اسلام آباد: وفاقی آئینی عدالت نے معروف صحافی ارشد شریف کے قتل سے متعلق تحقیقات کی اب تک کی پیش رفت رپورٹ سترہ دسمبر تک طلب کر لی ہے۔ عدالت نے دونوں جانب کے وکلاء سے ازخود نوٹس کارروائی کے دائرہ اختیار پر معاونت بھی طلب کی ہے تاکہ کیس کی قانونی اور آئینی حدود میں مکمل کارروائی یقینی بنائی جا سکے۔
سماعت وفاقی آئینی عدالت کے دو رکنی بینچ جسٹس عامر فاروق اور جسٹس روزی خان نے کی۔ عدالت نے ہدایت دی کہ پیش رفت رپورٹ میں تحقیقات کے دوران کیے گئے تمام قانونی اقدامات اور آئندہ کی ممکنہ تجاویز شامل کی جائیں، تاکہ چھٹیوں کے بعد مزید مفصل بحث کی جا سکے۔
جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ اب تک تحقیقات میں کیا پیش رفت ہوئی اور قتل کے ذمہ داران کو کٹہرے میں لانے کے لیے قانونی طور پر کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ عدالت نے یہ بھی پوچھا کہ آیا ستر ویں آئینی ترمیم کے بعد آئینی عدالت سوموٹو کارروائی کر سکتی ہے یا نہیں، اور وکلاء سے کہا گیا کہ آئندہ سماعت میں قانونی معاونت فراہم کریں۔
ارشد شریف کی اہلیہ کے وکیل عمران شفیق نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ موجودہ عدالتی فیصلے کے مطابق آئینی عدالت کو سوموٹو کارروائی آگے بڑھانے کا اختیار حاصل ہے، اور ارشد شریف کے قتل کے بعد پانچ ہزار سے زائد خطوط موصول ہوئے ہیں، جن میں سے کسی کو بھی درخواست کے طور پر زیر غور لایا جا سکتا ہے۔
مقتول صحافی کی پہلی بیوی کے وکیل سعد عمر بٹر نے عدالت سے استدعا کی کہ ارشد شریف کے اہلخانہ کو مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ دیکھنے کی اجازت دی جائے۔ جسٹس عامر فاروق نے جواب دیا کہ اگر قانون اجازت دیتا ہے تو عدالت آپ کے ساتھ ہے، تاہم ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے بتایا کہ حتمی چالان جمع ہونے کے بعد ہی اس کے ساتھ منسلک دستاویزات دیکھی جا سکتی ہیں، اور انہوں نے بتایا کہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ پہلے ہی پبلک ہو چکی ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ کینیا حکومت کے ساتھ قانونی معاونت کا معاہدہ مکمل ہو گیا ہے اور کینیا حکومت کو کرائم سین کا وزٹ کرنے کی درخواست بھیجی جا چکی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کینیا پاکستان کا دوست ملک ہے اور پاکستان اس معاملے میں کسی تنازع سے بچنا چاہتا ہے، نیز اقوام متحدہ میں کینیا پاکستان کو سپورٹ کرتا ہے۔
جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ اب تک کینیا میں تحقیقات میں کیا پیش رفت ہوئی۔ وکیل اہلیہ نے بتایا کہ کینیا ہائی کورٹ نے اپنے پولیس اہلکاروں کو ملزم قرار دیا، لیکن ہائی کورٹ کے آرڈر کے بعد بھی وہاں ملزمان کی پراسیکیوشن شروع نہیں ہوئی، اور کینیا حکومت نے ذمہ دار پولیس افسران کو پروموٹ کر دیا۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ارشد شریف کے اہل خانہ کا دکھ الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا اور سب چاہتے ہیں کہ قاتلوں کو کٹہرے میں لایا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کرائم سین پاکستان سے باہر ہونے کی وجہ سے حکومت پاکستان عالمی قوانین کی پابند ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر قتل کا کرائم سین پاکستان میں ہوتا تو معاملہ پہلے ہی حل ہو چکا ہوتا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ خصوصی جے آئی ٹی کے اب تک سترہ اجلاس ہو چکے ہیں اور 74 افراد کے بیانات قلمبند کیے جا چکے ہیں۔ جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ ارشد شریف کے قتل کو تین سال ہو چکے ہیں اور اگر کارروائی بروقت ہوتی تو شاید ازخود نوٹس لینے کی ضرورت نہ پڑتی۔ انہوں نے مزید پوچھا کہ اس کیس میں ملزمان کون ہیں اور پاکستان میں ایف آئی آر درج ہوئی ہے یا نہیں۔
وکیل اہلیہ نے عدالت کو بتایا کہ تین سال ہونے کے باوجود تحقیقات میں کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی اور وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ ریاست پاکستان کینیا کی عدلیہ میں ان کے ساتھ کھڑی ہو۔ وکیل نے بتایا کہ انہوں نے ذاتی حیثیت میں کینیا ہائی کورٹ سے رجوع کیا، لیکن حکومت نے اقوام متحدہ سے قانونی مدد حاصل کرنے کا کوئی اقدام نہیں کیا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ اس سطح پر دوست ملک کے خلاف کارروائی نہیں کی جا سکتی۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے تصدیق کی کہ پاکستان میں ایف آئی آر درج کی گئی ہے جس میں تین افراد خرم، وقار، صالح کے نام شامل ہیں، جو مفرور ہیں۔ مفرور ملزمان کے ریڈ وارنٹ کے لیے انٹر پول سے رابطہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ایم ایل اے سائن ہونے کے بعد تحقیقاتی ٹیم کرائم سین وزٹ کرے گی۔ وکیل اہلیہ نے کہا کہ حکومت تحقیقات اور ملزمان کو کٹہرے میں لانے میں ناکام ہو چکی ہے۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ڈپلومیٹک چینلز میں کسی کے ساتھ تنازع پیدا نہیں کیا جا سکتا اور ڈپلومیٹس کو معلوم ہے کہ چینلز کو کیسے چینلائز کیا جاتا ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وزیر اعظم نے ارشد شریف کے قتل کے معاملے پر کینیا کے صدر سے ٹیلی فونک رابطہ کیا۔ وکیل اہلیہ نے بتایا کہ ان کی جانب سے کچھ افراد کے نام دیے گئے لیکن تحقیقات نہیں ہوئیں۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت سترہ دسمبر تک ملتوی کر دی۔







