بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے قواعد و ضوابط سے نابلد وائس چانسلر بی زیڈ یو ایکٹ 1975 کے سیکشن 16(4)(vi) (ایمرجنسی پاورز) کا آزادانہ استعمال کرنے لگے، حتیٰ کہ اس ایکٹ کی آڑ میں گورنر / چانسلر کی پاورز بھی استعمال کر رہے ہیں۔ اس صورتحال میں یونیورسٹی ایمرجنسی پاورز کی محتاج ہو کر رہ گئی ہے۔
سیکشن 16(4)(vi) کے بے دریغ استعمال کا اس قدر اضافہ جامعہ کی تاریخ میں پہلی بار دیکھنے میں آ رہا ہے، جس کے تحت مختلف ڈیپارٹمنٹس اور انسٹیٹیوٹس کے ڈائریکٹرز کو بھی اسی شق کے تحت تعینات کر کے تعلیمی معیار کا جنازہ نکالا جا رہا ہے۔
حال ہی میں اکنامکس ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر ظاہر فریدی کے 3 سالہ ٹینیور کے اختتام پر، سینیارٹی میں دوسرے نمبر پر آنے والی پروفیسر ڈاکٹر سیدہ عذرا بتول کو بلا جواز سپورٹس سائنسز کا عارضی ڈائریکٹر لگا دیا گیا، حالانکہ انہیں اس شعبے کا کوئی تجربہ ہی نہیں۔
اکنامکس ڈیپارٹمنٹ میں سینیارٹی میں تیسرے نمبر پر آنے والے پروفیسر ڈاکٹر محمد رمضان کو بھی اسی شق کے تحت اکنامکس کے ڈائریکٹر کا عارضی چارج دے دیا گیا۔
اسی طرح وائس چانسلر ڈاکٹر محمد زبیر اقبال غوری نے سرائیکی ڈیپارٹمنٹ کا چارج عربی ڈیپارٹمنٹ کی پروفیسر کو دے دیا۔
10 مارچ کو انسٹیٹیوٹ آف زوالوجی کا چارج پروفیسر ڈاکٹر محمد نعیم کو، اور یونیورسٹی کالج آف ٹیکسٹائل انجینئرنگ کا چارج ڈاکٹر وقار احمد کو دے دیا گیا۔
چیئرپرسن ڈیپارٹمنٹ آف ہارٹیکلچر کا چارج پروفیسر ڈاکٹر سفینہ ناز کو دیا گیا، اور حیرت انگیز طور پر مستقل رجسٹرار کی جگہ ایڈیشنل رجسٹرار اعجاز احمد کو چارج دے کر سینڈیکیٹ کی اتھارٹی بھی اسی شق کی بنیاد پر استعمال کر لی گئی۔
چھ مارچ 2025 کو پہلی بار
فیکلٹی آف کامرس، بینکنگ اینڈ بزنس ایڈمنسٹریشن کی ایکٹنگ ڈین: پروفیسر ڈاکٹر ریحانہ کوثر
فیکلٹی آف فارمیسی: پروفیسر ڈاکٹر ثمینہ افضل
فیکلٹی آف فوڈ سائنسز اینڈ نیوٹریشن: پروفیسر ڈاکٹر محمد ریاض
کو عارضی چارج دے دیا گیا، جو کہ سراسر خلاف قانون ہے کیونکہ وائس چانسلر یا ڈین کی تعیناتی کا اختیار صرف گورنر / چانسلر پنجاب کے پاس ہوتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وائس چانسلر کو دیگر یونیورسٹی قوانین کا علم بھی ہے؟ یا عارضی انتظامیہ ہی انہیں ہر مسئلے پر سیکشن 16(4)(vi) کے تحت فیصلے کرنے کا مشورہ دے رہی ہے؟
ایک کم تدریسی تجربے والے وائس چانسلر کا صرف اسی شق کے ذریعے مکمل یونیورسٹی چلانا، نہ صرف قوانین سے لاعلمی بلکہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے میرٹ کے دعوؤں کے بھی خلاف ہے۔
اب تک ڈاکٹر زبیر اقبال غوری نے 5 خواتین اور 5 مرد پروفیسرز کو ایکٹنگ چارجز سونپے ہیں۔ ان سب کو مستقل عہدوں کا لالچ دیا جا رہا ہے، لیکن یہ تمام تعیناتیاں قانون اور ضابطے کے برعکس ہیں۔
جب یونیورسٹی کے پی آر او ڈاکٹر محمد احسن بھٹی سے مؤقف لینے کی کوشش کی گئی تو ان کی طرف سے ہمیشہ کی طرح کوئی جواب نہیں آیا۔
