آج کی تاریخ

آپ کی کنیز

روداد زندگی: تحریر ڈاکٹر ظفر چوہدری

ہمارے ہاں عام طور پر پروفیشنل کالج کے کلاس فیلوز اور خاص کر ہاسٹل فیلوز کی دوستیاں زندگی بھر یاد رہتی ہیں۔ اسی طرح یونیورسٹی کی دوستی اور ڈسپلنسری فورسز میں بیج میٹ کا رشتہ زندگی بھر قائم اور یاد رہتا ہے کیونکہ اس عمر میں ایک تو شعور اور جذباتی لحاظ سے طالب علموں میں کافی پختگی آ چکی ہوتی ہے ہمارے رومیٹ کے علاوہ ساتھ والے کمرے میں سکھر سے تعلق رکھنے والے چار کلاس فیلو بھی رومیٹس ہی کا درجہ پا گئے جس میں خالد محمود، سعید خان، شاہد صدیقی اور ادریس میمن شامل تھے۔ اس کے علاوہ کمال سومرو ، رئیس صدیقی، نثار قریشی اور عبدالخالق سومرو اور کراچی کے کچھ کلاس فیلوز جن میں عامر، آصف وغیرہ شامل تھے جن سے اکثر ملنا جلنا رہتا تھا کشمیر سے خالد اور سعید گلگتی میری یادوں کے مطابق تھرڈ ایئر میں جب دوسرے ہاسٹل بن گئے تو ہم چاروں میں سے ایک کو دوسرے کمرے میں جانا تھا مگر کوئی بھی جانے کو تیار نہ تھا پھر میں رضا کارانہ طور پر ہاسٹل نمبر 3 میں شفٹ ہو گیا جہاں میرے رومیٹ چوہدری ساجد مرحوم اور ملک آفتاب تھے دونوں بڑے ہی اچھے تھے مگر میرا زیادہ تر وقت پرانے رومیٹس کے ساتھ گزرتا تھا۔ اس کے علاوہ ہاسٹل نمبر 3 میں جن کلاس فیلوز کے ساتھ زیادہ رابطہ رہا ان میں سلیم آرائیں، ندیم آرائیں، مولا بخش، عبدالحنان شیخ اور منظور کلہوڑہ شامل تھے۔
اپنے سینئرز میں عبدالشکور آرائیں جو کہ پہلے بیج سے تھے ان کے اور ان کے چھوٹے بھائی عبدالغفور آرائیں سے بھی کافی تعلق رہا۔ ڈاکٹر عبدالشکور بہت لائق تھے اور آجکل امریکہ میں ہیں اور ڈاکٹر عبدالغفور کراچی میں رہتے ہیں اس طرح دوستوں کا حلقہ بنتا گیا عبدالحنان شیخ سے بھی کافی دوستی رہی قاسم بھٹی اور نذیر سومرو سے بھی اکثر سلام دعا رہتی تھی ہمارے بیج کی Reunion (2017ء) میں ہوئی اور سوشل میڈیا کی بدولت روابط بحال ہوئے تو میں پھر سے کئی سال بعد لاڑکانہ گیا مگر میرے قریبی دوستوں میں سے صرف ڈاکٹر ساجد آرائیں اور عبدالرشید ڈومکی سے ملاقات ہو پائی۔ رشید ڈومکی بہت محبت کرنے والے انسان ہے میں انہیں بھول چکا تھا قاسم بھٹی اور نذیر سومرو نے میری ری یونین کے فنکشن میں شرکت کو یقینی بناتے میں بڑی مدد کی سکھر میں ڈاکٹر نواز علی ساون، لالہ ق ر عباس سومرو ڈاکٹر ندیم اور رشید ڈومکی صاحب کی رہنمائی میں لاڑکانہ پہنچا۔ ری یونین کے فنکشن میں قریبی دوستوں کی کمی شدت سے محسوس ہوئی مگر اس کے باوجود پرانے کلاس فیلو سے مل کر دلی خوشی ہوئی جن میں اکثریت ریٹائرڈ ہو چکی تھی۔
ایم بی بی ایس کرنے کے بعد جن کلاس فیلو سے مسلسل رابطہ رہا ان میں انکل فاروق، خالد محمود، عتیق خان، زاہد سومرو، اعجاز کشمیری، کمال سومرو، عبدالحنان اور آفتاب ملک شامل تھے۔ حال ہی میں 28 اپریل 2024ء کو میرے بیٹے عبداللہ کی شادی میں عتیق خان، کمال سومرو اور اعجاز کشمیری نے شرکت کی خالد محمود فنی وجوہات کی وجہ سے شرکت نہ کر سکے مگر قاسم بھٹی کی کشمور اور نذیر سومرو کی حیدر آباد سندھ سے ولیمہ میں شرکت میرے لئے خوشگوار جذبات کا باعث تھی۔
خالد محمود کے بارے میں پہلے بھی کسی کالم میں ذکر کرچکا ہوں ہمارے بیج بلکہ چانڈکا میڈیکل کالج کے فارغ التحصیل تمام طلبہ و طالبات میں پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود نے بڑا نام پیدا کیا۔ میں جب بیرون ملک 87-1985 دوبئی، تھائی لینڈ اور سنگا پور جاتا تو کراچی میں ڈاکٹر خالد محمود کے ڈائو میدیکل کالج کے ہاسٹل کے کمرہ میں ہی رہتا تھا اس وقت ہائوس جاب کے بعد خالد محمود ڈائو میڈیکل میں رجسٹرار تھے اسی طرح انکل فاروق سے 1990ء میں جب ملتان کے دوستوں کے ساتھ گلگت اور سکردو گیا تو راستے میں چکوال میں ان کے ساتھ ملاقات ہوئی تھی اور سکردو میں اچانک روڈ پر میجر ڈاکٹر نثار قریشی صاحب سے ملاقات ہوئی وہ اس وقت سکردو میں ایم ایس کے فرائض سرانجام دے رہے تھے ۔ انہوں نے سب دوستوں کو شاندار کھانے کی دعوت دی تھی اسی طرح اسلام آباد کلب میں کمال سومرو ، آفتاب ملک، ثناء اللہ، نثار قریشی نے غالباً 2008ء میں کھانے کی دعوت دی تھی۔
دوران تعلیم چانڈگا میں اپنے رومیٹ اور دوستوں کے ساتھ جو وقت گزرا اس دور کے واقعات اور شرارتیں یاد آتی ہیں تو بے اختیار ہنسی آ جاتی ہے۔ مجھے ایک شرارت یاد آرہی ہے، عتیق خان اور اعجاز ابھی لاڑکانہ یکالج میں واپس نہیں آئے تھے کہ بشارت اور میں نے انکل فاروق کو تنگ کرنے کا منصوبہ بنایا، انکل سے کہا کہ ہم نے چندہ کرکے بیئر پینی ہے انکل فاروق جو کہ انتہائی معصوم انسان ہیں، نے کہا آپ کو پتہ ہے میں اس قسم کی خرافات پسند نہیں کرتا تو ہم نے کہا تو پھر تم ہمیں جرمانے کے طور پر بیئر خرید کر لا دو انکل نے کہا مجھے اس کا بھی گناہ ہو گا ہم نے کہا کوئی بات نہیں تو پھر ہمارے ساتھ کمپنی کرو انکل نے کہا کہ بدبختوں پیسے لو اور ہم نے لے لئے۔ اسی طرح ایک مرتبہ میں نے ایک ہی دن میں دو تین بار کہا کہ ابا جی کا خط نہیں آیا تو عتیق خان نے کہا کہ ابا جی کے خط کا فکر کر رہے ہو سیدھا کہو کہ منی آرڈر نہیں آیا۔ یہ بات سچ تھی اس زمانے میں پیسے ڈاکخانے میں منی آرڈر کے ذریعے بھیجے جاتے تھے میں نے پوری زندگی عتیق سے زیادہ شاہ خرچ اور فراخ دل کوئی پٹھان نہیں دیکھا میرا تعلق ارب پتی پٹھانوں سے بھی رہا ہے۔میں مگر عتیق حقیقت میں عقیق (ہیرا) تھا۔ اسی طرح ہم کمرے میں تھے کہ باہر سے لڑائی جھگڑے کی آوازیں آنا شروع ہوئیں، ہم سب باہر آئے تو دیکھا دو کراچی کے کلاس فیلوز کا آپس میں جھگڑا ہو رہا ہے ایک کے ہاتھ میں چاقو تھا دوسرا کہہ رہا تھا کہ تم میں جرات ہے تو مارو مجھے چاقو، تو پہلے چاقو والا کہنے لگا میں پاگل ہوں تجھے چاقو ماروں میں خود کو مار کر تھانے جائون گا اور تم پر پرچہ کٹوا دوں گا عتیق خان اور سب دوستوں کا ہنس ہنس کر برا حال ہوگیا سب ہی پھڈے کا سن کر باہر نکلے تھے ہنستے ہوئے مایوس ہو کر واپس چلے گئے۔
انکل فاروق مجھے کہنے لگا کہ ظفر دعا کرو کہ اللہ مجھے گاڑی دے۔ میں جانتا تھا کہ انکل فاروق کے اکائونٹ میں اس زمانے میں 80/70 ہزار روپے ہوتے تھے انکل فاروق کے والد صاحب باہر قطر میں رہتے تھے یہاں انکل فاروق خاندان کا خیال رکھتے تھے اس زمانے میں نئی گاڑی 35/30 ہزار کی آ جاتی تھی میں نے کہا انکل آپ کے اکائونٹ میں پیسے موجود ہیں آپ گاڑی لے لو اور اگر دعا کرنی ہے تو میرے لئے کرو جس کے پاس پیسے نہیں ہیں بعد میں سنا کہ انکل فاروق نے سکوٹر کیلئے بھی ڈرائیور رکھا ہوا ہے اسی طرح ایک بار انکل فاروق کی بیگم یعنی ہماری بھابھی کا خط آیا جو کہ عتیق خان نے ڈھونڈ کر پڑھ لیا اور مجھ سمیت سب کو بھی پڑھایا جس کے آخر میں بھابھی نے لکھا تھا آپ کی کنیز۔ بس پھر کیا تھا۔ جب کوئی بات کرتے تو کہتا آپ کی کنیز ہم سب نے انکل کو اتنا تنگ کیا کہ انکل فاروق نے کہا کہ چاہتے کیا ہو سب نے کہا دعوت چاہتے ہیں تو انکل فاروق نے کہا کہ اتنی بات ہے جب چاہو دعوت کھا مر لو۔
کہتے ہیں عمر رفتہ کبھی لوٹتی نہیں۔ جا میکدہ سے میری جوانی اٹھا کے لا ۔۔قائین کرام، براہ کرم یہاں میکدے کی جگہ چانڈکا پڑھا جائے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں