آج کی تاریخ

میرا قائد عمران خان فوجی آپریشن کیخلاف تھا، ہم بھی اس کے خلاف ہیں،نو منتخب وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی-میرا قائد عمران خان فوجی آپریشن کیخلاف تھا، ہم بھی اس کے خلاف ہیں،نو منتخب وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی-ایران کا غزہ امن کانفرنس میں شرکت سے انکار، "اپنے عوام پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے"، ایرانی وزیرِ خارجہ-ایران کا غزہ امن کانفرنس میں شرکت سے انکار، "اپنے عوام پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے"، ایرانی وزیرِ خارجہ-سپر ٹیکس کیس کی سماعت میں ججز اور وکلا کے درمیان دلچسپ تبادلہ خیال-سپر ٹیکس کیس کی سماعت میں ججز اور وکلا کے درمیان دلچسپ تبادلہ خیال-پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی، کے ایس ای-100 انڈیکس 4 ہزار پوائنٹس گر گیا-پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی، کے ایس ای-100 انڈیکس 4 ہزار پوائنٹس گر گیا-نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی: غزہ میں دوبارہ فوجی کارروائی کا اشارہ-نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی: غزہ میں دوبارہ فوجی کارروائی کا اشارہ

تازہ ترین

آبادی کا طوفان اور موسمی بحران — ایک قومی انتباہ

وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے حال ہی میں پاکستان بزنس سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے جو انتباہ دیا، وہ کوئی نیا نہیں، مگر اس کی شدت پہلے سے کہیں زیادہ محسوس کی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو دو ایسے وجودی خطرات درپیش ہیں جو اس کی معیشت، معاشرت اور بقا کے لیے فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں — تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور موسمیاتی تبدیلی۔ یہ دونوں عوامل ہمارے مستقبل کے لیے ایسے بوجھ بنتے جا رہے ہیں جنہیں اگر بروقت اور سنجیدگی سے نہ سنبھالا گیا تو کوئی بھی اصلاحاتی ایجنڈا، کوئی بھی معاشی پالیسی یا سرمایہ کاری منصوبہ کامیاب نہیں ہو سکے گا۔
وزیرِ خزانہ کی یہ وارننگ محض اعداد و شمار کی بات نہیں، بلکہ ایک معاشی اور انسانی المیے کی پیش گوئی ہے۔ پاکستان کی آبادی اس رفتار سے بڑھ رہی ہے کہ ریاست کے پاس اتنے وسائل ہی نہیں کہ وہ انہیں صحت، تعلیم، خوراک اور روزگار فراہم کر سکے۔ ہر سال لاکھوں بچے اسکول کی عمر کو پہنچتے ہیں مگر ڈھائی کروڑ سے زائد بچے اب بھی اسکولوں سے باہر ہیں۔ لاکھوں نوجوان روزگار کے متلاشی ہیں مگر مارکیٹ میں روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ورلڈ بینک کے مطابق ملک میں غربت کی شرح 45 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے، اور ہر سال مزید افراد خطِ غربت سے نیچے جا رہے ہیں۔
یہ صورتحال خود بخود پیدا نہیں ہوئی۔ ریاستی پالیسیوں نے برسوں تک آبادی کو ’’طاقت‘‘ سمجھا، مسئلہ نہیں۔ نیشنل فنانس کمیشن (NFC) ایوارڈ کے موجودہ فارمولے نے بھی اس سوچ کو مزید تقویت دی، جس میں 82 فیصد وسائل کی تقسیم آبادی کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ یہ فارمولا اب وقت کے ساتھ متروک ہو چکا ہے۔ اس نے صوبوں کو ترقی کے لیے نہیں بلکہ زیادہ آبادی دکھانے کے لیے ’’انعام‘‘ دیا۔ نتیجہ یہ کہ آبادی میں بے تحاشا اضافہ تو ہوا مگر انسانی ترقی، تعلیم، صحت اور ماحولیات کے شعبے بدحال رہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں