آج کی تاریخ

Let him die in the chair

آئی جی آفس سے تھانے تک (قسط دوئم)

تحریر:میاں غفار(کارجہاں)

چلیں ایمان کے پہلے درجے پر نہ بھی ہوا تو دوسرے درجے پر تو اللہ کے فضل سے ہوں گا کہ توجہ دلاتا اور زنجیر ہلاتا رہتا ہوں۔ گذشتہ روز کے کالم میں میں نے آئی جی پنجاب جناب ڈاکٹر عثمان انور کے علم میں چند امور لانے کی کوشش کر کے اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے گیند ان کے کورٹ میں پھینک دی کہ اب وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ میرے علم میں نہیں تھا۔ انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس ڈاکٹر عثمان انور نے صوبے بھر کی عوام کیلئے ایک فون نمبر مخصوص کر دیا ہے جہاں لوگ شکایت کرتے ہیں مگر بعض اوقات شکایت کنندگان سے جو سلوک ہوتا ہے وہ آپ کے علم میں لانے کی پھر کم از کم وہ تو جسارت ہی نہیں کرتا۔
مورخہ 30 ستمبر بروز بدھ راجن پور کی تحصیل کوٹ مٹھن کے شہزاد فرید کے گھر ڈکیتی ہوتی ہے اور شہزاد فرید ساکن نئی آبادی کوٹ مٹھن 15 پر کال کرتا ہے جس پر ذوالفقار نامی اے ایس آئی جائے واردات پر پہنچتا ہے جہاں متعدد لوگ جمع ہیں وہ آتے ہی پوچھتا ہے ’’15 پر کئیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پرنائی اے‘‘ ۔یعنی 15 پر کال کر کے کس نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کا رشتہ مجھے دیا ہے۔ میں ذرا مہذب الفاظ کا چنائو کر رہا ہوں ورنہ اس نے تو مغلظات کی لائن لگا دی پھر کہتا ہے ’’ دھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے گھر کا خیال بھی نہیں رکھ سکتے‘‘۔ سرائیکی میں کہتا ہے ’’جیس دی کتا وی ۔۔۔۔۔ وہ بھی 15 پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گھس جاتا ہے‘‘۔ پھر وہ ناقابل اشاعت قسم کی گالیوں سے دیگر جمع شدگان کو بھئ نوازتا ہے اور کہتا ہے کہ سارے محلے دار نشہ پی کر سو رہے تھے جو ڈکیتی کا پتہ نہیں چلا۔ پھر الیکٹرانک میڈیا کے ایک شخص نے مداخلت کر کے اسے مغلظات سے روکا۔
لیں جی کر لیں 15 پر کال اور حاصل کر لیں پولیس کی مدد۔ جناب آئی جی پنجاب، تربیت اور کونسلنگ کی صرف لاہور میں سرعام اپنے اعلیٰ افسران کو گالیاں دینے والے کی ضرورت نہیں۔ کم از کم 70 فیصد پولیس اہلکاروں کو ہے حتیٰ کہ سینکڑوں افسران کو بھی۔ مجھے یاد ہے وہ ایس ایچ او جو ترقی کرتا کرتا ایس پی کے عہدے سے ریٹائرڈ ہو چکا ہے اور اس نے بہت حد تک صاف ستھری نوکری کی تھی۔ افسران کے حکم پر کئی بندے بھی پھڑکائے اور اپنے کیرئیر کے دوران درجنوں خطرناک دہشت گرد اور ڈاکوئوں کے گینگ بھی پکڑے۔ ایک ڈی آئی جی صاحب کوئی ’’ قانونی‘‘ حکم دیا جسے پورا کرنے میں اسے دیر ہو گئی۔ اپنی ان گناہگار آنکھوں سے دیکھا کہ ڈی آئی جی صاحب بہادر نے گالیوں کے علاوہ اپنی سٹک اٹھائی اور کہا ’’یہ ساری کی ساری ۔۔۔۔۔۔۔ میں جائے گی۔ دفعہ ہو جائو۔‘‘
جناب کبھی دور دراز کے تھانوں میں منشی اور نکے تھانے دار ٹائوٹ رکھا کرتے تھے مگر افسران ٹائوٹوں سے یکسر پاک تھے۔ آپ ہر ڈویژن میں پولیس کے دربار لگائیں مگر شرط یہ ہے کہ ضلعی افسران موجود نہ ہوں۔ آپ کو ایسی ایسی ہولناک کہانیاں سننے کو ملیں گی اور پتہ چل جائے گا کہ پولیس صوبہ پنجاب میں اس حوالے سے کتنی ’’ترقی‘‘ کر چکی ہے اور کیسے اعلی افسران کے نامی گرامی ٹائوٹ ایس ایچ او حضرات کو براہ راست احکامات جاری کرتے ہیں اور پھر ان ٹائوٹوں کا حکم بھی اعلیٰ افسران کے حکم ہی کا درجہ رکھتا ہے۔
حضور لاہور اور جی ٹی روڈ پر تو شائید صورتحال بہتر ہو مگر جنوبی پنجاب کے دور افتادہ علاقوں میں صورتحال سنگین ہے۔ جان کی امان پائوں تو اپنے طویل صحافتی تجربے کی روشنی میں عرض کروں کہ پنجاب میں سرکاری اداروں کے خلاف نفرت کی وجہ عمران خان نہیں آپ کی ڈولفن پولیس اور اس قسم کے دیگر سکواڈ و ناکے ہیں جو آٹھویں نویں اور دسویں جماعت کے طالب علموں کی جیب خالی کرنے سے بھی نہیں چونکتے‘ جو بچوں کے موبائل‘ موٹر سائیکلوں کے کاغذات حتیٰ کہ بستے بھی رکھ لیتے ہیں کہ جائو گھر سے پیسے لے آئو اور کاغذات واپس لے لو۔ ان سکواڈوں میں شامل No Fear والوں کے ہاتھوں اور دماغ کی تمام تر گرمی ٹین ایجروں پر نکالے جانے کے ہزاروں واقعات روزانہ ہو رہے ہیں۔ آپ کی پولیس نوجوان موٹر سائیکل سواروں میں نفرت کے خوفناک بیج بو کر دن رات اس کی آبیاری کر رہی ہے تو پھر گندے لوہے سے اچھی تلوار کیسے بنے اور کلراٹھی زمین پر اعلی فصل کیسے پیدا ہو( جاری ہے )

شیئر کریں

:مزید خبریں