آج کی تاریخ

غیر قانونی کام، کرپشن کھلنے کا ڈر،جامعات معلومات پبلک کرنے کے بجائے چھپانے میں مصروف

ملتان (سٹاف رپورٹر) ملک بھر کی وفاقی اور صوبائی سطح کی یونیورسٹیوں میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں دائر شدہ ایڈیشنل چارج وائس چانسلرز کیس نمبر سی پی 07/2024 کے مورخہ 24 اکتوبر 2024 کے تحریری فیصلے میں سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے یہ حکم جاری کیا تھا کہ ایچ ای سی اور ایچ ای ڈی کو اپنی متعلقہ دائرہ اختیار میں یونیورسٹیوں کی سالانہ درجہ بندی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ معیار کے مطابق کرنی چاہئے اور ان تمام یونیورسٹیوں خواہ وہ سرکاری ہوں یا نجی یونیورسٹیاں، تمام کی تمام اپنی یونیورسٹی کی تمام تر معلومات یونیورسٹی کی ویب سائٹس پر عوامی آگاہی کے لئے پبلک کریں اور کسی بھی قسم کے فراڈ اور دھوکے سے باز رہیں مگر بیشتر سرکاری و نجی یونیورسٹیاں اپنی غیر قانونی کاموں اور کرپشن کو چھپانے کے لیے تمام تر معلومات ویب سائٹس پر پبلک نہیں کر رہیں اور کچھ معلومات درکار ہوں تو دینے سے گریز کرتی ہیں تاکہ ان کے ’’کرتوت‘‘ہا ئر ایجوکیشن کمیشن، ہا ئر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ، چانسلرز اور وزیر اعلیٰ کے سامنے نہ آ سکیں۔ کچھ عرصہ پہلے بھی یونیورسٹیوں سے جب ٹیچنگ اور نان ٹیچنگ سٹاف کی شرح پوچھی گئی تو صرف محمد نواز شریف یونیورسٹی آف ایگریکلچر ملتان اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور نے اخلاقیات کا مظاہرہ کرتے ہوئے معلومات فراہم کیں جبکہ بہا الدین زکریا یونیورسٹی ملتان، ایمرسن یونیورسٹی ملتان، خواتین یونیورسٹی ملتان، محمد نواز شریف یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ملتان، کامسیٹس یونیورسٹی ساہیوال کیمپس اپنی یہ معلومات دینے سے قاصر رہے تاکہ ان یونیورسٹیوں کے کچھ حقائق ہائر ایجوکیشن کمیشن اور ہا ئر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے سامنے نہ آ سکیں۔ جب تک یہ تمام کی تمام معلومات پبلک ہی نہ ہوں گی تو ہائر ایجوکیشن کمیشن اور ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کیسے سپریم کورٹ کے فیصلے کے عین مطابق ان اداروں کی درجہ بندی عالمی معیار اور قوانین کے مطابق کر سکتے ہیں۔ جہاں تک نجی یونیورسٹیوں کی بات ہے تو نجی یونیورسٹیاں تو اپنی ویب سائٹ پر ماسوائے سیٹھ یا مالک کی مدح سرائی کے، کوئی معلومات سرے سے ڈالتی ہی نہیں۔ لاہور کی ہی ایک نجی سیکٹر کی یونیورسٹی نیشنل کالج آف بزنس ایڈمنسٹریشن اینڈ اکنامکس کے ملتان، بہاولپور اور رحیم یار خان کیمپسز کی سرے سے کوئی ویب سائٹ ہی نہیںہے تو ایسی یونیورسٹی دیگر یونیورسٹیوں کی درجہ بندی میں کیسے آ سکتی ہے۔ حیران کن طور پر ان کیمپسز کے مالک ایک فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ کے مالک ہیں اور اس فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ کی ویب سائٹ تو باقاعدہ طور پر موجود ہے مگر اس یونیورسٹی کے ملتان، بہاولپور اور رحیم یار خان کیمپسز کی کوئی ویب سائٹ موجود نہیں ہےگویا مذکورہ مالک کے نزدیک علم سے خوراک اور دماغ سے پیٹ افضل ہے۔ چنانچہ اس طرح کی یونیورسٹیاں ڈگریاں تو دے رہی ہیں البتہ یہ نہیں معلوم کہ اس طرح کی یونیورسٹیوں میں معیار تعلیم کیسا ہے اور ہے بھی یا نہیں؟ لاہور کی اسی یونیورسٹی کے ملتان، بہاولپور اور رحیم یار خان کیمپسز میں تمام پروفیشنل ڈگریاں سادہ ڈگریوں کی طرح بغیر ایکریڈیشن کے دھڑا دھڑ دی جارہی ہیں مگر ہائر ایجوکیشن کمیشن کا کام صرف یونیورسٹی، کیمپس یا پھر ڈگری کی تصدیق کرنا بھی ہے یا بطور یونیورسٹیوں ریگولیٹر کے اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے سیٹھ مالکان کی نجی یونیورسٹیوں کو ریگولیٹ کرنا بھی ہے؟ اگر ریگولیٹری اتھارٹی ہی اپنی ذمہ داری صحیح طور انجام نہ دے پائے گی تو سرکاری یونیورسٹیاں اپنی لا قانونیت اور کرپشن چھپاتے رہیں گے اور نجی ادارے صرف غیر معیاری ڈگریاں جاری کرتے رہیں گے۔ توجہ طلب امر یہ ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کے عین مطابق ہائر ایجوکیشن کمیشن اور ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے یونیورسٹیوں کی درجہ بندی کی عالمی معیارات کے حوالے سے کوئی پالیسی تاحال وضع نہ کی ہے۔
جامعات معلومات

شیئر کریں

:مزید خبریں