پاکستان کی 76 سالہ تاریخ میں آزادی صحافت اور آزادی اظہار رائے ہمیشہ ایک حساس اور متنازعہ موضوع رہا ہے۔ جمہوری حکومتیں ہوں یا آمریت کے ادوار، دونوں نے کسی نہ کسی طریقے سے میڈیا کو قابو میں رکھنے کی کوشش کی ہے۔ حالیہ دنوں میں پنجاب حکومت نے نیشنل ایکشن پلان کے تحت ضلعی سطح پر ڈسٹرکٹ نیریٹو نرو سنٹرز” (ڈی این این سی) کے قیام کا اعلان کیا ہے۔ اس اقدام نے میڈیا کی آزادی اور اظہار رائے پر مزید قدغن لگانے کے خدشات کو جنم دیا ہے۔ڈی این این سی کے قیام کے دو بنیادی مقاصد بیان کیے گئے ہیں: حکومت کی پالیسیوں اور اقدامات کو فروغ دینا اور حکومت مخالف پروپیگنڈے کو روکنا۔ ان کمیٹیوں کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ پرنٹ، الیکٹرانک، اور ڈیجیٹل میڈیا کے ساتھ شراکت کے ذریعے اپنے مقاصد کو پورا کریں۔ بظاہر یہ اقدام میڈیا کی مؤثر انتظام کاری اور عوامی آگاہی کے فروغ کے لیے کیا جا رہا ہے، لیکن حقیقت میں یہ اقدام میڈیا کو قابو میں رکھنے اور اختلافی آوازوں کو دبانے کا نیا ذریعہ بن سکتا ہے۔اس بات پر غور کیا جائے تو یہ ذمہ داری پہلے سے موجود ڈسٹرکٹ انفارمیشن آفس کے دائرہ کار میں آتی ہے، جو ضلعی سطح پر حکومت کے پیغامات اور پالیسیوں کو عام کرنے کا کام کرتا ہے۔ ایک نئی کمیٹی کی تشکیل اور ڈی این این سی کا قیام اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ حکومت کو اپنے بیانیے کی مقبولیت کے حوالے سے تحفظات لاحق ہیں اور وہ تنقیدی آوازوں کے سامنے بے بس محسوس کر رہی ہے۔پاکستان میں میڈیا ہمیشہ سے ریاستی دباؤ کا شکار رہا ہے۔ چاہے وہ پرنٹ میڈیا ہو، الیکٹرانک میڈیا، یا اب ڈیجیٹل میڈیا، حکومتوں نے ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ میڈیا کو اپنے قابو میں رکھے۔ ڈی این این سی جیسی کمیٹیاں اس دباؤ کو مزید بڑھا سکتی ہیں، خاص طور پر ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا کے لیے، جو عوامی رائے کے اظہار کا سب سے مؤثر ذریعہ بن چکا ہے۔ ان کمیٹیوں کے ذریعے حکومت ناقدین کی پروفائلنگ کرے گی، جو نہ صرف آزادی اظہار بلکہ شہری آزادیوں کے لیے بھی خطرہ ہے۔پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کی جانب سے گزشتہ برس انٹرنیٹ کی بندش اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے لنکس ڈاؤن کرنے کے احکامات اسی طرز عمل کی مثالیں ہیں۔ انٹرنیٹ کی رفتار کم کرنا یا اس کی بندش آزادی اظہار کو دبانے کا ایک اور طریقہ ہے، جس سے عوام کی رائے اور معلومات تک رسائی پر اثر پڑتا ہے۔ پنجاب میں 97 ہزار شہریوں کو واچ لسٹ میں شامل کرنا اور اس لسٹ میں اضافے کا امکان ایک سنگین مسئلہ ہے۔ یہ اقدام شہری آزادیوں کو محدود کرنے اور تنقیدی آوازوں کو خاموش کرنے کی حکمت عملی کا حصہ نظر آتا ہے۔آزادی اظہار رائے کسی بھی جمہوری معاشرے کا بنیادی اصول ہے، لیکن پاکستان میں یہ اصول ہمیشہ خطرے میں رہا ہے۔ ڈی این این سی کے قیام سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت اپنے بیانیے کے عدم مقبولیت سے پریشان ہے اور وہ آزادی صحافت کو کنٹرول کرنے کے ذریعے اپنی پوزیشن مضبوط کرنا چاہتی ہے۔ یہ اقدام اس بات کی بھی نشاندہی کرتا ہے کہ حکومت عوام کی رائے کو دبانے کے بجائے اسے سمجھنے اور اس کے مطابق اپنی پالیسیوں میں تبدیلی کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ پرنٹ میڈیا نے ہمیشہ مصنوعی سرکاری بیانیوں اور قابل اعتراض قوانین کے خلاف مزاحمت کی ہے۔ ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا بھی اسی راہ پر گامزن ہے۔ ڈی این این سی کے ذریعے سرکاری بیانیے کو تقویت دینے کی کوشش درحقیقت عوامی رائے کو زبردستی قابو میں رکھنے کی کوشش ہے، جو ناکامی سے دوچار ہو سکتی ہے۔ تاریخ یہ ثابت کرتی ہے کہ جبر اور قدغنوں کے ذریعے رائے عامہ کو بدلا نہیں جا سکتا۔پنجاب حکومت کا یہ اقدام جمہوری اقدار کے منافی ہے۔ آزادی صحافت پر قدغن لگانے سے نہ صرف میڈیا کے اعتماد میں کمی آئے گی بلکہ عوامی آگاہی پر بھی منفی اثر پڑے گا۔ ڈی این این سی جیسی کمیٹیاں آزاد صحافت کے بجائے حکومت کے پروپیگنڈے کو فروغ دیں گی، جس سے صحافت کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی ہوگی۔حکومت کو یہ حقیقت سمجھنی چاہیے کہ اختلافی آوازیں اور تنقید جمہوری معاشرے کے لیے فائدہ مند ہوتی ہیں۔ یہ نہ صرف حکومت کو اپنی پالیسیوں کا جائزہ لینے کا موقع فراہم کرتی ہیں بلکہ ان کی اصلاح کا ذریعہ بھی بنتی ہیں۔ اختلافی آوازوں کو دبانے کے بجائے انہیں سننے اور ان سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ڈی این این سی کا قیام ایک غیر ضروری اقدام ہے، جو جمہوری اقدار اور شہری حقوق کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنی توانائیاں آزادی اظہار کے فروغ اور آزاد صحافت کی حوصلہ افزائی پر صرف کرے۔ ایک مضبوط اور خود مختار میڈیا ہی جمہوری معاشرے کی بنیاد ہے، اور اس کی آزادی کو محدود کرنا کسی بھی صورت فائدہ مند نہیں ہو سکتا۔پاکستان کی موجودہ سیاسی صورت حال میں، ڈی این این سی جیسی کمیٹیاں مزید تقسیم اور عدم اعتماد کو جنم دے سکتی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ حکومت اس اقدام پر نظر ثانی کرے اور جمہوری اقدار کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ عوام کی رائے کو دبانے کے بجائے، اس کے ذریعے اپنی پالیسیوں کو بہتر بنانے کی کوشش کرے۔ یہی ایک حقیقی جمہوری معاشرے کی پہچان ہے اور یہی وہ راستہ ہے جو پاکستان کو ترقی اور استحکام کی طرف لے جا سکتا ہے۔
معیشت کے متضاد اعداد
پاکستان بیورو آف شماریات کی جانب سے حالیہ جاری کردہ معاشی اعداد و شمار بظاہر مثبت دکھائی دیتے ہیں، مگر گہرائی میں جانچنے پر یہ تصویر اتنی خوش کن نہیں جتنی پیش کی جا رہی ہے۔ مہنگائی میں کمی اور برآمدات میں اضافہ یقیناً ایک اچھی خبر ہے، لیکن معیشت کی مجموعی حالت اب بھی کئی ساختی مسائل کا شکار ہے، جو نہ صرف حکومت بلکہ عوام کے لیے بھی باعث تشویش ہیں۔جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق صارف قیمت اشاریہ (کنزیومر پرائس انڈیکس) دسمبر میں 4.1 فیصد تک محدود رہا، جو نومبر کے مقابلے میں 0.8 فیصد کم ہے۔ شہری علاقوں میں یہ شرح 4.1 فیصد رہی جبکہ دیہی علاقوں میں 3.6 فیصد ریکارڈ کی گئی۔ ان اعداد و شمار سے حکومتی دعویٰ تقویت پاتا ہے کہ خوراک کی قیمتوں میں کمی ہوئی ہے۔ تاہم، عالمی بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق 2024 میں پاکستان کی غربت کی شرح 25.3 فیصد تک پہنچ گئی ہے، جو 2023 کے مقابلے میں 7 فیصد زیادہ ہے، اور اس کے نتیجے میں مزید 13 ملین افراد غربت کی لکیر سے نیچے آ چکے ہیں۔ اس کے باوجود، یہ حقیقت عوامی سطح پر معاشی خوشحالی کے کسی احساس کو فروغ دینے میں ناکام رہی ہے۔دیہی اور شہری علاقوں میں بنیادی مہنگائی (غیر خوراکی اور غیر توانائی اشیاء) کے فرق پر نظر ڈالیں تو دیہی علاقوں میں مہنگائی کی شرح زیادہ رہی۔ دسمبر میں دیہی علاقوں میں بنیادی مہنگائی 10.7 فیصد ریکارڈ کی گئی، جبکہ شہری علاقوں میں یہ شرح 8.1 فیصد رہی۔ نومبر میں بھی دیہی علاقوں کی بنیادی مہنگائی 10.9 فیصد رہی، جبکہ شہری علاقوں میں یہ 8.9 فیصد ریکارڈ ہوئی۔ یہ فرق ظاہر کرتا ہے کہ دیہی علاقوں کے عوام کو شہری علاقوں کے مقابلے میں زیادہ مشکلات کا سامنا ہے، حالانکہ ان علاقوں میں زراعت کے بہتر نتائج دیکھنے کو ملے ہیں۔مہنگائی کے اعداد و شمار کے ساتھ ساتھ برآمدات میں بھی اضافہ ہوا۔ سال 2024 کے پہلے چھ ماہ کے دوران برآمدات 14,985 ملین امریکی ڈالر سے بڑھ کر 16,561 ملین امریکی ڈالر تک پہنچ گئیں۔ یہ اضافہ خوش آئند ہے، لیکن ساتھ ہی درآمدات بھی 26,137 ملین امریکی ڈالر سے بڑھ کر 27,733 ملین امریکی ڈالر ہو گئیں، جس کے نتیجے میں تجارتی خسارے میں صرف 20 ملین امریکی ڈالر کی معمولی کمی آئی۔ یہ اعداد و شمار معیشت کے گہرے مسائل کی عکاسی کرتے ہیں۔ برآمدات میں اضافے کے باوجود، درآمدات کی زیادہ رفتار معیشت کی کمزوری کو ظاہر کرتی ہے، جو پیداواری شعبے کی ناکافی کارکردگی کا نتیجہ ہے۔
پاکستان میں صنعتی ترقی کی شرح میں منفی رجحان اور کاروباری لاگت میں اضافے کی وجہ سے صنعتی یونٹس ملک سے باہر منتقل ہو رہے ہیں۔ یہ صورتحال نہ صرف معیشت کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ سمگلنگ کو بھی فروغ دے رہی ہے، جس سے ملکی وسائل پر اضافی دباؤ پڑ رہا ہے۔ مزید برآں، توانائی کے بلند نرخ اور دیگر اخراجات کے باعث کاروباری لاگت میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے، جو صنعتوں کو عالمی سطح پر غیر مسابقتی بنا رہا ہے۔یہ بھی قابل ذکر ہے کہ اگرچہ حساس قیمت اشاریہ (سینسیٹو پرائس انڈیکس) کے اعداد و شمار میں کمی دیکھی گئی، مگر اصل میں یہ کمی موسمی اثرات اور جلد خراب ہونے والی اشیاء کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے ہے۔ صنعتی پیداوار کی منفی شرح اور توانائی کے بلند نرخوں کی موجودگی میں ان اعداد و شمار کو مکمل طور پر درست تسلیم کرنا مشکل ہے۔ترسیلات زر کے اضافے نے کرنٹ اکاؤنٹ کی پوزیشن کو مستحکم رکھا ہے، لیکن یہ برآمدات کے مقابلے میں زیادہ ہیں، جو طویل مدتی معیشت کے لیے ایک کمزور بنیاد ہے۔ جولائی سے نومبر 2024 کے دوران برآمدات 13,721 ملین امریکی ڈالر کی رہیں، جبکہ اسی عرصے میں 14,766 ملین امریکی ڈالر کی ترسیلات زر وصول ہوئیں۔ یہ حقیقت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ پاکستان کی معیشت اب بھی مستحکم برآمدات کے بجائے بیرونی ترسیلات زر پر انحصار کر رہی ہے، جو خطرناک رجحان ہے۔حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ اعداد و شمار کے مثبت پہلوؤں پر اکتفا کرنے کے بجائے ساختی اصلاحات پر توجہ دے۔ ان اصلاحات میں ٹیکس کے نظام کو منصفانہ بنانا، توانائی کے شعبے کی کارکردگی بہتر بنانا، اور ریاستی اداروں کی ناکامیوں کو درست کرنا شامل ہیں۔ عوام پر اضافی بوجھ ڈالنے کے بجائے، معیشت کو ایک جامع اور عوامی خدمت پر مبنی ماڈل میں تبدیل کرنا ہوگا۔معاشی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ حکومت انفرادی شعبوں کی کارکردگی کو بہتر بنائے اور صنعتوں کو عالمی مسابقتی میدان میں لانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے۔ اگر حکومت ان اصلاحات کو نافذ کرنے میں ناکام رہتی ہے تو معیشت صرف اشرافیہ کے فائدے کے لیے کام کرتی رہے گی، جس کے نتیجے میں سماجی اور اقتصادی مسائل مزید بڑھ سکتے ہیں۔پاکستان کے معاشی مستقبل کے لیے ضروری ہے کہ حکومت تمام متعلقہ فریقوں کے ساتھ مل کر کام کرے اور ایک جامع حکمت عملی ترتیب دے جو صرف عارضی بہتری کے بجائے طویل مدتی استحکام کو یقینی بنائے۔ معیشت کے موجودہ اعداد و شمار محض ایک عارضی کامیابی کی علامت ہیں، اور ساختی مسائل کو حل کیے بغیر، یہ اعداد و شمار معیشت کی حقیقی بہتری کا مظہر نہیں بن سکتے۔اصلاحات کے بغیر معیشت صرف مختصر مدتی بہتری کا شکار رہے گی، جو ملک کے وسیع تر مفادات کے لیے خطرناک ہو سکتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنی پالیسیاں عوامی فلاح و بہبود کو مدنظر رکھتے ہوئے تشکیل دے اور معیشت کو ایک جامع اور منصفانہ بنیاد فراہم کرے۔ یہی ایک مستحکم اور ترقی پذیر پاکستان کی ضمانت ہے۔
ڈیجیٹل ترقی یا تنزلی؟
پاکستان کے “اُڑان پاکستان” منصوبے کے تحت پیش کیے گئے اعلیٰ مقاصد، خاص طور پر اس کے ای-پاکستان” جزو، نہ صرف قابل توجہ ہیں بلکہ ان کے حصول کی عملی راہ دن بدن مزید پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے۔ حکومت نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں جس ترقی کا خواب دیکھا ہے، جیسے کہ 5 ارب امریکی ڈالر کی فری لانس صنعت، 100 ملین سے زیادہ موبائل صارفین، ایک جدید اسٹارٹ اپ ماحولیاتی نظام، اور مصنوعی ذہانت کے فریم ورک کا قیام، وہ کیسے ممکن ہوگا جب زمینی حقائق مسلسل ان عزائم کی نفی کرتے ہیں؟2024 میں پاکستان نے انٹرنیٹ بندش اور سوشل میڈیا پر پابندیوں کے نتیجے میں دنیا بھر میں سب سے زیادہ مالی نقصانات اٹھائے، جو 1.62 ارب امریکی ڈالر کے مجموعی اثرات کا سبب بنے۔ یہ اعداد و شمار ایک آزاد عالمی رپورٹ کے ذریعے سامنے آئے ہیں، جس نے انٹرنیٹ کی بندش، سوشل میڈیا پر پابندیوں، اور ڈیجیٹل حقوق کی خلاف ورزیوں کے مالی اثرات کا جائزہ لیا۔پاکستان میں انٹرنیٹ بندش کے 18 واقعات ریکارڈ کیے گئے، جو مجموعی طور پر 9,375 گھنٹوں پر محیط تھے اور 82.9 ملین صارفین پر اثرانداز ہوئے۔ ان میں سے سب سے زیادہ نقصان دہ پابندی “ایکس” (سابقہ ٹویٹر) پر لگائی گئی، جس کے نتیجے میں 1.34 ارب امریکی ڈالر کا نقصان ہوا۔ یہ ایپ نہ صرف آزاد اظہار رائے اور معلومات کے تبادلے کا ایک اہم ذریعہ ہے بلکہ ملک کے کاروبار، فری لانسرز، اور ڈیجیٹل کاروباری افراد کے لیے بھی ایک اہم پلیٹ فارم ہے۔بلوچستان میں جولائی اور اگست کے دوران گوادر میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے احتجاج کے دوران 864 گھنٹوں کی انٹرنیٹ بندش نے پہلے سے ہی محروم معاشی اور سیاسی طور پر پسماندہ کمیونٹیز کو مزید نقصان پہنچایا۔ ایسے اقدامات ان علاقوں کی اقتصادی تنہائی اور عوامی مایوسی کو بڑھانے کے سوا کچھ حاصل نہیں کرتے۔حکام کا یہ مؤقف کہ سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے انٹرنیٹ آزادی پر قدغنیں لگائی جاتی ہیں، نہ صرف ناقابل فہم ہے بلکہ اعداد و شمار بھی اس کی تصدیق نہیں کرتے۔ حالیہ برسوں میں دہشت گردی کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہوا ہے، حالانکہ ڈیجیٹل حقوق پر پابندیاں بھی بڑھائی گئی ہیں۔ یہ اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ ان اقدامات کا اصل مقصد سیکیورٹی بہتر بنانا نہیں بلکہ معلومات پر کنٹرول حاصل کرنا ہے۔ان پابندیوں کے اثرات محض مالی نہیں بلکہ پاکستان کی بین الاقوامی ساکھ پر بھی گہرے اثرات ڈال رہے ہیں۔ جب پاکستان جیسے ملک کے انٹرنیٹ بندش سے ہونے والے مالی نقصانات میانمار اور سوڈان جیسے خانہ جنگی سے متاثرہ ممالک سے بھی زیادہ ہوں، تو یہ ہمارے عالمی وقار کے لیے ایک خطرناک پیغام ہے۔یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ ایسے ماحول میں پاکستان کے ٹیکنالوجی اسٹارٹ اپس کیسے عالمی سرمایہ کاری حاصل کریں گے؟ اور فری لانسنگ کا شعبہ، جسے حکومتی منصوبوں کے اہم ستون کے طور پر پیش کیا گیا ہے، کیسے ترقی کرے گا جب اس کے لیے بنیادی ڈھانچہ ہی مسلسل متاثر ہو رہا ہو؟حکومت کا سال کے آخر میں 5جی سپیکٹرم کی نیلامی کا منصوبہ بھی ایسے غیر مستحکم ماحول میں چیلنج بن سکتا ہے، کیونکہ سرمایہ کاری کے لیے ضروری اعتماد موجودہ پالیسیوں کے سبب بری طرح مجروح ہو چکا ہے۔
حکومت کے بیانات اور اقدامات کے درمیان واضح تضاد ہے۔ ایک طرف ڈیجیٹل معیشت کے فروغ کا عزم ہے، اور دوسری طرف انٹرنیٹ آزادیوں پر پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں۔ اگر واقعی حکومت ایک جامع ڈیجیٹل تبدیلی کی خواہاں ہے، تو اسے یہ وضاحت کرنا ہوگی کہ انٹرنیٹ آزادی پر قدغن لگانے سے آئی ٹی شعبے کی ترقی کے لیے پیش کردہ اہداف کیسے حاصل ہوں گے۔یہ اقدامات اس بات کو بھی ظاہر کرتے ہیں کہ اختیارات کے حامل حلقے شہریوں کے ڈیجیٹل حقوق کو اپنے سیاسی مفادات کے لیے قربان کرنے سے گریز نہیں کر رہے۔ یہ پالیسی نہ صرف معیشت کو نقصان پہنچا رہی ہے بلکہ ایک غیر جمہوری رویے کی عکاسی بھی کرتی ہے، جو عوام اور ریاست کے درمیان خلیج کو مزید گہرا کر رہی ہے۔پاکستان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے کی ترقی کے لیے بنیادی ڈھانچے میں استحکام، آزاد انٹرنیٹ کا فروغ، اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنا ناگزیر ہے۔ بار بار کی انٹرنیٹ بندش اور سوشل میڈیا پر پابندیاں نہ صرف معیشت کو متاثر کرتی ہیں بلکہ ملک کو عالمی سطح پر تنقید کا نشانہ بھی بناتی ہیں۔حکومت کو فوری طور پر اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنی چاہیے اور یہ یقینی بنانا چاہیے کہ ڈیجیٹل حقوق پر قدغنیں لگانے کے بجائے ان کے فروغ پر توجہ دی جائے۔ یہی راستہ پاکستان کو ایک ترقی پذیر ڈیجیٹل معیشت کی طرف لے جا سکتا ہے، جو نہ صرف موجودہ معاشی چیلنجز سے نمٹنے میں مددگار ہوگی بلکہ بین الاقوامی سطح پر ملک کی ساکھ کو بھی بہتر بنائے گی۔