اسلام آباد: جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ بھارت سے جنگ کی صورت میں پوری قوم یک زبان ہوگی، لیکن اگر تنازع افغانستان سے ہوا تو قوم تقسیم کا شکار ہو جائے گی، جو ایک سنجیدہ معاملہ ہے اور اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے یکجہتی فلسطین و خدماتِ مولانا حامد الحق شہید کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مولانا سمیع الحق اور ان کے صاحبزادے کی یاد میں یہ اجتماع وقت کی ضرورت تھا۔ ہمارا تعلق ایسے مشن سے ہے جہاں شہادتیں ماتم کا نہیں، عزم اور مشن کے تجدید کا پیغام دیتی ہیں۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ہم ایک مسلسل تحریک ہیں، جنہیں آگے بڑھنا ہے، تحریکوں کے راستے میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں لیکن وہ اپنے مقصد پر پہنچ کر ہی دم لیتی ہیں۔ اکوڑہ خٹک جیسے دینی ادارے صرف درسگاہیں نہیں بلکہ نظریاتی قلعے ہیں، جنہوں نے انگریز سامراج کے خلاف طویل مزاحمت کی اور ہزاروں علماء نے اپنی جانیں قربان کیں۔
انہوں نے کہا کہ آج بھی وہی قوتیں مظلوموں کی حمایت کر رہی ہیں جو ماضی میں انگریزوں کی مزاحمت میں پیش پیش تھیں، جب کہ انگریزوں سے وفاداری کرنے والوں کو آج بھی نوازا جا رہا ہے۔
مولانا نے کہا کہ فلسطین اور افغانستان کے معاملات ایک جیسے ہیں، جیسے افغان طالبان کو دہشتگرد قرار دیا گیا ویسے ہی حماس کو بھی دہشتگرد تنظیم کہا گیا، لیکن ہم ان کو مجاہد مانتے ہیں اور ان کی جدوجہد کو سلام پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے اسماعیل ہنیہ سے ملاقات اور اظہار یکجہتی کا بھی ذکر کیا۔
فضل الرحمان نے کہا کہ اسرائیل کو تسلیم کرانے کی کوششیں ہو رہی ہیں لیکن پاکستان کی عوام ان سازشوں کے خلاف کھڑی ہے، اور ہماری تحریکوں نے ان لابیوں کے عزائم کو خاک میں ملا دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے قیام کے پیچھے سامراجی سازش ہے، اور فلسطینیوں کی زمینوں پر ناجائز قبضہ ہوا۔
انہوں نے عالمی اداروں پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ اور عالمی عدالتیں صرف کمزور ممالک کے لیے رہ گئی ہیں، جبکہ امریکہ اور مغرب اسرائیل جیسے جنگی مجرموں کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان نے افغانستان سے بہتر تعلقات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں ہمیشہ بھارت نواز حکومتیں آئیں اور ہم نے سفارتی طور پر موثر کردار ادا نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ ریاستی پالیسیاں ہمیں بربادی کی طرف دھکیل رہی ہیں، اور جب تک سیاسی قیادت متحد نہیں ہوگی، اس وقت تک سفارتی کامیابی ممکن نہیں۔
آخر میں انہوں نے پاک فوج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اعتراف کریں کہ آپ کی پشت پر کوئی مضبوط سیاسی طاقت موجود نہیں، اور یہ بھی کہا کہ ملکی دفاع کے لیے صرف عسکری نہیں بلکہ سیاسی بصیرت بھی ضروری ہے۔
