آج کی تاریخ

تھرپارکر میں لڑکیوں کے لیے تعلیمی سہولیات کی کمی، طالبات لڑکوں کے اسکولوں میں پڑھنے پر مجبور

تھرپارکر: دیہی علاقوں میں لڑکیوں کے اسکولوں کی عدم دستیابی کے باعث بڑی تعداد میں طالبات کو لڑکوں کے اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنی پڑ رہی ہے۔ جیسے جیسے وہ اعلیٰ جماعتوں میں پہنچتی ہیں، سماجی اور عملی رکاوٹوں کے باعث کئی کو تعلیم ادھوری چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ مالنہور وینا کے گورنمنٹ بوائز ہائی اسکول میں ساتویں جماعت کی طالبہ جویتا کماری روزانہ کئی کلومیٹر کا سفر طے کرکے اپنی تعلیم جاری رکھے ہوئے ہے۔ وہ مستقبل میں استاد، ڈاکٹر یا انجینئر بننے کا خواب دیکھتی ہے، لیکن تھرپارکر کی بیشتر لڑکیوں کے لیے یہ خواب شرمندۂ تعبیر ہونا مشکل نظر آتا ہے۔ تھرپارکر کے کئی دیہات میں روایتی رسم و رواج اور مالی مشکلات کے باعث لڑکیوں کی تعلیم کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ زیادہ تر والدین اپنی بیٹیوں کی تعلیم کے بجائے گھریلو کام کاج کو ترجیح دیتے ہیں۔
ایک مقامی بچی منبھی نے اپنی زندگی کے حالات بتاتے ہوئے کہا، “میں لکڑیاں اکٹھی کرتی ہوں، مویشیوں کے لیے چارہ جمع کرتی ہوں اور انہیں چراتی ہوں۔ میں نے کبھی اسکول نہیں دیکھا، نہ ہی جانتی ہوں کہ وہ کیسا ہوتا ہے۔”
اس کی والدہ نے مالی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے کہا، “ہم لکڑیاں اور چارہ بیچ کر کھانے کا بندوبست کرتے ہیں۔ میں گھر کے کاموں میں مصروف رہتی ہوں، اس لیے میری بیٹی کے پاس بھی یہی راستہ بچتا ہے۔”
18 لاکھ آبادی والے تھرپارکر میں زیادہ تر اسکول شہری علاقوں تک محدود ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، لڑکیوں کی خواندگی کی شرح صرف 23 فیصد ہے، جو ایک تشویشناک صورتحال کو ظاہر کرتی ہے۔ ثانوی تعلیم کے ضلعی افسر شمس الدین نے تسلیم کیا کہ لڑکیوں کے لیے تعلیمی سہولیات ناکافی ہیں اور اس مسئلے کے حل کے لیے مزید اسکولوں کی ضرورت ہے۔ عوام کا مطالبہ: تعلیم، پانی اور صحت پر توجہ دی جائے۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ پانی اور صحت کی سہولیات کے ساتھ ساتھ اگر تعلیمی نظام کو بھی بہتر بنایا جائے تو تھرپارکر کا مستقبل روشن ہو سکتا ہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں