آج کی تاریخ

نمو کا زوال، غربت کا جال

پاکستان کی معیشت ایک بار پھر عالمی مالیاتی اداروں کے اندازوں میں گھری ہوئی ہے، اور بدقسمتی سے یہ اندازے امید کی نوید نہیں بلکہ مایوسی کا پیغام لیے ہوئے ہیں۔ ایشیائی ترقیاتی بینک نے حالیہ رپورٹ میں پاکستان کی اقتصادی ترقی کی شرح کو 3.5 فیصد کے سرکاری ہدف اور آئی ایم ایف کے سابقہ اندازے 3.2 فیصد سے کم کرتے ہوئے صرف 2.5 فیصد کر دیا ہے۔ یہ کٹوتی نہ صرف اعداد و شمار کی بازیگری ہے بلکہ ایک گہرے معاشی بحران کی عکاسی بھی کرتی ہے، جس کے اثرات روزمرہ زندگی سے لے کر قومی پالیسیوں تک واضح طور پر محسوس کیے جا رہے ہیں۔
یہ حقیقت بھی قابل غور ہے کہ آئی ایم ایف کے 25 مارچ کے اعلامیے میں اگرچہ نمو کی شرح میں ممکنہ کمی کا ذکر نہیں تھا، مگر “شاملاتی ترقی” کی اصطلاح جس تناظر میں استعمال ہوئی، وہ دراصل ایسے اقدامات کی طرف اشارہ کرتی ہے جو قلیل مدتی ترقی کو مزید نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ کرپشن کے خلاف ادارہ جاتی اصلاحات، تجارتی رکاوٹوں کا خاتمہ، سبسڈی کا خاتمہ، اور غیر ملکی و مقامی سرمایہ کاروں کے لیے یکساں مراعات — یہ سب وہ نکات ہیں جو کاغذ پر تو دلکش معلوم ہوتے ہیں لیکن ایک ایسے ملک میں جہاں پیداواری شعبے پہلے ہی زوال کا شکار ہیں، یہ پالیسیاں وقتی طور پر ترقی کی رفتار کو مزید سست کر سکتی ہیں۔
ورلڈ بینک نے بھی ترقی کی شرح کو 2.8 فیصد پر محدود کرتے ہوئے معیشت کی کمزور حالت کی تصدیق کی ہے، اور زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ اس کے مطابق غربت کی سطح 42.3 فیصد پر برقرار رہنے کا امکان ہے — جو کہ کووڈ کے دور کی سطح سے زیادہ مختلف نہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ مزید 18 لاکھ افراد خطِ غربت سے نیچے جا سکتے ہیں۔ اس صورتحال میں جب اجرتوں اور روزگار میں اضافے کی رفتار سست ہو چکی ہو، مہنگائی ایک وقت میں آسمان سے باتیں کرتی رہی ہو، اور آبادی میں اضافہ مسلسل جاری ہو، تو عام شہری کے لیے امید کا دامن تھامنا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔
اس تمام منظرنامے میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے بھی اپنی رپورٹ میں ترقی کی رفتار کو 2.5 فیصد قرار دیتے ہوئے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ اگرچہ مالی سال 2024 میں کچھ بہتری نظر آئی تھی، تاہم نئے مالی سال کے پہلے سہ ماہی میں سست روی نمایاں رہی۔ بالخصوص زرعی اور خدمات کے شعبوں سے توقعات وابستہ تھیں، لیکن بڑے پیمانے کی صنعتوں کی منفی نمو نے مجموعی منظرنامے کو دھندلا دیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پالیسی ریٹ میں کمی کے باوجود صنعتی سرگرمی میں بہتری نہیں آ سکی، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ مسئلہ صرف مالیاتی پالیسی کا نہیں بلکہ ڈھانچہ جاتی مسائل کا ہے۔
بین الاقوامی منظرنامے میں بھی پاکستان کو نئے چیلنجز کا سامنا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے پاکستان پر عائد ممکنہ تجارتی محصولات کو 90 دن کے لیے مؤخر کرنا وقتی ریلیف تو ہو سکتا ہے، لیکن عالمی تجارتی نظام میں تیز رفتار تبدیلیاں اور امریکہ کا چین پر اقتصادی دباؤ ایسے عوامل ہیں جن کا براہ راست اثر پاکستان جیسے درآمد و برآمد پر انحصار کرنے والے ممالک پر پڑے گا۔ ایسے میں جب دنیا متبادل تجارتی راستوں اور کرنسیوں کی طرف جا رہی ہے، پاکستان کا پرانا اور محدود تجارتی وژن اب مزید قابل عمل نہیں رہا۔
یہ امر افسوسناک ہے کہ دہائیوں سے ’میڈ اِن پاکستان‘، ’اپنا مال خریدیں‘ اور ’پاکستان کو خودمختار بنائیں‘ جیسے نعرے تو سننے کو ملتے ہیں لیکن ان کے پیچھے کوئی ٹھوس پالیسی یا ادارہ جاتی حکمت عملی موجود نہیں رہی۔ وزارت تجارت صرف پانچ بڑے برآمدکنندگان کو مراعات دینے کی دوڑ میں لگی رہی، جبکہ نئی منڈیاں تلاش کرنے کی اصل ذمہ داری کو نظرانداز کیا گیا۔ یہ کوتاہی اب ہمیں شدید نقصان کی شکل میں نظر آ رہی ہے۔
حالیہ صورت حال کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ معیشت کی یہ سست روی ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب عوام پہلے ہی مالی بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں، اور حکومت اصلاحات کے نام پر محض موجودہ ٹیکس دہندگان کو مزید نچوڑنے میں مصروف ہے۔ ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے، غیر پیداواری اخراجات کو کم کرنے، اور آمدنی میں پائیدار اضافے جیسے اقدامات کہیں دکھائی نہیں دیتے۔ جب تک حکومت اپنی مالیاتی پالیسیاں درست نہیں کرتی اور اندرونی و بیرونی قرضوں پر انحصار کم نہیں کرتی، معیشت کا پہیہ مکمل رفتار سے نہیں چل سکے گا۔
اب وقت آ چکا ہے کہ حکومت محض آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے معیشت کو نقصان پہنچانے والے فیصلے کرنے کے بجائے خود اپنے اخراجات پر قابو پائے۔ اگلے بجٹ میں اگر واقعی 2 سے 3 کھرب روپے کے اخراجات کم کیے جا سکیں تو حکومت نہ صرف اپنی عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ گفت و شنید میں بہتر پوزیشن حاصل کر سکتی ہے بلکہ ترقیاتی منصوبوں پر بھی بھرپور توجہ دی جا سکتی ہے۔
یقیناً ترقی کی شرح کا 2.5 فیصد پر ٹھہر جانا کوئی عام بات نہیں۔ یہ ہمارے اقتصادی نظم و نسق کی ناکامی، پالیسیوں کی غیر یقینی صورتحال، اور اصلاحاتی جذبے کے فقدان کا آئینہ ہے۔ اگر اب بھی ہم نے سنجیدہ اقدامات نہ کیے تو آنے والے دنوں میں صرف نمو ہی نہیں بلکہ قومی خودمختاری بھی داؤ پر لگ سکتی ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ معیشت کو صرف بیرونی توقعات سے نہیں، بلکہ داخلی اصلاحات، طویل مدتی پالیسیوں اور عوامی فلاح پر مبنی فیصلوں سے مضبوط بنایا جائے — کیونکہ ترقی صرف اعداد کا کھیل نہیں، بلکہ عوام کی زندگی میں بہتری کا نام ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں