آج کی تاریخ

میرا قائد عمران خان فوجی آپریشن کیخلاف تھا، ہم بھی اس کے خلاف ہیں،نو منتخب وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی-میرا قائد عمران خان فوجی آپریشن کیخلاف تھا، ہم بھی اس کے خلاف ہیں،نو منتخب وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی-ایران کا غزہ امن کانفرنس میں شرکت سے انکار، "اپنے عوام پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے"، ایرانی وزیرِ خارجہ-ایران کا غزہ امن کانفرنس میں شرکت سے انکار، "اپنے عوام پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے"، ایرانی وزیرِ خارجہ-سپر ٹیکس کیس کی سماعت میں ججز اور وکلا کے درمیان دلچسپ تبادلہ خیال-سپر ٹیکس کیس کی سماعت میں ججز اور وکلا کے درمیان دلچسپ تبادلہ خیال-پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی، کے ایس ای-100 انڈیکس 4 ہزار پوائنٹس گر گیا-پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی، کے ایس ای-100 انڈیکس 4 ہزار پوائنٹس گر گیا-نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی: غزہ میں دوبارہ فوجی کارروائی کا اشارہ-نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی: غزہ میں دوبارہ فوجی کارروائی کا اشارہ

تازہ ترین

آج کا عدالتی بحران اور ستر برس پرانی گونج

اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ جج جب چند روز پہلے سپریم کورٹ کے دروازے پر یہ فریاد لے کر پہنچے کہ ’’یہ آخری چارہ ہے‘‘ اور یہ سوال اٹھایا کہ کیا ہم آئین کے تحت چل رہے ہیں یا طاقتور افراد کی من مانی کے تحت، تو یہ منظر پاکستان کی تاریخ کے سب سے المناک عدالتی لمحے کی بازگشت معلوم ہوا۔ موجودہ بحران محض ججوں کے درمیان انتظامی جھگڑا نہیں بلکہ ایک گہرا سوال ہے کہ ریاستی ڈھانچے میں اصل حاکمیت کس کی ہے — عوامی نمائندوں اور آئین کی یا طاقتور اداروں کی؟
یہ سوال آج نیا نہیں۔ ستر برس قبل بھی یہی سوال اٹھا تھا جب چیف جسٹس محمد منیر نے دستور ساز اسمبلی کے تحلیل ہونے کو قانونی جواز فراہم کیا۔ اس ایک فیصلے نے پاکستان میں آئینی بالادستی کے بجائے طاقت کی سیاست کی بنیاد رکھ دی۔ اسمبلی کو توڑنے کا جواز یہ بتایا گیا کہ وہ آئین بنانے میں ناکام رہی، حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ اسمبلی آئین بنانے میں کامیاب ہوچکی تھی۔ لیکن چونکہ یہ آئین طاقتور بیوروکریسی اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے مفادات سے ٹکراتا تھا، اس لیے اسے راستے سے ہٹا دیا گیا۔
اس فیصلے نے یہ پیغام دیا کہ پاکستان میں اصل اقتدار عوام کے ووٹ سے نہیں بلکہ بندوق اور قلم کے دباؤ سے طے ہوگا۔ یوں عدلیہ نے عوامی نمائندگی کے بجائے طاقتور کے ساتھ کھڑے ہونے کی روایت ڈالی۔ یہی روایت بعد میں ہر مارشل لا کو جواز بخشتی رہی، ہر منتخب حکومت کی برطرفی کو آئینی لبادہ دیتی رہی اور ہر بار عوامی اعتماد کو مجروح کرتی رہی۔
آج اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کا احتجاج اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ جب ایک ہائی کورٹ کا جج دوسرے جج کو عدالتی کام سے روکنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ محض انتظامی فیصلہ نہیں ہوتا، یہ اسی سوچ کی عکاسی ہے جو ستر برس پہلے پروان چڑھی تھی: کہ آئین اور ادارے محض پردہ ہیں، اصل اختیار ان کے پاس ہے جو طاقتور ہیں۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ اس فیصلے کے بعد جمہوریت کبھی مستحکم نہ ہوسکی۔ 1958ء کا مارشل لا ہو یا 1977ء کی فوجی مداخلت، 1999ء کا تختہ الٹنا ہو یا منتخب حکومتوں کی بار بار برطرفی، ہر بار یہی تاثر دیا گیا کہ عوامی مینڈیٹ کمزور اور طاقتور اداروں کی منشا اصل ہے۔ عدلیہ نے جب بھی ’’نظریۂ ضرورت‘‘ کے نام پر ان اقدامات کو جائز قرار دیا تو جمہوریت کی جڑیں مزید کمزور ہوئیں۔
مگر اس تاریخ کا سب سے تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ عوام کو یہ احساس دلایا گیا کہ ان کا ووٹ بے معنی ہے۔ جب پارلیمنٹ کے فیصلے بار بار رد کیے گئے اور اسمبلیوں کو تحلیل کیا گیا، تو عوامی اعتماد مجروح ہوا اور سیاستدان بھی طاقتور حلقوں کی خوشنودی کے محتاج بن گئے۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج بھی عدالتوں اور پارلیمنٹ کے درمیان کشمکش میں اصل سوال عوام کی حاکمیت کا ہے۔
اب ضرورت ہے کہ ماضی کی ان غلطیوں کا ازالہ کیا جائے۔ سپریم کورٹ کو اپنے ماضی کی روش ترک کرنی ہوگی اور یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ طاقت کے بجائے آئین کے ساتھ کھڑی ہے۔ پارلیمنٹ کو اپنی بالادستی منوانی ہوگی اور عوامی نمائندوں کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ محض طاقتور کے تابع نہیں بلکہ عوام کے حقیقی ترجمان ہیں۔
ستر برس پہلے جسٹس منیر نے آئین کے بجائے طاقت کو تسلیم کر کے پاکستان کی جمہوری بنیادوں کو ہلا دیا تھا۔ آج اگر اعلیٰ عدلیہ اور عوامی ادارے بھی وہی راستہ اختیار کرتے ہیں تو تاریخ خود کو ایک بار پھر دہرا دے گی۔ لیکن اگر اب عدالت اور پارلیمنٹ آئین کی بالادستی کا علم بلند کریں تو شاید ستر برس پرانی گونج کو ختم کیا جا سکے اور عوام کو یہ یقین دلایا جا سکے کہ اقتدار واقعی ان کے پاس ہے۔
یہ سانحہ محض ایک عدالتی غلطی نہیں تھا بلکہ ایک ایسا عمل تھا جس نے پاکستان کے آئینی ڈھانچے کو جڑوں سے ہلا دیا۔ جسٹس منیر کے فیصلے نے یہ پیغام دیا کہ اسمبلی کی خودمختاری محض ایک فریب ہے اور ریاست میں اصل طاقت اس کے پاس ہے جو قوتِ قاہرہ رکھتا ہے۔ یہی سوچ بعد کے عشروں میں مارشل لا کے راستے ہموار کرتی رہی، عدلیہ کو نظریۂ ضرورت کے شکنجے میں جکڑتی رہی اور عوام کو آئین و جمہوریت کی بالادستی سے محروم رکھتی رہی۔
تاریخ کا کڑوا سچ یہ ہے کہ دستور ساز اسمبلی کو توڑنے کی اصل وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ آئین بنانے میں ناکام رہی بلکہ یہ تھی کہ وہ آئین بنانے میں کامیاب ہوگئی تھی۔ مشرقی پاکستان کی اکثریت کو تسلیم کرنے، صوبائی خودمختاری کو بڑھانے اور ون یونٹ جیسے منصوبوں کو رد کرنے کا عمل طاقتور اشرافیہ کو منظور نہ تھا۔ جب اسمبلی نے ان امور پر پیش رفت کی تو طاقتور حلقوں نے اسے کچلنے میں دیر نہ لگائی۔ جسٹس منیر نے قانون کے بجائے طاقت کے ساتھ کھڑے ہو کر تاریخ کا دھارا بدل دیا۔
یہ فیصلہ اس لحاظ سے بھی خطرناک ثابت ہوا کہ اس نے ریاستی اداروں میں طاقت کی غیر مساوی تقسیم کو قانونی جواز فراہم کیا۔ بیوروکریسی اور فوج نے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرلی، جبکہ عوامی نمائندے محض کٹھ پتلی بن کر رہ گئے۔ یہی روایت 1958ء کے مارشل لا، 1977ء کی فوجی مداخلت، 1999ء کے تختہ الٹنے اور بعد کے ادوار تک دہرائی جاتی رہی۔ ہر بار عدلیہ نے نظریۂ ضرورت کے تحت طاقتور کا ساتھ دیا اور عوامی مینڈیٹ کو بے توقیر کیا۔
ستر برس گزرنے کے بعد بھی پاکستان آج اسی سوال سے دوچار ہے: کیا اقتدار آئین اور عوامی نمائندوں کے پاس ہوگا یا طاقتور حلقوں کے پاس؟ اسلام آباد ہائی کورٹ کے حالیہ بحران میں جب ایک جج نے اپنے ساتھی جج کو عدالتی اختیارات سے روکنے کی کوشش کی تو یہ ماضی کی اسی روش کا تسلسل دکھائی دیا۔ پانچ ججوں نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا کر کہا کہ یہ ’’آخری چارہ‘‘ ہے اور یہ کہ سوال اب بھی وہی ہے: کیا ہم آئین کے تابع ہیں یا طاقتور افراد کے؟
اصل مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں آئین کی بالادستی کو کبھی مستحکم ہونے ہی نہیں دیا گیا۔ پارلیمنٹ کے فیصلوں کو بار بار غیر مؤثر بنایا گیا، منتخب حکومتوں کو برطرف کیا گیا، اور جب بھی عوام نے اپنے ووٹ سے کسی کو اختیار دیا تو طاقتور اداروں نے اپنے تحفظات کی بنیاد پر اسے کمزور کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ عوام میں جمہوریت کے تسلسل پر اعتماد کمزور ہوا اور سیاستدان بھی طاقتور حلقوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے چکر میں کمزور فیصلے کرتے رہے۔
اس تاریخی غلطی کا ازالہ آج بھی ممکن ہے، لیکن اس کے لیے عدلیہ کو اپنے ماضی سے سیکھنا ہوگا۔ عدالت عظمیٰ کو وہی کردار ادا کرنا ہوگا جس کی توقع دستور ساز اسمبلی کے وقت کی گئی تھی: عوامی نمائندوں اور آئین کی حفاظت۔ یہ وقت ہے کہ سپریم کورٹ یہ ثابت کرے کہ وہ محض طاقتور کے ساتھ کھڑی ہونے والی عدالت نہیں بلکہ عوام کی عدالت ہے، وہ عدالت جو آئین کو سب سے بلند تر سمجھتی ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں