
ملتان ( تجزیاتی رپورٹ:میاں غفار) پنجاب پولیس کا نظام شہریوںکیلئے ایک نہ ختم ہونے والا عذاب بنا دیا گیا ہے۔ اس نظام میں مقدمہ درج کرنے اور کرانے والے کیلئے آسانیاں ہی آسانیاں اور مقدمے میں پھنسے بے گناہ و شریف شہریوں کیلئے ایک نہ ختم ہونے والی اذیت۔ مقدمہ درج کر کے کسی کے بھی کردار کو داغ دار کرنا انتہائی آسان اور اس داغ کو مٹانا انتہائی مشکل بن جاتاہے۔ مقدمات کا اندراج منٹوں میں ، اخراج سالوں میں اور پھر پولیس ریکارڈ سے نام نکالنا کئی مہینوں اور درجنوں دفاتر کی دسترس میں چلاجاتاہے ۔ مقدمے کا اندراج تو ایک ہیڈ کانسٹیبل کے اختیار میں بھی شامل ہے اور اندراج مقدمہ کے بعد پولیس کے کریمنل ریکارڈ میں ملزم کا نام سسٹم میں خود بخود درج البتہ پولیس ریکارڈ سے اسی نام کا اخراج پنجاب پولیس کے سب سے بڑے آفس آئی جی آفس کی ذمہ داری گویا اندراج تھانے میں اور اخراج آئی جی آفس میں ہوتاہے۔ اکثر اوقات تو مقدمات درج کرنے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ پہلے سے درج مقدمات میں سے کسی ایک مقدمے میں محض ایک ضمنی تحریر لکھ کر کسی کو بھی ملزم بنا لیا جاتا ہے ۔ مگر یہ ملزم بنانے والا اسے بے گناہ ہونے کے بعد اس کا نام ریکارڈ سے خارج نہیں کر سکتا۔ صوبہ بھر کے لاکھوں بے گناہ اس پیچیدہ سسٹم کی وجہ سے سرکاری ریکارڈ میں اب بھی گناہ گار بنے ہوئے ہیں ۔ اور ان کیلئے ہر محکمے اور ہر شعبہ زندگی میں مسائل ہی مسائل ہیں۔ اس سسٹم کا ظلم کچھ یوں ہے کہ پولیس کے ایک زیر تربیت اے ایس آئی یا کسی بھی شہری خواہ اس کا کوئی بھی کردار ہو اتنا ہی وہ بھیانک ریکارڈ رکھتا ہو کسی بھی وقت اور کسی بھی تھانے میں کسی کے بھی خلاف وہ مقدمہ درج کروا کر مدعی بن سکتا ہے۔ پھر ملزم کے بے گناہ ہونے کی صورت میں پہلے اخراج رپورٹ بنے گی پھر متعلقہ عدالت اس اخراج رپورٹ سے اتفاق کرے گی۔ پھر عدالتی حکم کی مصدقہ کاپی حاصل کی جائے گی اور ایک درخواست لکھ کر مصدقہ کاپی و شناختی کارڈ کے ساتھ لگا کر ریجنل پولیس آفیسر جو کہ پنجاب میں صرف 10 ہیں اور تھانے تقریباً 400 سے زائدہیں کو دے دی جاتی ہے ۔ ریجنل پولیس آفس میں ڈی ایس پی لیگل اس درخواست کو دیکھتا ہے۔ پھر اس کو سی آر او برانچ کو بھیجا جاتا ہے پھر افسران کی ایک کمیٹی ایک ایک درخواست کو دیکھتی ہے۔ اس کمیٹی کا کنوینر از خود آر پی او جبکہ سیکرٹری ایس پی لیگل ہوتے ہیں۔ دیگر ممبران ایک ایک درخواست پر اپنی رائے دیتے ہیں پھر دستخطوں سے بھری یہ فائل آئی جی آفس بھجوا دی جاتی ہے۔ جہاں سے مارک ہونے کے بعد یہ سسٹم انالسٹ کے پاس جاتی ہے اور پھر کہیں جا کر ریکارڈ سے کسی بے گناہ کا نام خارج ہوتا ہے۔ اس طرح ایک نچلے درجے کے پولیس اہلکار کی نا اہلی ، لا پروائی ، معاشی ضرورت یا قانون سے عدم واقفیت کا خمیازہ پنجاب کے لاکھوں بے گناہ بھگتتے ہیں اور افسران پر بھی اضافی بوجھ پڑتا ہے۔ پنجاب میں آئے روز ایسی مثالیں بھی سامنے آتی ہیں کہ کسی مقدمے میں کوئی ڈیڑھ سے دو سال کا بچہ بھی ملزم قرار پا گیا اور کبھی کوئی اپنی چارپائی سے باتھ روم تک جانے سے معذور بوڑھا شخص کسی نہ کسی سنگین مقدمے میں دھر لیا گیا ۔ پنجاب پولیس پر ایسا وقت بھی آیا کہ صوبہ بھر کے تھانوں کو گرفتاریوں کے ٹارگٹ دیئے گئے پھر جو ہاتھ آیا ملزم قرار پایا۔ ایک طالبعلم کو اس کے والد نے نئی گاڑی لے کر دی۔وہ دوستوں کو دکھانے آیا اور پھر گاڑی کا معائنہ حوالات میں جا کر مکمل ہوا کہ پولیس نے گنتی پوری کرنے کیلئے چاروں کو دھر لیا۔ توجہ طلب امر یہ ہے کہ پولیس ریفارمز کمیٹی کے اجلاس روٹین میں ہوتے ہیں مگر اس طرف توجہ نہیں دی جا رہی ۔ اب آئی جی آفس سے ایک خط جاری ہوا ہے جس کے مطابق جو سمجھوتے کے نتیجے میں بری ہوتے ہیں ان کیلئے یہ سہولت میسر نہ ہے اور اس خط کا مقصد صرف بے گناہ افراد اور معمولی اور غیر سنگین جرائم کے حامل افراد کا نام ریکارڈ سے نکالنا ہے۔