ملتان (میاں غفار سے) پنجاب اور سندھ کی حکومتوں کی گندم کے حوالے سے غیر ذمہ دارانہ اور ناقص منصوبہ بندی کے نتائج ابھی سے آنا شروع ہو گئے ہیں اور اب جو صورتحال سامنے آرہی ہے اس کے مطابق پاکستان کی بہترین کوالٹی کی گندم یعنی اے گریڈ کی گندم فیڈ ملوں کے ذریعے پاکستان کی برائیلر مرغیاں اور پالتو جانور کھائیں گے جبکہ چھ سے آٹھ ماہ بعد حکومت پاکستان اربوں روپے کا زرمبادلہ خرچ کر کے بیرونی ممالک سے تیسرے درجے کی غیر معیاری اور تھرڈ کلاس گندم منگوا کر پاکستانی عوام کو کھلائے گی ۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ملک بھر کی فیڈ ملز، فلور ملز اور ذخیرہ اندوزبینکوں سے لی گئی لمٹ کے پیسے سے 2200 روپے سے 2400 روپے من کے حساب سے دھڑا دھڑ دن رات گندم خرید اور سٹاک کر رہے ہیں۔ اب چونکہ حکومت پنجاب اور حکومت سندھ سرے سے گندم خرید ہی نہیں رہی تو بینکوں کے پیسے سے ذخیرہ اندوزوں کے وارے نیارے ہو رہے ہیں اور گندم کے کاروبار سے منسلک تجربہ کار افراد کے مطابق اگلے چھ سے آٹھ ماہ میں یہی گندم 3500 سے 3600 روپے فی من تک باآسانی پہنچ جائے گی اور ملک بھر میں ذخیرہ اندوزوں کو سپلائی دینے والے گندم کے آڑھتیوں کے مطابق رواں سال میں سٹاکسٹ حضرات 38 سے 40 لاکھ ٹن گندم سٹاک کر جائیں گے۔اس طرح بینکوں کو سود و سٹوریج اخراجات دے کر بھی چھ سے آٹھ ماہ میں 400 سے 450 ارب بھر کے ذخیرہ اندوز روپے کما جائیں گے جبکہ یہ ذخیرہ اندوز اپنی جیب سے ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کریں گے۔ حیران کن امر یہ ہے کہ جن فلور مل مالکان کی ملز گزشتہ سالوں سے بند ہیں ۔ انہوں نے گزشتہ سالوں میں ایک بوری بھی آٹا نہیں بنایا وہ بھی بینکوں کی لمٹ سے گندم سٹاک کرکے اربوں روپیہ کما جائیں گے۔ ملک بھر کے ذخیرہ اندوزوں کو بینکوں کو کلیئر کرنے کے بعد بھی دو ہزار سے 2200 روپے فی بوری باسانی بچ جائیں گے۔ دوسری طرف گندم کی قلت کی وجہ سے حکومت پاکستان یوکرین اور دیگر ممالک سے غیر معیاری گندم امپورٹ کرکے چند خاندانوں کو نواز کر جہاں اربوں روپیہ اربوں ڈالر کا زر مبادلہ خرچ کرے گی وہیں پر غیر معیاری گندم سے پاکستانی عوام کی صحت سے بھی کھلواڑ کرے گی۔ گندم کی تقدیر کا یہی نوحہ گزشتہ سال بھی اسی طرح لکھا گیا تھا اور رواں سال بھی اسی طرح دہرایا جائے گا۔
