ملتان (سٹاف رپورٹر) خواتین یونیورسٹی ملتان کے ریذیڈنٹ آڈیٹر کی جانب سےمیٹرک میں سیکنڈ ڈویژن کی حامل پرو وائس چانسلر ڈاکٹر کلثوم پراچہ کے ٹی اےڈی اے کے غیر قانونی بلوں پر اعتراضات اٹھانے، ریٹائرمنٹ سے ایک دن قبل دھوکا دہی سے منعقد کروائی جانے والی غیر قانونی سینڈیکیٹ سے دوبارہ ملازمت کا ایجنڈا دھوکا دہی سے منظور کروانے والی سابق رجسٹرار پروفیسر ڈاکٹر میمونہ یاسمین خان کے رجسٹرار کے ایڈیشنل چارج پر 6 ماہ سے زائد عارضی تعینات پر اعتراض اٹھانے اور پھر نیورو اینڈوکرائن کے عارضے میں مبتلا وائس چانسلر ڈاکٹر فرخندہ منصور کے مختلف بلوں اور ڈاکومنٹس پر مختلف دستخط کے شک و شبہ کی صورت میں خواتین یونیورسٹی ملتان کی عارضی خزانچی ڈاکٹر سارہ مصدق کو وائس چانسلر کے دستخط کی تصدیق کے حوالے سے لکھے جانے والے خطوط پر سیکنڈ ڈویژن کی حامل پرو وائس چانسلر ڈاکٹر کلثوم پراچہ اور عارضی تعینات قائم مقام رجسٹرار ڈاکٹر ملکہ رانی فنانس ڈیپارٹمنٹ گورنمنٹ آف پنجاب سے ڈیپوٹیشن پر آنے والے ریذیڈنٹ آڈیٹر کی دشمن بن گئیں اور سیکرٹری فنانس ڈیپارٹمنٹ گورنمنٹ آف پنجاب کو ریذیڈنٹ آڈیٹر کی خدمات واپس لینے کی بابت تیاریاں شروع کر دیں۔ یاد رہے کہ سیکنڈ ڈویژن کی حامل پرو وائس چانسلر ڈاکٹر کلثوم پراچہ اور سابقہ رجسٹرار ڈاکٹر میمونہ یاسمین خان پہلے بھی شدید عارضے میں مبتلا 56 دن کی چھٹی پر جانے والی وائس چانسلر کو ورغلا کر غیر قانونی سینڈیکیٹ منعقد کروا کر نا منظور ایجنڈا آئٹمز کو منظور شدہ لکھ کر بھیج چکی تھیں۔ جس کو روزنامہ قوم کی نشاندہی پر پہلے ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ ، پھر ہائر ایجوکیشن کمیشن ، پھر لا ڈیپارٹمنٹ گورنمنٹ آف پنجاب اور پھر ایڈیشنل سیکرٹری فنانس بھی اس غیر قانونی اور دھوکہ دہی کے باعث غیر منظور شدہ ایجنڈا آئٹمز کو منظور شدہ کرنے پر اعتراضات بھیج چکے ہیں۔ مگر سیکنڈ ڈویژن کی حامل پرو وائس چانسلر ڈاکٹر کلثوم پراچہ نے پہلے وائس چانسلر ڈاکٹر فرخندہ منصور کو اس طرف ورغلایا کہ ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ ، ہائیر ایجوکیشن کمیشن ، لاء ڈیپارٹمنٹ ، فنانس ڈیپارٹمنٹ کا ایک ایک ووٹ ہے مگر ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے شدید پریشر پر تمام دھوکے سے تبدیل شدہ ایجنڈا آئٹمز کو ٹھیک کر کے بھیجا گیا۔ سیکنڈ ڈویژن کی حامل پرو وائس چانسلر ڈاکٹر کلثوم پراچہ کے حوالے سے یونیورسٹی میں یہ بات عام ہے کہ ڈاکٹر کلثوم پراچہ یہ صاف کہتی نظر آتی ہیں کہ وائس چانسلر کوئی بھی آ جائے ، یونیورسٹی تو میں نے ہی چلانی ہے۔ ایک اور اہم معلومات کے مطابق ریزیڈنٹ آڈیٹر کی جانب سے خزانچی ڈاکٹر سارہ مصدق کو وائس چانسلر کے دستخط کی تصدیق کے لیے جو لیٹر لکھا گیا اس کے جواب میں بھی پرو وائس چانسلر ڈاکٹر کلثوم پراچہ نے ہی 3 دستخط کے نمونے ریذیڈنٹ آڈیٹر کو بذریعہ خزانچی بھجوائے جو کہ ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ دستخط کی تصدیق خزانچی کا کام تھا جس میں بھی پرو وائس چانسلر نے ناجائز مداخلت کی۔ کیونکہ وائس چانسلر کافی عرصے سے یونیورسٹی تشریف نا لائی ہیں۔ اور اس دوران خزانچی کا اسلام آباد کا کوئی وزٹ نا ہے۔ تو سیکنڈ ڈویژن کی حامل پرو وائس چانسلر کا یونیورسٹی کے تمام کاموں میں مداخلت سراسر غیر اخلاقی اور غیر قانونی ہے۔ اس بارے میں موقف کے لیے جب خواتین یونیورسٹی ملتان کی میڈیا کوآرڈینیٹر سے رابطہ کیا گیا اور پوچھا گیا کہ آپ کی یونیورسٹی کی پرو وائس چانسلر ڈاکٹر کلثوم پراچہ اور ڈاکٹر ملکہ رانی کو پرو وائس چانسلر ڈاکٹر کلثوم پراچہ کے بلوں پر اعتراضات اٹھانے ، وائس چانسلر ڈاکٹر فرخندہ منصور کے دستخط پر اعتراضات اٹھانے اور سپریم کورٹ کے حکم کے برعکس ڈاکٹر میمونہ یاسمین خان کے 6 ماہ سے زائد عارضی تعیناتی پر اعتراض اٹھانے والے ریزیڈنٹ آڈیٹر پر کیا اعتراض ہے تو یونیورسٹی انتظامیہ شرمندگی کے باعث کوئی جواب نہ دے سکی۔
