پاکستان کا آئین کئی ایسی شقیں رکھتا ہے جو صرف قانون کی دفعات نہیں بلکہ قومی جمہوری شعور اور سیاسی بلوغت کی علامت سمجھی جاتی ہیں۔ ان میں سے ایک اہم شق وہ ہے جو چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ارکان کی تقرری کو حکومت اور اپوزیشن کے باہمی اتفاق رائے سے مشروط کرتی ہے۔ یہ آئینی طریقہ کار محض انتظامی بندوبست نہیں بلکہ ایک اعلیٰ جمہوری نظریے کا مظہر ہے، جس میں طاقت کے استعمال کے بجائے مشاورت اور شراکت کو فوقیت دی گئی ہے۔
پاکستان کی اس منفرد آئینی جہت کو اگر بین الاقوامی تناظر میں دیکھا جائے تو کئی ترقی پذیر اور ترقی یافتہ جمہوریتیں آج بھی ایسی باہمی مشاورت پر مبنی تقرری کے اصول کو اپنے نظام میں شامل کرنے کے خواہاں ہیں۔ بھارت جیسے وسیع جمہوری ملک میں بھی حالیہ قانون سازی کے باوجود انتخابی کمیشن کی تقرری میں حکومتی اثر نمایاں ہے، جب کہ پاکستان میں آئین کے تحت واضح طور پر دونوں پارلیمانی دھڑوں کی مشاورت کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔
تاہم اس آئینی اصول کی موجودگی کے باوجود، عمل درآمد میں پیچیدگیاں پیدا ہوتی رہی ہیں۔ موجودہ حالات میں چیف الیکشن کمشنر اور دو ارکان کی پانچ سالہ مدت مکمل ہو چکی ہے، اور نئے عہدیداران کی تقرری کے لیے آئینی طور پر مختص 45 روزہ مدت بھی گزر چکی ہے۔ بدقسمتی سے اس عمل کے آغاز کے لیے بھی کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔
یہ صورت حال کسی ایک دور تک محدود نہیں رہی۔ 18ویں آئینی ترمیم کے بعد جب اس مشاورتی طریقہ کار کو آئینی حیثیت دی گئی، تو ابتدائی سالوں میں اس پر کامیابی سے عمل درآمد ہوا۔ 2011 اور 2016 کی تقرریاں باہمی سیاسی سمجھوتے کی مثال بنی رہیں۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ، بدلتے سیاسی مزاج اور باہمی اعتماد کی کمی کے باعث یہ عمل تاخیر اور جمود کا شکار ہوتا گیا۔
اس پس منظر میں اکتوبر 2024 میں کی جانے والی 26ویں آئینی ترمیم کا مقصد جزوی طور پر اسی جمود سے بچاؤ تھا، جس میں تقرری کے عمل کی تکمیل تک موجودہ ارکان کو اپنی نشستوں پر برقرار رہنے کی اجازت دی گئی۔ اگرچہ اس میں بعض مفاداتی عناصر بھی سمجھے جا سکتے ہیں، تاہم ماضی میں طویل عرصے تک خالی نشستوں کی موجودگی نے الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر اثر ڈالا، جس کا مؤثر حل یہی نظر آیا۔
تاہم موجودہ تناظر میں یہ سوال برقرار ہے کہ آیا آئین میں واضح رہنمائی ہونے کے باوجود تقرری کا عمل کیوں تعطل کا شکار ہوتا ہے؟ آئینی تقاضا ہے کہ وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف مشاورت کے ذریعے نام تجویز کریں، اور ایک پارلیمانی کمیٹی ان ناموں پر غور کرے۔ لیکن اگر ابتدائی مرحلہ ہی تعطل کا شکار ہو تو باقی عمل کی پیش رفت ممکن نہیں۔
اس صورت حال میں ایک اور پہلو بھی قابل توجہ ہے، اور وہ ہے آئین کے آرٹیکل 213 (2A) کی وہ شق جو تقرری کے لیے ’سماعت اور توثیق‘ کی بات کرتی ہے۔ اگرچہ یہ اصطلاح ماضی میں محض رسمی کارروائی رہی ہے، مگر جمہوری شفافیت کے تقاضوں کے پیش نظر مستقبل میں اس شق پر حقیقی معنوں میں عمل ہونا چاہیے۔ بہتر یہی ہوگا کہ پارلیمانی کمیٹی، تقرری کے مرحلے پر عوامی سماعت کا اہتمام کرے تاکہ یہ عمل نہ صرف آئینی ہو بلکہ قابلِ اعتبار اور قابلِ قبول بھی ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ اداروں کی ساکھ صرف ان کی قانونی حیثیت پر نہیں، بلکہ ان پر عوامی اعتماد سے جڑی ہوتی ہے۔ اگر تقرریوں کے عمل میں غیر ضروری تاخیر، خاموشی یا سیاسی مفاد پرستی شامل ہو، تو وہی ادارے جن کا کام شفافیت اور غیر جانب داری ہے، خود سوالیہ نشان بن جاتے ہیں۔
یہ وقت آئینی رہنمائی کو محض کاغذی ضابطہ نہ سمجھنے کا ہے، بلکہ اسے عملی طریقہ کار کے طور پر برتنے کا ہے۔ پارلیمان، حکومت، اور اپوزیشن پر لازم ہے کہ وہ آئین کے اس سنہری اصول — باہمی مشاورت — کو محض الفاظ نہیں، بلکہ عمل کا ترجمان بنائیں۔ صرف اسی صورت میں ہم ایک مضبوط، خود مختار، اور قابلِ اعتبار انتخابی نظام کی بنیاد رکھ سکتے ہیں جو آنے والے وقت میں قومی یکجہتی اور جمہوری تسلسل کی ضمانت بنے۔
پاکستان جیسے کثیرالخیال اور متنوع سیاسی منظرنامے میں الیکشن کمیشن کا ادارہ محض ایک نگران ادارہ نہیں، بلکہ پورے جمہوری نظام کی روح اور بنیاد ہے۔ اس کی غیر جانب داری اور مؤثر عمل داری وہ ستون ہیں جن پر عوام کا سیاسی اعتماد قائم ہوتا ہے۔ جب اس ادارے کی تشکیل اور قیادت ہی شکوک، تاخیر، یا یکطرفہ فیصلوں کے دھندلکوں میں چھپ جائے، تو پوری انتخابی مشق کی شفافیت سوالات کی زد میں آ جاتی ہے۔
انتخابات صرف ووٹ ڈالنے کا عمل نہیں، یہ ایک اجتماعی معاہدہ ہے جس میں شہری ریاست کے ساتھ اپنے اعتماد کی تجدید کرتا ہے۔ اگر اس معاہدے کی نگرانی کرنے والا ادارہ خود بے یقینی، نااہلی یا عدم اعتماد کا شکار ہو جائے، تو جمہوریت کا عمل ایک رسمی رسم سے زیادہ کچھ نہیں رہتا۔
اس وقت بھی جو تاخیر اور تعطل دیکھنے کو مل رہا ہے، وہ ایک خطرناک روایت کو جنم دے سکتا ہے — یعنی کہ آئینی عمل کے بجائے سیاسی مفاہمت یا وقتی سکون کو ترجیح دینا۔ یہ طرزِ عمل نہ صرف اداروں کو کمزور کرتا ہے بلکہ آئندہ کے لیے غیر تحریری نظائر پیدا کرتا ہے، جنہیں وقت کے ساتھ آئینی اقدار سے زیادہ طاقت ملتی ہے۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ دنیا کی کئی مستحکم جمہوریتوں نے بھی اب اس پہلو پر توجہ دینا شروع کی ہے کہ شفاف انتخابات کی ضمانت صرف قانون سے نہیں بلکہ ادارہ جاتی ساکھ، واضح طریقِ کار، اور عوامی مشاورت سے ممکن ہوتی ہے۔ پاکستان کے آئینی فریم ورک میں یہ امکان پہلے ہی موجود ہے — صرف ضرورت ہے سیاسی ارادے، ادارہ جاتی ہمت اور عوامی دباؤ کی۔
اصولی طور پر، سیاسی اختلاف اور نقطۂ نظر کی جدت جمہوریت کا حسن ہے۔ لیکن ایسے اہم معاملات میں جہاں اداروں کی ساخت اور ریاست کی اخلاقی بنیادیں داؤ پر ہوں، وہاں تمام فریقوں پر لازم ہے کہ وہ وسیع تر قومی مفاد میں ذاتی ترجیحات سے بالاتر ہو کر فیصلہ کریں۔
یہی وقت ہے کہ پارلیمانی کمیٹی کے کردار کو فعال، ذمہ دار اور شفاف بنایا جائے۔ اس کے دائرہ کار میں واضح طریقۂ سماعت، اہلیت کی جانچ، اور فیصلہ سازی کے اصول طے کیے جائیں۔ اس عمل کو میڈیا اور عوام کی نظروں سے اوجھل رکھنے کے بجائے، اسے ایک زندہ اور باشعور مکالمے کا حصہ بنایا جائے۔ یہی شفافیت دراصل اعتماد کو جنم دیتی ہے، اور اعتماد جمہوریت کا پہلا زینہ ہے۔
اختتامیہ میں یہ کہنا بجا ہوگا کہ قومیں اپنے آئین کو کیسے برتتی ہیں، وہی ان کی سیاسی بلوغت کی اصل کسوٹی ہے۔ پاکستان نے آئینی ارتقاء کی جس راہ پر قدم رکھا ہے، اس پر چلنے کے لیے صرف لفظی وفاداری نہیں بلکہ عملی عزم درکار ہے۔ الیکشن کمیشن کی تقرری کا آئینی طریقہ کار ہمارے سامنے ایک موقع ہے — ایک موقع اس بات کا کہ ہم قانون کی روح کو زندہ کریں، جمہوریت کو تقویت دیں، اور ان اداروں کو دوبارہ اس مقام پر لائیں جہاں سے قوم اعتماد اور سمت دونوں حاصل کر سکے۔
یہ ادارے محض دفاتر نہیں، یہ وہ آئینے ہیں جن میں قوم خود کو دیکھتی ہے۔ یہ دھندلے نہ ہوں، یہی وقت کا تقاضا ہے۔
عالمی ضمیر کی مردنی
جب آئندہ مورخین ہمارے موجودہ دور پر قلم اٹھائیں گے تو انہیں ناگزیر طور پر یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ ہم ایک ایسے عہد میں جی رہے تھے جہاں بین الاقوامی قانون اپنی معنویت کھو چکا تھا، اخلاقیات اور انسانیت دم توڑ چکے تھے، اور مغربی جمہوریتوں کے وہ نقاب بھی گر چکے تھے جو انسانی حقوق جیسے اعلیٰ دعووں سے آراستہ تھے۔ آج انسانیت کی جو اجتماعی بے حسی سامنے آئی ہے، وہ محض ایک وقتی غفلت نہیں بلکہ تاریخ کی گواہی ہے کہ طاقتور اقوام اپنے مفادات کی خاطر نہ صرف نسل کشی جیسے جرائم کا دفاع کرتی ہیں بلکہ انہیں اخلاقی جواز بھی فراہم کرتی ہیں۔
دنیا ایک المیے کی گرفت میں ہے، اور وہ المیہ غزہ میں جاری ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر ہم بچوں کے چہرے، ان کے کٹے پھٹے جسم، زخمی ماؤں کی بین کرتی آنکھیں، اور ایسے لاشے دیکھتے ہیں جنہیں پہچاننا بھی ممکن نہیں رہا۔ یہ سب کچھ ہماری نظروں کے سامنے ہو رہا ہے، اور ہم سب گواہ ہیں — مگر کیا ہم گواہ ہونے کا حق ادا کر رہے ہیں؟ اسرائیلی قابض افواج کے ہاتھوں فلسطینیوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے، وہ ایک کھلی نسل کشی ہے، اور اس جرم کی پشت پناہی وہی ممالک کر رہے ہیں جو خود کو جمہوریت اور انسانی حقوق کے علمبردار کہتے ہیں۔
امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین کی حکومتیں اسرائیل کو وہ تمام وسائل فراہم کر رہی ہیں جن کے ذریعے وہ فلسطینی سرزمین کو کھنڈر میں بدل رہا ہے — اربوں ڈالر کے ہتھیار، لڑاکا طیارے، میزائل، اور وہ ’سمارٹ بم‘ جن کی واحد ہوشیاری معصوم بچوں کو نشانہ بنانے میں دکھائی دیتی ہے۔ برطانوی فضائیہ روزانہ سائپرس سے پروازیں کر کے اسرائیل کو اہداف کی نشاندہی میں مدد دے رہی ہے۔ جرمنی اور اٹلی جیسے یورپی ممالک اسلحہ برآمد کر رہے ہیں۔ ان عالمی طاقتوں کے لیے نہ عالمی ضمیر باقی رہا ہے اور نہ اخلاقی بصیرت۔
اکتوبر 2023 میں حماس کے حملے میں اسرائیل کے 800 شہری اور 400 سیکیورٹی اہلکار مارے گئے، اور 251 افراد کو یرغمال بنایا گیا۔ اس کے ردعمل میں — جو مہذب دنیا میں “تناسبی جواب” کہلاتا ہے — اسرائیل نے اب تک پچاس ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید کیا، جن میں ایک تہائی بچے ہیں۔ ہزاروں زخمی ہیں، لاکھوں بے گھر۔ مگر مغربی دنیا اب بھی اس کو اسرائیل کا “حقِ دفاع” قرار دیتی ہے۔ وقفے کے دوران ہونے والی قیدیوں کی رہائی بھی فریب نکلی — کیونکہ فلسطینی قیدیوں کی اکثریت ان نام نہاد “انتظامی احکامات” کے تحت برسوں سے بغیر فردِ جرم جیلوں میں پڑی تھی۔
مغربی میڈیا، سیاسی قیادت اور عوام کی اکثریت فلسطینی مسئلے کو 2023 کے حملے سے شروع ہونے والا سمجھتی ہے، اور وہ ناکبہ (1948) کی حقیقت، اسرائیلی قبضے، اور سات دہائیوں سے جاری فلسطینیوں کے ساتھ ناانصافیوں کو جان بوجھ کر نظرانداز کرتی ہے۔ آسکر یافتہ ڈاکیومنٹری No Other Land ہمیں سادہ مگر مؤثر انداز میں یہ سچ دکھاتی ہے کہ اسرائیل ایک قابض قوت ہے، ایک نسلی امتیاز پر مبنی ریاست ہے، جہاں فلسطینیوں کو نہ مساوی شہری حقوق حاصل ہیں، نہ نقل و حرکت کی آزادی، اور وہ خود اپنے گھروں میں غیر محفوظ ہیں۔
اور اسرائیل یہ سب کچھ چھپاتا بھی نہیں۔ وہ تو اس ظالمانہ رویے کو فخر سے دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے — جیسا کہ حالیہ واقعہ ہے جہاں 15 ایمبولینس اور ریسکیو ورکرز کو قتل کر کے ان کی لاشیں اجتماعی قبر میں دفن کر دی گئیں۔ ان میں سے کئی کے ہاتھ پشت پر بندھے تھے، اور انہیں قریب سے گولی ماری گئی۔ واحد زندہ بچنے والا طبی کارکن شاید اسی لیے زندہ چھوڑا گیا تاکہ باقی دنیا کو ڈرا سکے۔ اسرائیل کا پیغام واضح ہے: زخمیوں کی مدد کرنے والے خود خطرے میں ہیں۔
یہ صورتحال کسی فرد یا ایک ملک کی ہذیانی چیخ نہیں، بلکہ پوری انسانیت کے لیے ایک آزمائش ہے۔ اور افسوسناک بات یہ ہے کہ مسلم دنیا کی قیادت بھی اس آزمائش میں بری طرح ناکام ہوئی ہے۔ اسرائیل جب غزہ پر دوبارہ حملے شروع کر رہا تھا، تب متحدہ عرب امارات کا سفیر تل ابیب میں شاہی افطار کا اہتمام کر رہا تھا۔ غزہ میں خوراک کی مکمل بندش کے دوران افطار کی تصویریں “تعمیری رابطے” (constructive engagement) کے نام پر شیئر کی جا رہی تھیں۔ یہ تعمیری رابطہ ہے یا بے حسی؟ اس کا فیصلہ تاریخ کرے گی۔
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو غزہ کی بربادی کو “ٹرمپ کے غزہ ریویرا منصوبے” کی تعبیر قرار دیتے ہیں۔ گویا ایک پوری قوم کی نسل کشی، ایک ’ٹورازم زون‘ بنانے کے لیے کی جا رہی ہے۔ سوال یہ ہے: کیا مغربی جمہوریتوں اور مسلم قیادت — دونوں — نے اپنا اجتماعی ضمیر کسی ایسی سرد خانے میں رکھ دیا ہے جہاں تک انسانی ہلاکتوں کی چیخیں بھی نہیں پہنچتیں؟
اگر یہ عہد واقعی انسان کی اخلاقی بلندی کا مظہر ہے، تو پھر ہمیں اپنے زوال کی تعریف نئے سرے سے کرنی ہوگی۔ اگر آج ہم خاموش رہیں، تو آنے والے وقت میں ہمیں تاریخ کے کٹہرے میں صرف ظالم نہیں بلکہ بزدل، بے حس اور شریکِ جرم لکھا جائے گا۔ اور شاید یہی وہ المیہ ہے جس پر سب سے بلند آہ نکلتی ہے: ہم دیکھ رہے ہیں — اور کچھ نہیں کر رہے۔
جب ظلم ریاستی پالیسی بن جائے، نسل کشی کو خودمختاری کا نام دیا جائے، اور عالمی طاقتیں اسے نظریاتی اور عسکری پشت پناہی فراہم کریں تو یہ محض ایک سیاسی بحران نہیں رہتا، بلکہ ایک تہذیبی بحران بن جاتا ہے۔ آج فلسطین نہیں جل رہا، آج وہ ساری انسانی اقدار جل رہی ہیں جن پر جدید دنیا نے اپنے بلند دعوے استوار کیے تھے۔ اقوام متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیمیں، عالمی عدالت انصاف — سب کی حیثیت علامتی رہ گئی ہے۔ نہ وہ کسی ظالم کو روک سکتی ہیں، نہ کسی مظلوم کی دادرسی کر سکتی ہیں۔ یہ ادارے اب صرف بیانات کی چھاؤں میں سر رکھ کر سونے والے ادارے بن گئے ہیں۔
اداسی کی بات یہ نہیں کہ اسرائیل اپنی سفاکی میں کامیاب ہو رہا ہے، اصل سانحہ یہ ہے کہ اس کی یہ کامیابی عالمی ضمیر کی خاموش رضا سے ہو رہی ہے۔ وہ عالمی ضمیر جو ایک وقت میں جنوبی افریقہ میں نسلی امتیاز کے خلاف بیدار ہو گیا تھا، وہی ضمیر آج اسرائیل کے ہاتھوں معصوم فلسطینیوں کے قتلِ عام پر یا تو خاموش ہے یا الجھے ہوئے اخلاقی بیانیوں میں الجھا ہوا ہے۔ حیرت ہے کہ جس مغرب نے ہولوکاسٹ کے خلاف پوری تہذیب کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا، وہی مغرب آج ایک نئی نسل کشی پر مہر بہ لب ہے۔
اسلامی دنیا کا رویہ اس سے بھی زیادہ شرمناک ہے۔ جس امت کو “خیرِ امت” کہا گیا، وہ آج اپنے بھائیوں کے اجتماعی قتل پر فقط بیانات تک محدود ہو چکی ہے۔ کہیں الفاظ “تشویش” سے آگے نہیں بڑھتے، کہیں اقوام متحدہ سے “نوٹس لینے” کی اپیل کی جاتی ہے، کہیں مجرمانہ خاموشی کو “مفاہمانہ حکمت” کا نام دے کر چھپایا جاتا ہے۔ جب مسلم حکمرانوں کی سفارتی لغت میں “شدید مذمت” آخری درجہ بن جائے، تو یہ دراصل مسلم دنیا کے اخلاقی دیوالیہ پن کا اعلان ہوتا ہے۔
ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے وہ محض سیاسی نہیں، یہ انسانیت کی اجتماعی روح پر حملہ ہے۔ جو بچہ غزہ میں بھوکا سوتا ہے، جو ماں اپنے زخمی بچے کو گود میں لیے بین کرتی ہے، جو نوجوان اپنے باپ کی لاش کے ٹکڑوں کو سمیٹنے کی کوشش کرتا ہے، ان سب کے زخم صرف فلسطین کے نہیں — یہ ہماری خاموشی کی گواہی ہیں۔ ہم سب اس جرم میں شریک ہیں، یا کم از کم اس کی چشم دید گواہی دے رہے ہیں۔
اب وقت آ چکا ہے کہ ہم اپنی آسانیوں، عذروں اور بے بسی کے پردے چاک کریں۔ ہمیں اپنے اجتماعی ضمیر کو جگانا ہوگا، وہی ضمیر جو کبھی بغداد، کشمیر، بوسنیا اور روہنگیا کے لیے تڑپتا تھا۔ یہ ضمیر صرف احتجاجی ریلیوں سے نہیں، بلکہ واضح موقف، سیاسی دباؤ، معاشی بائیکاٹ، علمی مزاحمت اور میڈیا میں بیانیے کی جنگ کے ذریعے زندہ ہوگا۔ یہ وقت صرف آنسو بہانے کا نہیں — یہ وقت صف بندی کا ہے۔
اگر ہم نے اب بھی خاموشی اختیار کیے رکھی، تو کل ہم نہ صرف فلسطین کے مظلوموں سے بلکہ اپنے بچوں سے بھی نظریں نہ ملا سکیں گے، کیونکہ وہ ہم سے پوچھیں گے: جب تاریخ لکھی جا رہی تھی، تم کہاں تھے؟ اور اگر ہمارے پاس کوئی جواب نہ ہوا، تو شاید ہمارے نام بھی ان لوگوں کی فہرست میں لکھے جائیں گے جنہوں نے ظالم کا ہاتھ نہیں روکا — اور مظلوم کی آہ بھی نہ سنی۔
آگے کا راستہ
وزیرِاعظم شہباز شریف کی جانب سے بلوچستان کو ترقیاتی ترجیحات میں شامل رکھنے کا حالیہ اعادہ ایک دیرینہ، مگر حوصلہ افزا قدم ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب صوبہ شدید سیاسی بے چینی، سیکیورٹی خدشات اور عوامی نارضایتی جذبات سے دوچار ہے، یہ بیان کسی امید کی کرن سے کم نہیں۔
بلوچستان کی ریاست سے وابستہ تاریخ کشیدگی اور بداعتمادی سے بھری پڑی ہے۔ برسوں کے دوران وفاق کی جانب سے کیے گئے وعدے اکثر محض دعووں تک محدود رہے، جنہوں نے صوبے کے عوام میں احساس محرومی کو مزید گہرا کیا۔ ترقی، شمولیت اور سیاسی مصالحت کی جو بات آج کی جا رہی ہے، اس کا آغاز اگر وقت پر ہوتا تو شاید حالات اتنے سنگین نہ ہوتے۔
تاہم، ماضی کی کوتاہیوں کے باوجود موجودہ رویہ ایک مثبت تبدیلی کا پتہ دیتا ہے۔ ڈاکٹر مالک بلوچ اور اختر مینگل جیسے قومی مزاج رکھنے والے بلوچ رہنماؤں سے روابط اس بات کا اشارہ ہیں کہ ریاست کو اب یہ ادراک ہو چکا ہے کہ بلوچستان کی قسمت وہاں کے عوام اور قیادت کی شراکت کے بغیر نہیں سنور سکتی۔
ضروری ہے کہ ریاست دہشت گردی اور سیاسی احتجاج کے درمیان واضح فرق کرے۔ پُرامن سیاسی مطالبات کو طاقت سے کچلنے کی پالیسی نہ صرف ناپسندیدگی کو جنم دیتی ہے بلکہ شدت پسندی کو تقویت دیتی ہے۔ ریاستی پالیسیوں کا مرکز عوامی اعتماد کی بحالی ہونا چاہیے، نہ کہ عوامی آواز کا گلا گھونٹنا۔
اس ضمن میں عسکری اور سول اداروں کے درمیان مؤثر ہم آہنگی ناگزیر ہے۔ جب تک سیکیورٹی اقدامات کے ساتھ ساتھ سماجی انصاف، تعلیم، صحت اور روزگار جیسے بنیادی شعبوں میں اصلاحات نہیں کی جاتیں، ترقی کی کوئی بھی کوشش عارضی ثابت ہوگی۔
وزیرِاعظم کا یہ بیان اگر عمل میں ڈھل جائے تو بلوچستان میں دیرپا امن کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ لیکن اب صرف الفاظ نہیں، عملی اقدامات درکار ہیں۔ بلوچستان کے عوام مزید وعدوں کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ریاست کے پاس اب موقع ہے کہ وہ اپنے عمل سے ثابت کرے کہ بلوچستان کی ترقی اور امن اس کی سنجیدہ ترجیح ہے — یہی آگے کا واحد راستہ ہے۔