ملتان (سٹاف رپورٹر) بہاالدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں ٹیچرز اور سٹاف کی غیر حاضریوں میں اضافہ، یونیورسٹی کی ٹائمنگ کی پابندی نہ کرنے کی بابت شکایات کے باعث وائس چانسلر کی جانب سے نوٹس لئے جانے کے بعد رجسٹرار کی جانب سے وائس چانسلر ڈاکٹر زبیراقبال غوری کی منظوری سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق وقت کی پابندی، جوابدہی اور کارکردگی کو یقینی بنانےکیلئے وائس چانسلر نے ہدایت جاری کی کہ تمام دفاتر میں حاضری رجسٹر رکھا جائے۔ تمام اساتذہ اور افسران اس پر اپنی حاضری درج کریں گے۔ کنٹرولنگ افسر بھی روزانہ کی بنیاد پر حاضری رجسٹر کی جانچ کرے گا اور اس پر اپنے دستخط ثبت کرے گا۔ حیران کن طور پر جو ٹیچرز اور سٹاف ریگولر یونیورسٹی نہ آتے تھے ان کو خطرات لاحق ہوگئے اور انہوں نے اکیڈمک سٹاف ایسوسی ایشن میں اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے حاضری کو یقینی بنانے والے نوٹیفکیشن کی بابت اکیڈمک سٹاف ایسوسی ایشن کا ہنگامی اجلاس طلب کر لیا اور وائس چانسلر ڈاکٹر زبیر اقبال غوری سے اس نوٹیفکیشن کی واپسی کا مطالبہ کر دیا۔ اکیڈمک سٹاف ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری خاور نوازش کی جانب سے رجسٹرار بی زیڈ یوکو لکھے گئے خط میں یہ مطالبہ کیا گیا کہ بی زیڈ یو ملتان کی اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن (ASA) کی ایگزیکٹو کونسل کے ایک ہنگامی اجلاس میں نوٹیفکیشن نمبر Gen/2704، مورخہ 26-03-2025، جس کے تحت اساتذہ کی حاضری رجسٹر پر درج کرنے کا حکم دیا گیا ہے، پر غور کیا گیا۔ ASA کا ماننا ہے کہ یہ نوٹیفکیشن بالکل غیر معمولی ہے۔ ملک کی دیگر جامعات جیسے پنجاب یونیورسٹی (PU)، زرعی یونیورسٹی فیصل آباد (UAF)، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور (IUB)، یو ای ٹی (UET)، قائداعظم یونیورسٹی (QAU)، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی (AIOU) وغیرہ میں اساتذہ کے لیے اس قسم کی کوئی روایت موجود نہیں ہے۔ ASA واضح طور پر اس مؤقف پر قائم ہے کہ کلاسز کی بروقت فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے متعلقہ شعبہ کے چیئرمین/ڈائریکٹر/پرنسپل کا کردار اہم ہے اور یونیورسٹی ایکٹ میں اس کی واضح وضاحت موجود ہے۔ یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ آپ کے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے فوراً بعد، ایک ڈیپارٹمنٹ/کالج کے سربراہ نے ایک نیا نوٹیفکیشن جاری کر دیا جس میں اساتذہ کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ اپنی حاضری رجسٹر میں درج کریں جو چیئرپرسن/پرنسپل کے دفتر میں رکھا گیا ہوگا، اور اس میں “ٹائم اِن” اور “ٹائم آؤٹ” کا اندراج بھی لازمی ہوگا، حالانکہ آپ کے نوٹیفکیشن میں اس کا ذکر نہیں تھا۔ حقیقت میں آپ کے دفتر کے اس نوٹیفکیشن سے نہ صرف معزز تدریسی برادری کی تضحیک کی راہ ہموار ہوگی بلکہ ایک انتظامی سربراہ کو دیئے گئے اختیارات کے ناجائز استعمال کے دروازے بھی کھلیں گے۔ مزید برآں اساتذہ اور افسران کے لیے اس قسم کی ہدایات پنجاب حکومت اور بی زیڈ یو ملتان کی سنڈیکیٹ کے پہلے سے منظور شدہ قواعد و ضوابط کے بھی خلاف ہیں۔ اور اکیڈمک سٹاف ایسوسی ایشن یہ سمجھتی ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ کو ایسے غیر ضروری اقدامات کی بجائے زیادہ اہم معاملات پر توجہ دینی چاہیے، جیسے کہ اساتذہ کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں میں اضافہ، مختلف تعلیمی پروگراموں کو مؤثر بنانا، کانفرنسز، سیمینارز اور ورکشاپس کے ذریعے یونیورسٹی کے علمی اور تحقیقی وقار کو بہتر بنانا، حکومت سے فنڈنگ حاصل کرنا، طلبہ تنظیموں کو تعلیمی ماحول خراب کرنے سے روکنا، سلیکشن بورڈ اور سنڈیکیٹ جیسے اداروں کے باقاعدہ اجلاس منعقد کر کے تمام زیر التواء معاملات کو حل کرنا، یونیورسٹی کے بنیادی ڈھانچے کو تباہی سے بچانے کے لیے عملی اقدامات اٹھانا چنانچہ ASA پرزور مطالبہ کرتی ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ اساتذہ کو اسکول یا کالج کے ملازمین کی طرح چلانے کی کوشش نہ کرے اور فوری طور پر اس نوٹیفکیشن کو واپس لے۔ حیران کن طور پر وائس چانسلر ڈاکٹر زبیر اقبال غوری کی جانب سے جاری شدہ نوٹیفکیشن میں صرف اور صرف اساتذہ اور سٹاف کی حاضریوں کی بابت بات کی گئی تھی۔ اس نوٹیفکیشن کے بعد بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے گیلانی لاء کالج کی پرنسپل ڈاکٹر سمزہ فاطمہ کی جانب سے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا گیا جس کے مطابق رجسٹرار آفس کے نوٹیفکیشن نمبر Gen./2704، مورخہ 26.03.2025، جو وقت کی پابندی، جوابدہی اور کارکردگی سے متعلق ہے، اور دفتر کے اوقات کار کی سختی سے پابندی کے بارے میں جاری کردہ متعدد سابقہ ہدایات کی روشنی میں تمام مستقل فیکلٹی اور عملے کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر پرنسپل آفس میں رکھے گئے حاضری رجسٹر میں اپنی حاضری درج کریں۔ براہ کرم یقینی بنائیں کہ وہ مورخہ 27.03.2025 سے اپنے دستخط کے ساتھ “ٹائم اِن” اور “ٹائم آؤٹ” کا اندراج بھی کریں ۔چنانچہ اس بارے میں مزید جاننے کے لیے جب جنرل سیکرٹری اے ایس اے خاور نوازش سے رابطہ کیا گیا کہ آپ کی جانب سے جاری لیٹر میں یہ کہا گیا کہ اساتذہ اور افسران کے لیے اس قسم کی ہدایات پنجاب حکومت اور بی زیڈ یو ملتان کی سنڈیکیٹ کے پہلے سے منظور شدہ قواعد و ضوابط کے بھی خلاف ہیں۔ وہ پنجاب حکومت کی اس طرح کی ہدایات یا بی زیڈ یو کی سینڈیکیٹ کی منظوری فراہم کر دیں جس میں واضح ہو کہ یونیورسٹی ٹیچرز کی حاضریوں کے بارے میں اس طرح کی ہدایات جاری نہیں کر سکتی تو ان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی انتظامیہ ایکٹ میں کوئی ایسا سیکشن دکھا دے جس میں حاضریوں کی نگرانی کی بابت لکھا گیا ہو۔ چنانچہ یہ لیٹر یونیورسٹی کے ایکٹ کے بالکل برخلاف ہے۔
