آج کی تاریخ

مہنگائی میں کمی، ریلیف کا سوال

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کے حالیہ بیان میں جہاں مہنگائی میں نمایاں کمی کی خوشخبری دی گئی، وہیں یہ سوال بھی جنم لیتا ہے کہ آیا اس کمی کے ثمرات واقعی عام آدمی تک پہنچ رہے ہیں یا نہیں۔ پاکستان میں صارف قیمت اشاریہ (CPI) کی بنیاد پر مہنگائی مارچ 2025 میں صرف 0.7 فیصد ریکارڈ کی گئی — جو گزشتہ تین دہائیوں میں سب سے کم سطح ہے۔ اس کے باوجود روزمرہ زندگی میں شہری اب بھی مہنگائی کا عملی بوجھ محسوس کرتے ہیں۔ وزیر خزانہ نے درست کہا کہ اس بہتری کے ثمرات عوام کو منتقل ہونے چاہییں، لیکن محض ارادہ کافی نہیں — اس کے لیے مربوط عملی اقدامات درکار ہیں۔مہنگائی کی کمی بنیادی طور پر سبزیوں، مرغی اور دیگر اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں وقتی کمی کی مرہون منت ہے، جس کا اثر محدود اور ناپائیدار ہو سکتا ہے۔ حکومت کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ECC) اگرچہ حالات پر نگاہ رکھے ہوئے ہے، لیکن جب تک مارکیٹ کی نگرانی، مصنوعی قلت کی روک تھام، اور ذخیرہ اندوزی کے خلاف مؤثر کارروائی نہیں ہوگی، مہنگائی میں کمی کا فائدہ صرف کاغذوں تک محدود رہے گا۔وزیر خزانہ نے یہ بھی کہا کہ پاکستان نے مجموعی معاشی استحکام حاصل کر لیا ہے۔ بلاشبہ، پالیسی ریٹ میں واضح کمی، برآمدات میں 7 فیصد اضافہ، ترسیلات زر میں بہتری اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ مثبت علامات ہیں۔ لیکن ان کامیابیوں کا اصل امتحان تب ہے جب ان کے اثرات عوام کی زندگی میں آسانی کی صورت میں ظاہر ہوں — جیسے بجلی، گیس اور ایندھن کی قیمتوں میں کمی، بنیادی اشیاء کی فراہمی میں بہتری، اور روزگار کے مواقع کا فروغ۔وزیر خزانہ نے اس امر پر زور دیا کہ پاکستان کو اب آئی ایم ایف پر انحصار ختم کر کے اقتصادی خودمختاری کی طرف بڑھنا ہے۔ اس ہدف کے حصول کے لیے ٹیکس نظام کی شفافیت، شرحِ محصولات میں اضافہ، اور معیشت کے غیر رسمی شعبے کو رسمی دائرے میں لانا ناگزیر ہے۔ اس حوالے سے ٹیکس سے جی ڈی پی کا تناسب 10.6 فیصد تک پہنچانا قابل تعریف پیش رفت ہے، لیکن اسے 13.5 فیصد کے ہدف تک لے جانے کے لیے کمزور طبقات پر بوجھ ڈالنے کے بجائے، طاقتور طبقوں سے ٹیکس وصولی کو ترجیح دینا ہو گی۔محمد اورنگزیب نے جن دیگر شعبوں کی نجکاری اور اصلاحات کی بات کی، وہ بھی پاکستان کے معاشی ڈی این اے کی تبدیلی کے لیے ضروری ہیں۔ مگر اس سب کے باوجود، جب تک مہنگائی میں کمی کے فوائد براہ راست عوامی زندگی میں محسوس نہ ہوں، یہ بیانات صرف اعداد و شمار کی مشقیں بن کر رہ جائیں گے۔آخر میں، سوال وہی ہے جو وزیر خزانہ نے خود اٹھایا: کیا مہنگائی میں کمی کا فائدہ عام شہری کو ہو رہا ہے؟ اگر جواب نفی میں ہے، تو تمام معاشی بہتری بے سود ہے۔ اصل کامیابی تب ہوگی جب اشاریے سے زیادہ اشیاء سستی ہوں، اور زبانی دعووں کے بجائے بازار میں تبدیلی نظر آئے۔ تب ہی یہ کمی ایک خبر نہیں، عوام کے لیے حقیقی ریلیف بنے گی۔

شیئر کریں

:مزید خبریں