ہر سال 3 مئی کو عالمی سطح پر یوم آزادی صحافت منایا جاتا ہے جس کا مقصد دنیا بھر میں صحافیوں کو درپیش مسائل، چیلنجز، قربانیوں اور آزادی اظہار رائے کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہوتا ہے۔ یہ دن اس حقیقت کو یاد دلانے کا موقع ہوتا ہے کہ آزاد اور ذمہ دار صحافت کسی بھی جمہوری معاشرے کا ستون ہوتی ہے۔ تاہم پاکستان میں صحافیوں کی حالت زار اس دن کی روح کے بالکل برعکس نظر آتی ہے۔
پاکستان میں صحافیوں کو صرف قلم اور کیمرہ اٹھانے پر قتل، تشدد، دھمکیوں، اغوا، معاشی دباؤ، سنسرشپ، قانونی چارہ جوئی اور روزگار کے عدم تحفظ جیسے سنگین خطرات کا سامنا ہے۔ ایسی فضا میں جہاں آزادی اظہار کو آہستہ آہستہ کچلا جا رہا ہووہاں صحافت صرف ایک پیشہ نہیں بلکہ ایک مسلسل جدوجہد بن جاتی ہے۔
پاکستان میں صحافیوں کو درپیش سب سے سنگین خطرہ ان کی جان کو لاحق ہے۔ صرف گزشتہ ایک سال کے دوران یعنی مئی 2024 سے اپریل 2025 کے درمیان 5 صحافیوں کو قتل کیا گیا۔ ان میں سندھ سے 3 اور خیبر پختونخوا سے 2 صحافی شامل تھے۔ اس کے علاوہ کم از کم 82 صحافیوں اور میڈیا ورکرز کو مختلف نوعیت کی دھمکیوں، تشدد، یا ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا۔فریڈم نیٹ ورک کی سالانہ رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا صحافیوں کیلئےسب سے خطرناک صوبہ رہا جہاں 22 کیسز رپورٹ ہوئے، اس کے بعد اسلام آباد میں 20، پنجاب میں 18، بلوچستان میں 4 اور آزاد جموں و کشمیر میں ایک کیس درج کیا گیا۔ ان اعداد و شمار سے واضح ہوتا ہے کہ پورے ملک میں صحافیوں کی سلامتی خطرے میں ہے۔
2025 میں صحافیوں کے خلاف قانونی کارروائیوں میں بھی نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ رپورٹ کے مطابق کم از کم 14 صحافیوں پر مقدمات بنائے گئے جن میں سے اکثریت الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام کے قانون (PECA) کے تحت تھے۔ ان میں سے 8 کیسز میں صحافیوں کو گرفتار یا حراست میں لیا گیا۔ PECA قانون میں جنوری 2025 میں کی گئی ترامیم نے صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ ان ترامیم کے بعد حکام کو صحافیوں اور ناقدین کے خلاف کارروائی کرنے کا ایک نیا اور آسان راستہ مل گیا ہے۔ یہ قانون بظاہر سائبردہشتگردی کے خلاف ہےلیکن اس کا استعمال زیادہ تر آزادی اظہار کو دبانے کیلئے کیا جا رہا ہے۔
پاکستان میں سنسرشپ ایک تلخ حقیقت بن چکی ہے۔ حکومت، ریاستی ادارے اور طاقتور مافیاز اکثر میڈیا پراثر انداز ہوتے ہیں اور ان کے خلاف خبریں شائع کرنا یا نشر کرنا خطرے سے خالی نہیں ہوتا۔ ایسے ماحول میں تحقیقاتی صحافت تقریباً ناممکن ہو چکی ہے۔صحافیوں پر بڑھتے ہوئے دباؤ کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ عام شہریوں کو وہ معلومات میسر نہیں آتیں جن تک ان کی رسائی آئینی حق ہے۔ میڈیا پر بڑھتی ہوئی پابندیاں اس بات کا اشارہ ہیں کہ جمہوریت کی بنیادیں متزلزل ہو رہی ہیں اور شہریوں کیلئے معلومات کا حصول محدود ہوتا جا رہا ہے۔
صحافی نہ صرف جسمانی اور قانونی خطرات کا شکار ہیں بلکہ معاشی لحاظ سے بھی بدترین حالات سے گزر رہے ہیں۔ بہت سے میڈیا اداروں نے مالی بحران کے باعث تنخواہوں میں کٹوتی کی ہے یا بروقت تنخواہیں ادا نہیں کی جاتیں۔ فری لانس صحافیوں کی حالت اس سے بھی بدتر ہےجنہیں کسی قسم کی سکیورٹی، میڈیکل یا قانونی تحفظ حاصل نہیں ہوتا۔مالی مشکلات کی وجہ سے متعدد صحافی مجبوراً اپنا شعبہ چھوڑ کر دیگر ذرائع معاش کی طرف راغب ہو چکے ہیں۔ اس سے نہ صرف شعبہ صحافت کو نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ سچائی اور عوامی مفاد کے تحفظ کی کوششیں بھی متاثر ہو رہی ہیں۔
فریڈم نیٹ ورک کی رپورٹ کے مطابق اگرچہ میڈیا میں خواتین کی نمائندگی میں وقت کے ساتھ بہتری آئی ہےمگر اب بھی نمایاں صنفی عدم مساوات موجود ہے۔ خواتین میڈیا ورکرز کو صنفی امتیاز، ہراسانی اور پیشہ ورانہ رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہےخاص طور پر فیلڈ رپورٹنگ میں۔
فریڈم نیٹ ورک کی 2025 کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کا میڈیا آج بقا کے سنگین بحران، بڑھتی ہوئی پابندیوں، خراب ہوتی سکیورٹی صورت حال اور روزگار کے غیر یقینی ماحول کا شکار ہے۔ یہ صورتحال پیشہ ورانہ صحافت کی سالمیت اور آزادی اظہار رائے دونوں کیلئےخطرہ بن چکی ہے۔
جنوری 2025 میں PECA قانون میں کی گئی ترامیم کے بعد صحافیوں اور ناقدین کو نشانہ بنانا مزید آسان ہو چکا ہےجس سے آزادی صحافت پر گہرا منفی اثر پڑا ہے۔رپورٹ کے مطابق ایک سال میں 5 صحافی قتل ہوئے، درجنوں کو دھمکیاں ملیں جبکہ کئی کو گرفتار یا مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔ خواتین صحافیوں کو صنفی چیلنجز کا سامنا ہے اور میڈیا پر سیاسی تقسیم، سنسرشپ اور غلط معلومات کے اثرات بھی بڑھ رہے ہیں۔رپورٹ میں آزادی اظہار پر آئینی ضمانت کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے تجویز دی گئی ہے کہ ملک میں ایک مضبوط قومی تحریک کی ضرورت ہے جو اختلاف رائے کے اظہار اور ڈیجیٹل حقوق کی حفاظت کرے۔ ایک نئے قومی چارٹر کے قیام کی بھی سفارش کی گئی ہے جو شہریوں کو آن لائن اور آف لائن آزادی اظہار کی مساوی ضمانت دے۔
پاکستان میں صحافی صرف خبریں نہیں دیتے وہ جمہوریت کے محافظ بھی ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے انہیں اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریوں کی ادائیگی کے دوران جان، عزت، آزادی اور روزگار کے خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عالمی یوم صحافت اس عزم کی تجدید کا موقع ہے کہ صحافیوں کو تحفظ فراہم کیا جائے، سنسرشپ ختم ہو اور آزاد، منصفانہ، اور عوامی مفاد پر مبنی صحافت کو فروغ دیا جائے۔ ورنہ وہ دن دور نہیں جب سچ بولنے والے لب ہمیشہ کیلئےخاموش ہو جائیں گے۔قلم کے مزدورآج اپناحق مانگتےہیں۔
