آج کی تاریخ

یادوں کی خوشبو میں بسا ایک لمحہ

یہ سب تمہارا کرم ہے آقا یہ سب تمہارا کرم ہے آقا
(نعت گو شاعر خالد محمود خالد کی نذر)
یہ سب تمہارا کرم ہے آقا،
کہ حرف روشن، سخن مقدس،
یہ سب تمہاری عطا کی خوشبو،
یہ سب تمہاری رضا کی خوشبو۔
خالد کی سانسوں میں تھی صدا بس،
یہ سب تمہارا کرم ہے آقا”
وہ حرف چنتا، نعت بناتا،
دھڑکن میں سیرت کی لو جلاتا۔
وہی جو باندھا تھا اک حسیں رنگ،
وہی سخن کا چلن ٹھہرا،
کہ نعت گوئی کی راہ میں اب،
تمہارے لفظوں کا فن ٹھہرا۔
رہے سلامت تمہاری نسبت،
میرا تو بس آسرا یہی ہے”
تمہارے اوپر اترنے والے
یہ نعتیہ مصرعے روشنی ہیں۔
اٹھا دو پردہ دکھادو جلوہ،
کہ نور باری حجاب میں ہے”
یہی دعا تھی، یہی تمنا،
یہی عقیدت، یہی وفا تھی۔
وہ حرف خالد، وہ نور خالد،
وہی تو خوشبو، وہی تو رحمت،
یہی خالد ہے اساسِ رحمت،
یہی ہے خالد، بنائے رحمت۔”
نبی کا عرفان، بندگی ہے،
نبی کا عرفان، زندگی ہے،
وہ جو لکھا، ہر حرف خالد،
رہے گا تا حشر روشنی میں۔
قربان میں ان کی بخشش کے،
مقصد بھی زباں پر آیا نہیں”
یہی ہے اخلاص، یہی حقیقت،
یہی عقیدت کا اک خزینہ۔
یہ سب تمہارا کرم ہے آقا،
کہ اب بھی خالد کی نعت باقی،
کہ اب بھی اسلوب اس کا جاری،
یہ سب تمہارا کرم ہے آقا۔


محمد عامر حسینی
وقت کے دریا میں بہتے لمحے کبھی کبھار یوں کنارے پر آ ٹھہرتے ہیں جیسے کوئی بھولا بسرا مسافر اچانک لوٹ آئے۔ آج کا دن بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ خانیوال پریس کلب میں رانا محمد عظمان سے برسوں بعد ملاقات ہوئی تو جیسے یادوں کے کئی دریچے بیک وقت کھل گئے۔ وہی گرمجوش مسکراہٹ، وہی عزم سے بھری چمکتی آنکھیں، بس چہرے پر سنہری داڑھی میں جھلکتی سفیدی وقت کے گزرنے کی گواہ تھی۔ سندھی ٹوپی میں ملبوس، وہ ہمیشہ کی طرح مطمئن اور پرسکون نظر آئے۔
رانا عظمان کا اور ہمارا تعلق محض رسمی شناسائی کا نہیں، بلکہ ایک ایسے رشتے کا ہے جس کی جڑیں گہری وابستگی میں پیوست ہیں۔ ان کے والد، حاجی اکرم مرحوم، اور میرے والد دونوں چادر والی سرکار، پیر ولی محمد شاہ نقشبندی کے مرید تھے۔ خانیوال میں اس روحانی سلسلے کے وابستگان ہر جمعہ ختم خواجگان کا اہتمام کرتے، جو محض ایک مذہبی رسم نہ تھی بلکہ میل ملاقات کا خوبصورت بہانہ بھی ہوا کرتا تھا۔ عظمان نے بتایا کہ یہ روایت آج بھی برقرار ہے، میں سوچنے لگا کیسےمیرے لیے کچھ بندھن وقت کی گرد میں گم ہوگئے۔
دوستی کے سنہرے دن
یہ ملاقات ماضی کی اس حسین منڈلی کی یاد دلا گئی جس میں رانا محمد معین، شیخ ارشاد، طارق پراچہ اور میں شریک تھے۔ وہ دن بھی کیا دن تھے! ہر شام بیٹھک، فکری مباحث، ہنسی مذاق، اور کبھی کبھار سنجیدہ گفتگو۔ ہماری محفل کا ایک مستقل مرکز بابا فقیر حسین جمالی مرحوم کی جامع مسجد غوثیہ کا کتب خانہ تھا، جہاں بعد از نمازِ جمعہ ملاقات لازمی تھی۔ وہ جگہ صرف ایک کتب خانہ نہیں تھی، بلکہ ایک فکری نشست گاہ تھی، جہاں مختلف الخیال لوگ آ کر اپنے خیالات کے دیے جلاتے۔
رانا عظمان سے ملاقات ہمیشہ صرف ملاقات نہیں ہوتی، بلکہ وہ ایک دریچہ کھول دیتی ہے جو پرانی یادوں، بچھڑے لمحوں اور گزرے دنوں کی خوشبو سے معطر ہوتا ہے۔ صفر المظفر کے مہینے میں انجمن خدام اولیاء کے زیر اہتمام حضرت ابوبکر صدیقؓ کے عرس کی تقریبات میں عظمان سے اکثر ملاقات ہوا کرتی تھی۔ چادر والی سرکار کے تمام مریدین اس تقریب کے میزبان ہوتے، اور اب یہ ذمہ داری عظمان اور غلام مصطفی جٹ نے سنبھال رکھی ہے۔ وقت آگے بڑھ گیا، کردار بدل گئے، اور میں بھی اب کہیں بہت دور نکل آیا ہوں۔
رانا عظمان کی سیاست میں دلچسپی نئی نہیں۔ گورنمنٹ ڈگری کالج خانیوال میں داخلہ لینے کے بعد وہ انجمن طلبہ اسلام سے وابستہ ہوگئے۔ ہمارا خاندان بھی کچھ ایسا ہی مزاج رکھتا تھا۔ انجمن طلبہ اسلام سے ہمارے خاندان کے کئی افراد جڑے رہے، جن میں میرے چچا انور، میرے کزن شیخ ظہیر (سابق کونسلر)، شیخ انور مصطفائی، شیخ شفیق رضوی جیسے نام شامل ہیں۔ یہ سب 1970ء اور 1980ء کی دہائی میں انجمن طلبہ اسلام کے مختلف یونٹوں میں سرگرم رہے اور بعد میں جمعیت علمائے پاکستان کا حصہ بنے۔
ہمارے ہاں شاہ احمد نورانی، عبدالستار خان نیازی، پیر قمر الدین سیالوی، پیر حامد علی خان اور علامہ احمد سعید کاظمی جیسے اکابرین کی آمد و رفت عام تھی۔ نظریاتی بحثیں، سیاسی حکمت عملیاں، اور تنظیمی سرگرمیاں ہمارا روزمرہ کا معمول تھیں۔ البتہ، خاندان کے کچھ افراد ترقی پسند تحریکوں کی جانب بھی راغب ہوئے۔ میرے چچا محمد اسلم پہلے شخص تھے جنہوں نے پاکستان سٹوڈنٹس فیڈریشن جوائن کی، پھر پیپلز یوتھ آرگنائزیشن خانیوال شہر کے صدر بنے، اور بعد ازاں پاکستان پیپلز پارٹی سے وابستہ ہوگئے۔
ترقی پسندی کا یہ رجحان ہمارے قریبی رشتہ دار محمد یونس الفتح فوٹو لیب والے سے شروع ہوا، جو مولانا بھاشانی کے مرید تھے۔ 1970ء کی دہائی میں کامریڈ خلیل نے پاکستان پیپلز پارٹی کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا، جس پر انہیں والد صاحب سے مار بھی کھانی پڑی، مگر وہ اپنی جدوجہد سے پیچھے نہ ہٹے۔ جنرل ضیاء کے مارشل لا سے لے کر مشرف دور تک، وہ سوشلسٹ نظریات کے داعی رہے۔ میرے بڑے بھائی اکرام عابد، جنہیں میں آج بھی جوان ہی سمجھتا ہوں، انہوں نے بھی 1970ء میں نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن سے سیاست کا آغاز کیا، پھر 1980ء کی دہائی میں پاکستان پیپلز پارٹی سے جڑے اور آج بھی یہی جھنڈا تھامے ہوئے ہیں۔
مگر مجموعی طور پر ہمارے خاندان، کنبے اور برادری کا جھکاؤ بریلوی سیاست کی جانب ہی رہا، جو 1986ء کے بعد مسلم لیگ نواز کے ووٹ بینک میں تبدیل ہوگیا۔ ہماری کمیونٹی چونکہ تاجر پیشہ تھی، اس لیے ضیاء الحق کے دور میں اس طبقے کا جھکاؤ بھی دائیں بازو کی سیاست کی طرف رہا۔
بچپن کی وہ حسین یادیں بھی ذہن میں تازہ ہو گئیں جب مرکزی جامع مسجد اور جامع مسجد عنائتیہ میں بزم حسان کے تحت کل پاکستان محفلِ نعت کا انعقاد ہوتا۔ ان محافل میں میں نے پاکستان کے تقریباً ہر معروف نعت خواں کو سنا۔ انہی دنوں ایک نعت گو شاعر کا کلام مجھے بے حد پسند آیا، اور میں نے والد صاحب سے ان کا پہلا مجموعہ کلام منگوانے کی فرمائش کی۔ سبز رنگ کے کور کے ساتھ وہ کتاب والد محترم حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ کے عرس کے موقع پر لاہور سے خرید کر لائے تھے۔ وہ نعت گو شاعر کوئی اور نہیں، بلکہ خالد محمود خالد تھے۔
مجھے یاد ہے، پہلی بار میں نے انہیں مرکزی جامع مسجد غوثیہ خانیوال میں بزم حسان کی محفل نعت میں سنا تھا۔ مسجد کے ہال اور صحن میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی، لوگ دور دور سے انہیں سننے آئے تھے۔ اس وقت نعت خوانی میں آج کی طرح گلیمر نہ تھا، نہ ہی کوئی بڑی رقم یا شہرت مقصود تھی۔ نعت خوان زیادہ تر سفید پوشی میں زندگی گزارتے اور جو کچھ عقیدت مند نذر کر دیتے، اسی پر اکتفا کرتے۔
خالد محمود خالد کی شاعری میں وہی تاثیر تھی جو مولانا احمد رضا خان بریلوی اور ان کے صاحبزادے مولانا حسن رضا بریلوی کے کلام میں نظر آتی ہے۔ ان کی نعتوں کے کئی اشعار زبان زدِ عام ہوئے، مگر ایک نعت خاص طور پر دل میں بس گئی:
قربان میں ان کی بخشش کے…”
نعت کی بازگشت اور یادوں کا دریچہ
آج ایک دوست کے والد کی وفات پر تعزیت کے لیے گیا تو وہاں ختم خواجگان کی محفل میں ایک خوش الحان قاری نے یہی نعت پڑھی۔ جیسے ہی وہ مترنم آواز میں نعت سراپا ہوئے، میں ماضی کی دنیا میں جا پہنچا۔ وہی بزم حسان کی محفل، وہی والہانہ سماں، وہی مسحور کن کیفیت۔ میری آنکھوں کے سامنے 38 سال پرانے مناظر ایک کے بعد ایک چلنے لگے۔تب خالد محمود خالد کی داڑھی گھنی اور سیاہ تھی، سلیقے سے تراشیدہ۔ کریم کلر کی شلوار قمیص اور سیاہ واسکٹ میں ملبوس، ان کا چہرہ شہد اور میدے کے امتزاج کی مانند روشن تھا۔ جب وہ نعت کے مصرعے ترنم میں سناتے تو مجمع دم بخود سنتا، اور جونہی دوسرا مصرع مکمل ہوتا، فضا نعروں سے گونج اٹھتی۔ آج بھی وہی کیفیت دل میں جاگزیں ہو گئی، اور میں اسی سرشاری کے عالم میں گھر لوٹ آیا۔وقت گزر جاتا ہے، لوگ بدل جاتے ہیں، مگر کچھ لمحات، کچھ آوازیں اور کچھ جذبات ہمیشہ دل کی دیواروں پر ثبت رہتے ہیں، ہمیشہ کے لیے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں