی کے پاس، 25 فیصد وفاقی اداروں کے پاس، اور 25 فیصد بلوچستان حکومت کے پاس، جس میں سے 15 فیصد سرمایہ کاری کی بنیاد پر اور 10 فیصد بلا معاوضہ حصہ داری پر ہے۔بارک کمپنی کے مطابق، یہ منصوبہ “ایک عالمی معیار کی، طویل المدتی کان” بننے جا رہا ہے، جو صرف کمپنی کے لیے نہیں بلکہ پاکستان کے لیے بھی آنے والی نسلوں تک فائدے کا ذریعہ ہو سکتا ہے۔ تاہم، اس کامیابی کا اصل سبق یہ ہے کہ پہلے سے کیے گئے معاہدوں کی پاسداری، ادارہ جاتی تسلسل، اور پالیسی کی مستقل مزاجی نہایت اہم ہیں۔ ماضی میں کئی بار یہ دیکھنے کو ملا کہ ایک حکومت کے فیصلے کو آنے والی حکومت نے یا تو روک دیا یا تبدیل کر دیا، جس سے ملکی ساکھ اور سرمایہ کاری کا ماحول دونوں متاثر ہوئے۔یہ بھی اہم ہے کہ پاکستان میں اکثر معاہدے بغیر مکمل قانونی مشاورت یا شراکت دار اداروں کی رضامندی کے بغیر کیے جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں مقدمات، عالمی ثالثی عدالتوں میں رسوائی، اور ملکی خزانے کو کروڑوں ڈالر کے نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے ہر نئے معاہدے کو تفصیلی جانچ پڑتال، قانونی و فنی مشورے، اور صوبائی شمولیت کے بغیر آگے نہیں بڑھانا چاہیے۔موجودہ وقت میں پاکستان کو شدید مالی بحران کا سامنا ہے۔ ایف بی آر کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے آٹھ ماہ میں محصولات کا ہدف 703 ارب روپے کم رہا ہے۔ یہ کمی جزوی طور پر آئی ایم ایف پروگرام کے تحت سخت مالیاتی پالیسیوں کی وجہ سے ہے، جنہوں نے ترقی کی شرح کو جمود کا شکار کر دیا ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب حکومت کو معدنی وسائل کو عملی معاشی اثاثے میں تبدیل کرنا ہو گا، تاکہ نہ صرف محاصل میں اضافہ ہو بلکہ نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں۔یہاں ایک اور چیلنج یہ بھی ہے کہ ملک میں موجود کئی غیر ملکی سرمایہ کار اپنی کمائی ہوئی منافع کو بیرونِ ملک منتقل نہیں کر پا رہے، جو ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ اس مسئلے کو فوری طور پر حل کرنا ہو گا، ورنہ سرمایہ کاری کا بہاؤ رکنے کا خطرہ موجود ہے۔ایک اور اہم مسئلہ سلامتی کی صورتحال ہے، خاص طور پر بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں۔ دہشت گردی، بدامنی، اور افغان طالبان کے رویے نے کئی ترقیاتی منصوبوں کو متاثر کیا ہے۔ اگرچہ آرمی چیف نے سرمایہ کاروں کو مکمل سیکیورٹی فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے، لیکن زمینی سطح پر مربوط اور مستقل اقدامات ہی اصل اعتماد بحال کر سکتے ہیں۔آخری مگر نہایت اہم بات یہ ہے کہ اگر ان معدنی منصوبوں سے بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے عوام کو براہ راست فائدہ نہیں پہنچے گا تو بداعتمادی، احساسِ محرومی، اور مزاحمت میں اضافہ ہو گا۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ بلوچستان کی شورش کی ایک بڑی وجہ یہی تصور ہے کہ صوبے کے وسائل کو وفاق استعمال کرتا ہے، مگر مقامی آبادی کو اس کا حصہ نہیں ملتا۔ اس لیے حکومت کو لازم ہے کہ وہ یہ ثابت کرے کہ یہ منصوبے صرف قومی معیشت کے لیے نہیں بلکہ مقامی ترقی، تعلیم، صحت، اور روزگار کے لیے بھی ہیں۔بجائے اس کے کہ ہم معدنی دولت کو صرف برآمدات کے خام مال کے طور پر دیکھیں، ہمیں مکمل ویلیو چین کی سوچ اپنانی ہو گی—یعنی مقامی پراسیسنگ، ریفائننگ، اور پیداواری صنعتوں کا قیام، تاکہ پاکستان نہ صرف معدنیات کا نکالنے والا ملک ہو بلکہ ان کا صنعتی اور برآمدی مرکز بھی بنے۔خلاصہ یہ کہ پاکستان کے معدنی ذخائر واقعی “خزانے” ہیں، مگر ان سے فائدہ اٹھانے کے لیے صرف نیت نہیں، دانشمندانہ پالیسی، شفاف معاہدے، قانونی تحفظ، مقامی شراکت داری، اور زمینی سیکیورٹی جیسے عناصر کو ساتھ لے کر چلنا ہو گا۔ تب ہی ہم ان خزانے کو صرف زمین کے نیچے دفن حقیقت سے نکال کر ملکی خوشحالی کی عملی بنیاد بنا سکتے ہیں۔
پی آئی اے کی نجکاری: نیا موقع، نئی ذمہ داری
پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (PIA) کی دو دہائیوں بعد پہلی مرتبہ سالانہ منافع کی خبر یقیناً خوش آئند ہے۔ لیکن اس کے فوراً بعد حکومتِ پاکستان کی جانب سے PIA کی نجکاری کے لیے اپریل کے آخر تک نئے ایکسپریشن آف انٹرسٹ” طلب کرنے کا اعلان، اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ قومی ایئرلائن کی مالی بحالی کو طویل مدتی پائیدار اصلاحات میں بدلنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔پی آئی اے گزشتہ کئی دہائیوں سے بدانتظامی، مالی خسارے اور سیاسی مداخلت کا شکار رہی ہے۔ ماضی میں اس کی نجکاری کی کوششیں ناکام رہیں، بالخصوص گزشتہ سال صرف ایک کم قیمت پیشکش کی گئی تھی، جو حکومت کی امیدوں سے کہیں کم تھی۔ اب حکومت نے ایئرلائن کے زیادہ تر قرضے اپنے کھاتے میں منتقل کر دیے ہیں، اور بیلنس شیٹ و ٹیکس سے متعلقہ رکاوٹیں بھی دور کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔نجکاری کی یہ نئی کوشش اگرچہ اقتصادی ضرورت کے تحت کی جا رہی ہے—خصوصاً آئی ایم ایف پروگرام کے تناظر میں—مگر یہ فیصلہ صرف مالیاتی مفاد تک محدود نہیں ہونا چاہیے۔ PIA صرف ایک ایئرلائن نہیں بلکہ قومی شناخت، سفارتی رابطوں، اور روزگار کے مواقع کا بھی ذریعہ ہے۔ اس لیے اس کے مستقبل کا فیصلہ نہایت سوچ سمجھ کر، شفاف طریقے سے، اور قومی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے ہونا چاہیے۔روزاویلٹ ہوٹل جیسے قیمتی اثاثے کی فروخت کے امکانات بھی زیر غور ہیں، جسے بہترین تجارتی ڈیل کی شکل دی جا سکتی ہے۔ تاہم ضروری ہے کہ حکومتی شفافیت، ماہرین کی مشاورت اور پارلیمانی نگرانی کو یقینی بنایا جائے۔پی آئی اے کی بحالی کا یہ موقع، اس کے زوال کی ایک نئی شروعات نہ بن جائے—یہی اصل چیلنج ہے۔