آج کی تاریخ

ملتان لودھراں منصوبہ روڈ ٹو کرپشن بن گیا، 6 ارب کی لاگت، 65 ارب کی ادائیگیاں

ملتان (عامر حسینی ) لودھراں تا ملتان 62 کلومیٹر طویل سڑک کی تعمیر کا منصوبہ جو ابتدا میں جنوبی پنجاب کے عوام کے لیے ایک سنگ میل سمجھا جا رہا تھا اب بدعنوانی، اقربا پروری اور سرکاری خزانے کی لوٹ مار کی ایک دل دہلا دینے والی مثال بن چکا ہے۔ اس منصوبے کا ابتدائی لاگت آٹھ ارب روپے مقرر کی گئی تھی جو ٹھیکے کے حصول کے وقت 26 فیصد کمی کے بعد تقریباً چھ ارب روپے میں الاٹ ہوئی۔ تاہم اس تمام مالیاتی تخمینہ اور لاگتی برتری کے باوجودیہ منصوبہ چار برس گزرنے کے باوجود مکمل نہیں ہو سکا بلکہ اس دوران تین ٹھیکے دار کمپنیوں نے مبینہ طور پر این ایچ اے کے افسران کی ملی بھگت سے قومی خزانے سے پینسٹھ ارب روپے سے زائد کی خطیر رقم ہڑپ کر لی۔پراجیکٹ ڈائریکٹر کے طور پر تعینات ہونے والے مجاہد کالرو کو اس بدعنوانی کا مرکزی کردار قرار دیا جا رہا ہے۔ موصوف کو سابق حکومت کے دور میں زکریا یونیورسٹی سے نیشنل ہائی وے اتھارٹی میں تعینات کیا گیا تھا، جہاں انہوں نے پراجیکٹ کی نگرانی کے بجائے بدعنوان کنٹریکٹرز، بشمول NXCC، سجاد گجر اور نعمان کنٹریکٹر، کے ساتھ ملی بھگت کر کے منصوبے کو محض ایک لوٹ مار کا ذریعہ بنا ڈالا۔ ذرائع کے مطابق منصوبہ انتہائی کم نرخ پر حاصل کرنے کے بعد بغیر کسی کام کے ابتدائی طور پر پینسٹھ کروڑ روپے کی ادائیگی کی گئی۔ کچھ ماہ بعد مزید پچاس کروڑ روپے جاری کیے گئے۔ معمولی سا کام، جیسے کہ سپر چوک تا کہروڑپکا موڑ کارپٹنگ اور کچھ ڈرینوں کی تیاری، وقتی طور پر کیا گیا مگر جلد ہی تمام مشینری اٹھا کر کام بند کر دیا گیا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ان ادائیگیوں کی بنیاد پر دی گئی بینک گارنٹی ایک چینی بینک سے جاری کی گئی، جو کہ پاکستانی قوانین اور پیپرا رولز کی کھلی خلاف ورزی تھی۔ان تمام بے ضابطگیوں کے باوجود نہ تو کمپنیز کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی کی گئی، نہ انہیں بلیک لسٹ کیا گیا، بلکہ حیران کن طور پر انہیں دیگر سرکاری منصوبے بھی سونپے جا رہے ہیں۔ ایف آئی اے میں شہری عبدالغفار کی شکایت پر انکوائری ضرور شروع ہوئی ہے، لیکن اسے روکنے یا موخر کرنے کی مختلف سازشیں بھی عروج پر ہیں۔ NXCC کمپنی نے جب معاملہ عدالت میں لے جا کر ثالثی کا سہارا لیا تو ثالث نے ان کے حق میں فیصلہ دیا کہ وہ اور ان کے جوائنٹ وینچر پارٹنرز کام مکمل کریں۔ مگر این ایچ اے افسران نے ثالثی کے فیصلے کو ماننے کے بجائے عدالت میں چیلنج کر دیا تاکہ منصوبہ مزید تاخیر کا شکار ہو۔ یہ عمل آربیٹریشن ایکٹ 1940 کی روح کے بھی خلاف ہے، جو ثالثی کے فیصلے کو حتمی اور نافذ العمل مانتا ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اب این ایچ اے کے کرپٹ افسران منصوبے کو منسوخ کروا کر مرمت کی مد میں شامل کرنے کی سازش کر چکے ہیں، تاکہ نئے کمیشن حاصل کیے جا سکیں۔ وزیر کو قائل کیا جا چکا ہے اور کسی بھی وقت منصوبہ منسوخی کا نوٹیفکیشن جاری ہو سکتا ہے۔ اگر یہ منصوبہ منسوخ ہوا اور مرمت کی مد میں مکمل کیا گیا تو لاگت 26 ارب روپے سے تجاوز کر جائے گی، جو عوام اور سرکار دونوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہو گا۔ اس سے پہلے بھی مرمت کے نام پر کروڑوں روپے ہر سال خرچ کیے جاتے رہے ہیں مگر اس کا کوئی پائیدار حل سامنے نہیں آیا۔ایف آئی اے انکوائری میں شکایت کنندہ عبدالغفار نے واضح کیا ہے کہ پاک پی ڈبلیو ڈی کے افسران پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ محکمہ پہلے ہی کرپشن کی وجہ سے بدنام ہے اور ان کے دیے گئے رپورٹس حقائق سے بعید ہوتی ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ منصوبے کی جانچ کسی مستند، غیر جانبدار اور تجربہ کار ادارے کے انجینئر سے کرائی جائے تاکہ شفاف رپورٹ سامنے آ سکے۔ دوسری جانب عوام کی جانب سے عدالت عظمیٰ، نیب اور ایف آئی اے سے پرزور مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ ثالثی کے فیصلے کا احترام کیا جائے، بدعنوان افسران کے خلاف فوری کارروائی کی جائے اور قومی خزانے کو مزید نقصان سے بچایا جائے۔یہ منصوبہ صرف ایک سڑک کی تعمیر کا نام نہیں، بلکہ یہ ہمارے اداروں کی شفافیت، دیانت اور احتساب کی آزمائش بھی ہے۔ اگر اب بھی اس اسکینڈل پر سنجیدگی سے کارروائی نہ کی گئی تو یہ نہ صرف مالی نقصان کا باعث بنے گا بلکہ سرکاری اداروں پر عوام کا اعتماد مکمل طور پر ختم کر دے گا۔

شیئر کریں

:مزید خبریں