صدر مملکت آصف علی زرداری نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں نہ صرف موجودہ حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کی بلکہ قومی یکجہتی اور جمہوری استحکام پر بھی زور دیا۔ ان کا خطاب کئی اہم نکات پر مشتمل تھا، جن میں وفاقی اکائیوں کے درمیان اختلافات، معیشت کی بحالی، پارلیمانی کردار، جمہوری اقدار، خارجی تعلقات اور سلامتی کے مسائل شامل تھے۔
صدر نے واضح الفاظ میں حکومت کو خبردار کیا کہ بعض یکطرفہ فیصلے وفاق کی یکجہتی پر منفی اثر ڈال رہے ہیں۔ خاص طور پر دریائے سندھ کے پانی سے مزید نہریں نکالنے کے حکومتی فیصلے پر انہوں نے سخت اعتراض کیا اور اسے فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کیا۔ سندھ حکومت پہلے ہی اس منصوبے پر شدید تحفظات کا اظہار کر چکی ہے، کیونکہ اس سے صوبے کا پانی کم ہو سکتا ہے، جس کے باعث زراعت پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ صدر زرداری کا کہنا تھا کہ قومی مسائل کا حل تمام فریقوں کی مشاورت سے نکالا جانا چاہیے، تاکہ کسی بھی اکائی کو شکایت کا موقع نہ ملے۔
انہوں نے پارلیمنٹ کے اراکین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اپنے قومی فرائض کو مقدم رکھنا چاہیے اور محض جماعتی سیاست کے بجائے ملک کی بہتری کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔ ان کے مطابق، پارلیمنٹ کو ملک میں جمہوری استحکام اور اداروں کی مضبوطی کے لیے کردار ادا کرنا ہوگا، کیونکہ عوام کی نظریں اسی ایوان پر لگی ہوتی ہیں۔ صدر نے خاص طور پر قانون کی حکمرانی، شفافیت، اور گڈ گورننس پر زور دیا اور کہا کہ حکومت کو اپنی کارکردگی بہتر بنانی ہوگی تاکہ عوام کا جمہوری نظام پر اعتماد بحال ہو۔
معاشی مسائل پر بات کرتے ہوئے صدر نے کہا کہ حالیہ مہینوں میں غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ، براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں بہتری اور اسٹاک مارکیٹ میں تیزی جیسے مثبت اشاریے دیکھنے میں آئے ہیں۔ انہوں نے شرح سود میں کمی کو بھی ایک مثبت پیش رفت قرار دیا، مگر ساتھ ہی انتظامی مشینری کو فعال بنانے اور آبادی کے بڑھتے ہوئے دباؤ کو مدنظر رکھتے ہوئے مؤثر حکمت عملی اپنانے پر بھی زور دیا۔
تعلیم، صحت، انفراسٹرکچر، اور معیشت کے دیگر پہلوؤں پر بھی صدر نے حکومت کو متوجہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بجٹ میں تعلیم کے لیے زیادہ فنڈ مختص کیے جانے چاہئیں اور نوجوانوں کو مزید مواقع فراہم کیے جانے چاہئیں، تاکہ وہ ملکی ترقی میں مؤثر کردار ادا کر سکیں۔ انہوں نے زراعت کو مستحکم بنانے اور پانی کے وسائل کو دانشمندانہ طریقے سے استعمال کرنے پر بھی زور دیا، تاکہ مستقبل میں غذائی قلت جیسے مسائل سے بچا جا سکے۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) اور گوادر بندرگاہ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہ منصوبے پاکستان کے لیے کلیدی اہمیت رکھتے ہیں، اور انہیں مکمل طور پر عملی جامہ پہنانا ہوگا تاکہ ملک بین الاقوامی تجارتی مرکز کے طور پر ابھر سکے۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ حکومت کو سرمایہ کاری کے لیے مزید سازگار ماحول پیدا کرنا چاہیے تاکہ ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کار زیادہ اعتماد کے ساتھ پاکستان میں سرمایہ کاری کر سکیں۔
صدر نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سیکیورٹی اداروں کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کیا اور اس بات پر زور دیا کہ دہشت گردی کے مسئلے کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے محرومیوں اور ناانصافیوں کا خاتمہ بھی ضروری ہے۔ ان کے مطابق، بدامنی اور انتہا پسندی کی بڑی وجوہات میں سے ایک معاشی اور سماجی ناہمواری ہے، جس پر قابو پانے کے لیے پس ماندہ علاقوں میں ترقیاتی کاموں کو تیز کرنا ہوگا۔
انہوں نے خارجہ پالیسی پر بات کرتے ہوئے چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ترکی جیسے ممالک کے ساتھ تعلقات کو مزید مستحکم کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے امریکہ کے ساتھ انسداد دہشت گردی میں حالیہ تعاون کو خوش آئند قرار دیا اور کہا کہ اس نوعیت کے تعلقات کو مزید فروغ دینا چاہیے۔ اس کے علاوہ، پاکستان نے ہمیشہ مسئلہ کشمیر پر اپنے اصولی مؤقف کو برقرار رکھا ہے اور فلسطین کے حق میں بھی آواز بلند کی ہے، جس کا ذکر صدر نے اپنے خطاب میں دہرایا۔
صدر زرداری کا یہ خطاب ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب حکومتی اتحادی جماعتوں میں اختلافات شدت اختیار کر چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی مسلسل یہ شکوہ کر رہی ہے کہ حکومت اس سے کیے گئے وعدے پورے نہیں کر رہی، خاص طور پر پنجاب میں پارٹی کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ ان اختلافات کے باعث حکومتی اتحاد میں دراڑیں پڑنے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ صدر کے خطاب سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ وفاقی اکائیوں کے درمیان ہم آہنگی کے لیے کوشاں ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ سیاسی مفاہمت کے ذریعے معاملات حل کیے جائیں۔
صدر نے جمہوری رویے اختیار کرنے اور تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر چلنے کا مشورہ دیا۔ ان کے بقول، پارلیمنٹ ہی وہ جگہ ہے جہاں اجتماعی مفادات کے لیے کام کیا جا سکتا ہے اور عوام کے مسائل کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے اراکین پارلیمنٹ کو ہدایت دی کہ وہ محدود سیاسی مقاصد سے بالاتر ہو کر سوچیں اور ملک کی بہتری کے لیے متفقہ فیصلے کریں۔
اس خطاب کے دوران حزب اختلاف کی طرف سے احتجاج بھی جاری رہا، مگر صدر نے اپنے خیالات کا کھل کر اظہار کیا۔ ان کی تقریر کا ایک بڑا حصہ قومی مفادات، جمہوری اقدار اور معیشت کی بحالی کے ارد گرد گھومتا رہا، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پاکستان کو درپیش چیلنجز کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تمام ادارے اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھائیں۔
مجموعی طور پر، صدر زرداری کا خطاب ایک متوازن اور حقیقت پسندانہ تجزیہ تھا۔ انہوں نے جہاں حکومت کی کچھ کامیابیوں کو سراہا، وہیں اس کی کوتاہیوں کی نشاندہی بھی کی۔ ان کا سب سے بڑا پیغام یہی تھا کہ ملکی ترقی کے لیے اتحاد اور اجتماعی سوچ ناگزیر ہے۔ اگر حکومت اور حزب اختلاف اس پیغام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے میں کامیاب ہو جائیں، تو پاکستان ایک بہتر اور مستحکم مستقبل کی جانب گامزن ہو سکتا ہے۔
ایک سال بعد
حکومت کو قائم ہوئے ایک سال مکمل ہو چکا ہے۔ یہ ایک ایسا موقع ہے جہاں کارکردگی کا جائزہ لینا، کامیابیوں کو سراہنا اور کمزوریوں کو سمجھنا ضروری ہے۔ وزیر اعظم نے اپنی حکومت کی کارکردگی پر روشنی ڈالتے ہوئے کئی اہم کامیابیوں کا ذکر کیا، لیکن ساتھ ہی یہ اعتراف بھی کیا کہ معیشت اب بھی بڑے چیلنجز کا شکار ہے۔
حکومت کے لیے سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ ملک دیوالیہ ہونے سے بچ گیا۔ سات ارب ڈالر کے عالمی مالیاتی ادارے کے بیل آؤٹ پیکیج کے بغیر شاید معیشت مزید بدحالی کا شکار ہو جاتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت نے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کیا، ترسیلات زر میں اضافہ کیا اور مالی نظم و ضبط قائم کرنے کی کوشش کی۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ معاشی استحکام حاصل کر لیا گیا ہے۔ درآمدات میں اضافے اور برآمدات میں کمی کے باعث معاشی خطرات اب بھی منڈلا رہے ہیں۔ سرمایہ کاری کے دروازے کھولنے کی بات کی جا رہی ہے، مگر عملی طور پر کچھ زیادہ پیش رفت نہیں ہو سکی۔
براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کے حوالے سے حکومتی دعوے تو بہت ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ اب تک صرف مفاہمتی یادداشتیں طے پائی ہیں، عملی سرمایہ کاری کی رفتار انتہائی سست ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے کے بغیر دوست ممالک نے بھی مدد کرنے میں پس و پیش سے کام لیا، جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنا اب بھی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ اس وقت صنعت و حرفت زوال پذیر ہیں، اور ملکی پیداوار میں اضافہ نہ ہونے کے باعث سرمایہ کاری کا ماحول بھی سازگار نہیں ہو رہا۔
سرکاری اداروں کی نجکاری کا معاملہ بھی حکومت کے لیے ایک درد سر بنا ہوا ہے۔ قومی ایئرلائن کی نجکاری کا طریقہ کار انتہائی ناقص رہا، جس سے حکومت کی حکمت عملی پر سوالیہ نشان لگ گیا۔ خسارے میں چلنے والے اداروں کو پرائیویٹ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، لیکن عملی طور پر کوئی ٹھوس اقدام ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ دوسری طرف، حکومتی اخراجات میں کمی کے بجائے اضافہ کر دیا گیا۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کے باعث مالی دباؤ بڑھ چکا ہے۔ ایسے میں عوام پر مزید ٹیکسوں کا بوجھ ڈال کر حکومت اپنے اخراجات پورے کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جس سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔
یہ کہنا تو آسان ہے کہ ملک دیوالیہ ہونے سے بچ گیا، مگر عام آدمی کے لیے حالات پہلے سے زیادہ خراب ہو چکے ہیں۔ روزمرہ اشیا کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، توانائی کے نرخ قابو سے باہر ہو چکے ہیں، اور بنیادی سہولتیں ناپید ہوتی جا رہی ہیں۔ غربت اور بے روزگاری میں کمی کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی۔ عوام کے لیے صرف دعوے کافی نہیں، عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔
اگر حکومت کی مجموعی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو معاشی میدان کے علاوہ جمہوری اقدار اور شہری آزادیوں کے حوالے سے بھی کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔ آزادی اظہار کے معاملے میں صورت حال مایوس کن رہی۔ صحافیوں اور میڈیا اداروں کو دباؤ میں رکھنے کی پالیسی بدستور جاری رہی، اور اختلاف رائے کو برداشت کرنے کا رجحان کمزور سے کمزور تر ہوتا گیا۔ میڈیا پر قدغنیں عائد کرنے اور سچ بولنے والوں کو دبانے کی روش نے حکومت کے جمہوری تشخص کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
سیاسی آزادیوں کی بات کی جائے تو ایک سال کے دوران مخالفین کے لیے سیاسی میدان مزید تنگ کر دیا گیا۔ گرفتاریوں، مقدمات اور سیاسی انتقامی کارروائیوں کی روایت نہ صرف برقرار رہی بلکہ اس میں شدت بھی آئی۔ انتخابات کے آزادانہ اور شفاف ہونے پر بھی سوالات اٹھتے رہے، اور سیاسی استحکام کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔ ایک جمہوری حکومت سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ سیاسی مخالفین کے لیے دروازے بند کرنے کے بجائے ان کے ساتھ مکالمے اور افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کرے، لیکن بدقسمتی سے ایسا کچھ ہوتا نظر نہیں آیا۔
عدلیہ کی آزادی کے حوالے سے بھی مایوس کن صورت حال سامنے آئی۔ عدالتی فیصلوں پر کھلم کھلا تبصرے کیے گئے، دباؤ ڈالنے کی کوششیں ہوئیں اور عدلیہ کو متنازع بنانے کی روش جاری رہی۔ انصاف کا حصول پہلے ہی ایک مشکل مرحلہ تھا، لیکن اب اس پر عدم اعتماد مزید بڑھ گیا ہے۔ اگر عدلیہ آزاد نہ ہو، فیصلے دباؤ میں کیے جائیں اور عدالتوں کے احترام میں کمی آئے تو یہ کسی بھی جمہوری نظام کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔
خارجہ پالیسی کے محاذ پر حکومت نے دوست ممالک کے ساتھ تعلقات مضبوط بنانے کی کوشش کی، مگر عام پاکستانیوں کے لیے ویزوں کے حصول میں مشکلات پہلے سے بڑھ چکی ہیں۔ مغربی ممالک اور خلیجی ریاستوں کی سخت پالیسیوں کے باعث بیرون ملک پاکستانیوں کے مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے، جو ترسیلات زر کے لیے ایک خطرے کی علامت ہے۔ اگر حکومت اس مسئلے پر سنجیدگی سے کام نہیں کرتی تو معیشت کو ایک اور دھچکا لگ سکتا ہے۔
حکومت کا ایک سال مکمل ہو چکا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم واقعی آگے بڑھ رہے ہیں؟ اگرچہ معیشت کو وقتی سہارا ملا، مگر معاشی استحکام کا خواب ابھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا۔ سیاسی، صحافتی اور عدالتی آزادیوں کا حال بھی کچھ اچھا نہیں۔ اگر حکومت نے اپنی پالیسیاں تبدیل نہ کیں، غیر ضروری اخراجات میں کمی نہ کی، اور عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے عملی اقدامات نہ کیے، تو آنے والا وقت مزید مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔ عوام دعوے نہیں، نتائج چاہتے ہیں، اور اگر حکومت انہیں مطمئن کرنے میں ناکام رہی تو اگلے سال کا جائزہ شاید اس سے بھی زیادہ تلخ ہو۔
مانیٹری پالیسی برقرار : معیشت جامد یا مستحکم؟
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے حالیہ مانیٹری پالیسی اجلاس میں شرح سود کو بارہ فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب ملک میں مہنگائی کی شرح کم ترین سطح پر پہنچ چکی ہے اور معیشت سست روی کا شکار ہے۔ ماہرین کی رائے اس بارے میں منقسم ہے۔ کچھ اسے اقتصادی استحکام کے لیے ضروری قرار دے رہے ہیں جبکہ دیگر کے نزدیک یہ فیصلہ ترقی کی رفتار کو مزید کم کر سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آیا اسٹیٹ بینک کی یہ پالیسی معیشت کے لیے سود مند ثابت ہوگی یا پھر کاروباری سرگرمیوں پر منفی اثر ڈالے گی؟
فروری کے مہینے میں مہنگائی کی شرح کم ہو کر ڈیڑھ فیصد رہ گئی، جو کہ تقریباً ایک دہائی کی کم ترین سطح ہے۔ اس کمی کی بنیادی وجہ اشیائے خور و نوش اور توانائی کی قیمتوں میں کمی کو قرار دیا جا رہا ہے۔ مگر مرکزی بینک نے خبردار کیا ہے کہ خوراک اور توانائی کی قیمتوں میں دوبارہ اضافے کا خدشہ ہے، جو آئندہ مہینوں میں مہنگائی کو پھر سے بڑھا سکتا ہے۔ ماہرین کا بھی یہی کہنا ہے کہ رواں سال کی پہلی سہ ماہی میں مہنگائی اپنی کم ترین سطح پر پہنچنے کے بعد دوبارہ بڑھنے کا امکان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسٹیٹ بینک نے سود کی شرح کو کم کرنے کے بجائے برقرار رکھنے کو ترجیح دی، تاکہ مستقبل میں قیمتوں میں استحکام قائم رکھا جا سکے۔
معاشی ماہرین کی رائے میں حالیہ فیصلہ محتاط حکمت عملی کا عکاس ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ خدشہ بھی ہے کہ اس پالیسی سے کاروباری سرگرمیوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ شرح سود جتنی زیادہ ہوگی، قرض لینا اتنا ہی مہنگا ہوگا، جس کے باعث سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہوگی اور کاروبار متاثر ہوں گے۔ اس وقت پاکستان کی معیشت پہلے ہی کئی مسائل سے دوچار ہے۔ بڑی صنعتوں کی پیداوار میں کمی واقع ہو رہی ہے، جس کے باعث روزگار کے مواقع محدود ہو رہے ہیں اور مجموعی اقتصادی ترقی کی رفتار سست ہو رہی ہے۔
اگرچہ بعض شعبوں میں بہتری کے آثار نظر آ رہے ہیں، جیسے گاڑیوں کی فروخت اور نجی شعبے کو دیے جانے والے قرضوں میں اضافہ، مگر مجموعی طور پر صنعتی پیداوار تاحال دباؤ کا شکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں معمولی کمی کر دی ہوتی تو معیشت کو مزید سہارا مل سکتا تھا۔
اکثر ماہرین نے توقع ظاہر کی تھی کہ اسٹیٹ بینک شرح سود میں مزید کمی کرے گا۔ ایک حالیہ تجزیے کے مطابق، بیشتر معاشی ماہرین نے اندازہ لگایا تھا کہ سود کی شرح میں پچاس سے سو پوائنٹس کی کمی کی جائے گی۔ مگر مرکزی بینک نے مالیاتی استحکام کو ترجیح دیتے ہوئے کسی بھی فوری تبدیلی سے گریز کیا۔ کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق، جنوری میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھنے اور زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کے باعث اسٹیٹ بینک نے محتاط رویہ اختیار کیا ہے۔ البتہ، اگر مہنگائی کی شرح مزید کم ہوتی ہے، تو آنے والے مہینوں میں سود کی شرح میں کمی کا امکان موجود رہے گا۔
کاروباری حلقے عمومی طور پر کم شرح سود کے حامی ہوتے ہیں کیونکہ اس سے سرمایہ کاری میں اضافہ ہوتا ہے اور تجارتی سرگرمیاں فروغ پاتی ہیں۔ اگر شرح سود زیادہ رہے گی تو کاروبار کے لیے قرض لینا مہنگا ہوگا، جس کا براہ راست اثر اقتصادی سرگرمیوں پر پڑے گا۔ اسٹیٹ بینک کے حالیہ فیصلے پر بھی کاروباری برادری میں ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے۔ کچھ ماہرین کے مطابق، شرح سود میں کمی سے کاروباری طبقے کو سہولت مل سکتی تھی، لیکن بعض کا کہنا ہے کہ اسٹیٹ بینک کو افراطِ زر کو قابو میں رکھنے کے لیے سخت مالیاتی پالیسی پر عمل پیرا رہنا چاہیے۔
حکومت کے لیے بھی مالیاتی چیلنجز کم نہیں ہیں۔ مالی سال کے ابتدائی چھ مہینوں میں ٹیکس وصولیوں کا ہدف پورا نہیں ہو سکا جبکہ حکومتی اخراجات میں کوئی نمایاں کمی نہیں آئی۔ اگر ٹیکس وصولیوں میں بہتری نہ آئی تو مالیاتی خسارہ مزید بڑھ سکتا ہے، جس سے ملکی معیشت پر مزید دباؤ پڑے گا۔ اسٹیٹ بینک نے بھی اپنی رپورٹ میں اس بات پر زور دیا ہے کہ حکومت کو مالیاتی استحکام کے لیے ٹیکس اصلاحات کو ترجیح دینی ہوگی اور غیر ضروری اخراجات میں کمی لانا ہوگی۔
عالمی اقتصادی صورتحال بھی غیر یقینی کا شکار ہے۔ توانائی کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ، تجارتی تنازعات اور دیگر عالمی عوامل بھی پاکستانی معیشت پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ اگر عالمی سطح پر اقتصادی عدم استحکام برقرار رہا تو پاکستان کے لیے برآمدات میں اضافہ کرنا مشکل ہو سکتا ہے، جس کا اثر زرمبادلہ کے ذخائر اور مجموعی معیشت پر پڑے گا۔
اسٹیٹ بینک کے حالیہ فیصلے کا حتمی نتیجہ آنے والے مہینوں میں واضح ہوگا۔ اگر مہنگائی کی شرح قابو میں رہتی ہے اور معیشت میں بہتری کے آثار نمایاں ہوتے ہیں، تو اسٹیٹ بینک کا یہ فیصلہ درست ثابت ہوگا۔ تاہم، اگر معاشی ترقی کی رفتار مزید سست ہو جاتی ہے اور کاروباری سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں، تو ممکن ہے کہ مرکزی بینک کو جلد ہی اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنی پڑے۔
پاکستانی معیشت اس وقت ایک نازک موڑ پر ہے اور ہر مالیاتی فیصلہ مستقبل پر گہرے اثرات ڈال سکتا ہے۔ ایسے میں اسٹیٹ بینک اور حکومت کو متوازن حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی، تاکہ اقتصادی استحکام اور ترقی کے اہداف کو بیک وقت حاصل کیا جا سکے۔