آزادی صحافت کا عالمی دن خون میں رنگا گیا
کل پورے ملک میں عالمی یوم صحافت منایا گیا- پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے شہر خضدار میں چمروک روڑ پر ایک نامعلوم موٹر سائیکل سوار نے ایک کار پر بم پھینکا جس کے دھماکے سے خضدار پریس کلب کے صدر مولانا محمد صدیق مینگل موقعہ پر ہی جاں بحق ہوگئے۔ اس طرح سے عالمی یوم صحافت جیسا اہم تیوہار بھی بلوجستان میں ایک عالم دین اور صحافی کے خون سے رنگ دیا گیا۔
عالمی یوم صحافت کے موقعہ پر صحافیوں کی عالمی تنظیم ‘رپورٹرز ود آؤٹ باڈرز” (آر ایس ایف) نے اپنی سالانہ آزادی صحافت انڈیکس رپورٹ 2024 شایع کی ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایسی حکومتوں اور سیاسی تنظیموں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جو آزادی صحافت کے لیے بہترین ماحول ، عوام کے لیے قابل اعتماد آزاد اور متنوع خبروں تک رسائی کا حق فراہم نہیں کر رہے۔
اس رپورٹ میں فلسطین کے صحافیوں کے حوالے سے المناک انکشافات کیے گئے ہیں۔ رپورٹ لکھتی ہے:
اس سال، بین الاقوامی برادری نے صحافیوں کی حفاظت کے اصولوں کو نافذ کرنے میں دلچسپی نہیں دکھائی، جیسے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2222۔ اکتوبر 2023 سے، غزہ کی جنگ میں صحافیوں اور میڈیا کے خلاف ریکارڈ تعداد میں خلاف ورزیاں ہوئی ہیں۔ اسرائیل دفاعی فورسز نے 100 سے زائد فلسطینی رپورٹرز کو ہلاک کیا، جن میں کم از کم 22 اپنے کام کے دوران مارے گئے۔
فلسطین، جو مسلسل اسرائیلی بمباری اور قبضے میں ہے، 2024 کی دنیا بھر کی پریس فریڈم انڈیکس میں 180 ممالک میں سے 157 ویں نمبر پر ہے۔ یہ صحافیوں کی حفاظت کے لحاظ سے آخری 10 ممالک میں شامل ہے۔
دو ہزار چوبیس کو دنیا کے تاریخ میں سب سے بڑے انتخابی سال کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جبکہ 2023 میں بھی لاطینی امریکہ میں اہم انتخابات ہوئے جہاں پریس آزادی کے دشمنوں نے کامیابی حاصل کی۔ انتخابات کے دوران صحافیوں کے خلاف تشدد بڑھتا جا رہا ہے، جیسے نائیجیریا اور کانگو میں۔ ساحل میں فوجی جنتاؤں نے اقتدار پر قبضہ جمایا اور میڈیا پر سختی بڑھا دی۔ ترکیے میں ایردوان کا دوبارہ انتخاب اور چین اور ویتنام میں سوشل میڈیا پر سخت کنٹرول بھی تشویش کا باعث ہے۔ سیاسی گروہوں کی طرف سے میڈیا پر قبضہ اور جعلی خبروں کی تشہیر بھی جاری ہے۔ مشرقی یورپ اور وسطی ایشیا میں میڈیا پر سنسرشپ بڑھ رہی ہے۔
رپورٹ نے پاکستان کے میں آزادی صحافت کی صورت حال پر یوں تبصرہ کیا ہے:
پاکستان کے قیام 1947 سے لے کر اب تک، عوامی معاشرہ میڈیا کی آزادی بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ سیاسی اور فوجی حکمران میڈیا پر بڑا کنٹرول رکھتے ہیں۔]
پاکستان کا آزادی صحافت کے عالمی اشاریہ 2024ء میں 152 نمبر ہے اور یہ کزشتہ سال سے مزید دو نمبر بڑھ گیا ہے۔ جبکہ اس کے ہاں سیاسی، معاشی، قانونی، سیکورٹی اور سماجی اعتبار سے ازادی صحافت کی صورت حال بدتر ہوئی ہے اور تمام اشاریوں میں ابتری سے پاکستان کا نمبر اور بڑھ گیا ہے۔ اور یہ لمحہ فکریہ ہے پاکستان کے ارباب اختیار کے لیے جو پاکستان میں آئین، قانون اور انسانک حقوق کی بالادستی پر روزانہ کی بنیاد پر بھاشن دیتے رہتے ہیں اور یہ بھی باور کراتے رہتے ہیں کہ انہیں اپنی آئینی حدود کا بخوبی علم ہے اور عوام کو آئینی و قانونی دائروں میں رہنے کا سبق دیتے ہیں-
رپورٹرز وڈ آؤٹ باڈرز نے پاکستان میں پیکا ایکٹ کی بعض شقوں پر بھی اعتراض اٹھایا ہے۔
ہوسکتا ہے جن ممالک میں آزادی صحافت کی حالت بدتر ہونے کا زکر ہے وہ اس رپورٹر کو عالمی طاقتوں کا پروپیگنڈا قرار دیں اور اس کے پیچھے ان ممالک کی تزویراتی پالیسی کا عمل دخل بتائیں – ہوسکتا ہے اس رپورٹ میں کہیں کوئی مبالغہ ہو لیکن اتنا طے ہے کہ دنیا کے اکثر ممالک میں صحافت اور صحافیوں پر حالات اچھے نہیں ہیں – انہیں حکومتی اداروں اور نجی اداروں جیسے سیاسی و مھہبی تنظیمیں، نجی مسلح ملیشیائیں ہیں کی طرف سے تشدد اور جبر کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
علاقائی اور مقامی اخبارات و جرائد اور ڈیجیٹل میڈیا کو پاکستان میں انتہائی دشوار حالات کا سامنا ہے۔ انہیں مسلسل ڈرائے دھمکائے جانے، تشدد کا نشانہ بنائے جانے اور سب سے بڑھ کر دگر گون معاشی حالات کا سامنا ہے۔ حکومت آج تک اشتہاری کوٹے میں علاقائی اور مقامی اخبارات و جرائد کے ساتھ انصاف کا معاملہ نہیں کرسکی اور نجی کاروباری تنظیمیں بھی ان اخبارات و ڈیجیٹل میڈیا کے ساتھ زیادہ تعاون نہیں کر رہیں۔ علاقائی و مقامی پریس پر معاشی دباؤ آزادی صحافت کے لیے سب سے بڑا خطرہ بنا ہوا ہے۔
پاکستان کا خلا میں تاریخی قدم
پاکستان نے تاریخی طور پر پہلی بار چاند کے مدار میں اپنا سیٹلائٹ بھیج کر خلائی تحقیق کے میدان میں اپنی موجودگی کو مستحکم کیا ہے۔ یہ سیٹلائٹ، جسے آئی کیوب قمر کہا جاتا ہے، چین کے چانگ’ای-6 مشن کا حصہ ہے اور اس کا مقصد چاند کے تاریک پہلو کی تحقیقات کرنا ہے۔ یہ ایک ایسا علاقہ ہے جہاں سے اب تک مواد جمع نہیں کیا گیا تھا اور جس کی تحقیقات سے ہمیں چاند کے مزید رازوں کو جاننے میں مدد مل سکتی ہے۔
چین کے ساتھ اس تعاون نے نہ صرف پاکستان کو ایک نئے دور میں داخل کر دیا ہے بلکہ یہ پاکستان کی خلا میں بڑھتی ہوئی دلچسپی اور صلاحیتوں کا بھی ثبوت ہے۔ آئی کیوب قمر کا ڈیزائن اور تعمیر پاکستان کے انسٹیٹیوٹ آف اسپیس ٹیکنالوجی نے چین کی شنگھائی یونیورسٹی کے ساتھ مل کر کیا، جو کہ پاکستانی سائنسدانوں اور انجینئرز کی مہارت اور تخلیقی صلاحیتوں کی ایک مثال ہے۔
پاکستان اور چین کے درمیان اس تعاون نے دونوں ممالک کے مابین خلائی تحقیقات میں مشترکہ مفادات اور ہدف کو فروغ دیا ہے۔ یہ مشترکہ مشن نہ صرف سائنسی ڈیٹا فراہم کرے گا بلکہ اس سے خلائی تکنیکی معلومات میں اضافہ ہوگا، جس سے پاکستانی خلائی ایجنسی سپارکو کی مزید ترقی اور تحقیق کی راہ ہموار ہوگی۔
پاکستان کی خلائی مہمات کی کامیابی نے نہ صرف قومی فخر کو بڑھایا ہے بلکہ اس نے پاکستان کو دنیا میں ایک جدید اورترقی پسند قوم کے طور پر بھی متعارف کرایا ہے۔ یہ کامیابیاں پاکستانی نوجوانوں کے لیے ایک مثبت مثال قائم کرتی ہیں کہ کس طرح علم و فنون کی دنیا میں جدت اور تحقیق کے ذریعے ملک کا نام روشن کیا جا سکتا ہے۔
اس مشن کی کامیابی نے پاکستان کی مستقبل کی خلائی پالیسیوں کے لئے بھی ایک نیا در کھول دیا ہے۔ اب پاکستان دیگر بین الاقوامی خلائی مشنز میں حصہ لینے کی زیادہ صلاحیت رکھتا ہے اور مستقبل میں اپنے مقاصد کے لئے خلائی ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھا سکتا ہے۔
خلا میں پاکستان کی مزید موجودگی اور مشارکت سے نہ صرف علمی و تحقیقی مواقع بڑھیں گے بلکہ اقتصادی فوائد بھی حاصل ہوں گے۔ خلا کی تحقیق سے جڑے مختلف شعبے، جیسے کہ مواصلات، موسمیات اور زمینی نگرانی میں بھی بہتری آئے گی۔
صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف نے اس کامیاب مشن پر قوم کو مبارکباد دی ہے اور اسے پاکستان کی خلا کے میدان میں ترقی کی ایک نئی جہت قرار دیا ہے۔ دونوں رہنماؤں نے اس تاریخی کامیابی کو پاکستان کے خلائی پروگرام کے لئے ایک سنگ میل کے طور پر بھی پہچانا ہے۔
پاکستان کی خلائی تحقیقات میں مزید کامیابیاں نہ صرف خلائی تکنیکی صلاحیتوں میں اضافہ کریں گی بلکہ پاکستان کو عالمی سطح پر ایک قابل احترام اور جدید فنون کا حامل ملک کے طور پر بھی متعارف کرائیں گی۔ اس سے پاکستان کی سائنسی و تکنیکی ترقیات میں مزید فروغ ملے گا اور ملک میں نئی ٹیکنالوجیز کی آمد اور ترقی کے نئے افق کھلیں گے۔
یہ خلائی مشن پاکستان کے لئے نہ صرف فخر کا باعث ہے بلکہ یہ دنیا کو یہ بھی بتاتا ہے کہ پاکستان میں تحقیق، جدت طرازی اور سائنسی پیش رفت کے لئے بہت بڑی صلاحیت موجود ہے۔ اس تاریخی کامیابی سے پاکستان کے نوجوان سائنسدانوں و انجینئروں کو مزید حوصلہ اور تحریک ملے گی کہ وہ خلائی تحقیقات میں پاکستان کا نام روشن کریں۔
اسحاق ڈار کی تقرری اور پاکستان کی سیاسی بساط
اسحاق ڈار کی بطور نائب وزیر اعظم تقرری پاکستان کی سیاست میں ایک اہم پیشرفت ہے جو موجودہ سیاسی حالات اور سول ملٹری تعلقات کے پیچیدہ دائرے کو مزید نمایاں کرتی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این) کی زیرقیادت حکومت میں یہ تبدیلی، نواز شریف کے حالیہ برسوں میں پارٹی کی قیادت سنبھالنے کے بعد، پارٹی کے لیے ایک نئی سمت کا تعین کرتی نظر آتی ہے۔
نواز شریف کی واپسی نے اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ وہ اپنی پارٹی اور حکومتی پالیسیوں پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے خواہشمند ہیں، اور اسحاق ڈار کی تقرری اس بات کی تصدیق کرتی ہے۔ ڈار، جو کہ ایک تجربہ کار سیاستدان اور ماہر معاشیات ہیں، نواز شریف کے قریبی ساتھی بھی ہیں اور ان کی اس تقرری کو پارٹی میں ان کے اثر و رسوخ کو بڑھانے کا ذریعہ سمجھا جا سکتا ہے۔
نائب وزیر اعظم کا عہدہ آئینی طور پر کوئی مضبوط بنیاد نہیں رکھتا، لیکن اس کی تقرری سے پی ایم ایل این کی اندرونی پالیسیوں میں ایک مضبوط پیغام جاتا ہے کہ نواز شریف اپنی اور اپنی پارٹی کی سابقہ مقبولیت اور اثر و رسوخ کو بحال کرنے کے خواہاں ہیں۔
یہ تقرری پی ایم ایل این کی حکومت کے لئے کئی نئے چیلنجز کو بھی جنم دے سکتی ہے، خاص طور پر جبکہ ملک میں اقتصادی بحران اور سیاسی عدم استحکام جاری ہے۔ اسحاق ڈار کے پاس وزارت خزانہ کا تجربہ بھی ہے، اور ان کی معاشی پالیسیوں کو پہ
لے بھی ملکی معیشت پر گہرا اثر رہا ہے۔ ان کی واپسی سے ان کی معاشی پالیسیوں پر دوبارہ بحث مباحثہ کا آغاز ہو سکتا ہے، جس سے حکومتی حکمت عملیوں میں نئے مواقع اور چیلنجز سامنے آ سکتے ہیں۔
اس تقرری سے سول ملٹری تعلقات میں بھی نئے دور کا آغاز ہو سکتا ہے، جو کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک اہم جزو رہے ہیں۔ نواز شریف کی حکومت ماضی میں ملٹری کے ساتھ مختلف معاملات پر مختلف رائے رکھتی رہی ہے، اور اسحاق ڈار کی یہ تقرری اس تعلقات کو نئی جہت دے سکتی ہے۔
آنے والے دنوں میں یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ اسحاق ڈار کی تقرری کا پاکستان کی سیاست اور خاص طور پر پی ایم ایل این کی اندرونی دینامکس پر کیا اثر پڑتا ہے۔ کیا یہ تقرری پارٹی کے مقاصد کو مزید مضبوط کرے گی، یا پھر مزید انتشار کا باعث بنے گی؟ یہ سوالات ہیں جو پاکستان کی سیاست میں آنے والے وقت میں جواب طلب ہوں گے۔
نواز شریف کی واپسی اور اسحاق ڈار کی تقرری پی ایم ایل این کے لئے نئے اور پرانے چیلنجز کو ایک ساتھ لاتی ہے، اور اس کے اثرات پاکستان کی مستقبل کی سیاست پر طویل مدتی ہوں گے۔