تونسہ شریف (سپیشل رپورٹر)پروفیسر ویڈیو سیکنڈل کا معاملہ بی ایس اردو کے سٹوڈنٹس زیر عتاب بی ایس اردو کے سٹوڈنٹس کے پیپر روکنے کی تیاریاں سٹوڈنٹس کی وزیراعلی پنجاب سے تحفظ کی اپیل تفصیل کے مطابق دو دن پہلے روز نامہ قوم نے ایک خبر بریک کی تھی جس میں پروفیسر جمیل پروفیسر انور پروفیسر شکیل اور پروفیسر رؤف کا ذکر کیا گیا تھا سٹوڈنٹس کی طرف سے یہ بتایا گیا تھا کہ یہ پروفیسرصاحبان بی ایس اردو کی سٹوڈنٹس کو ہراساں کرتے ہیں رات کو بے ہودہ میسج کرتے ہیں اور دھمکیاں بھی دیتے ہیں جن کے سکرین شارٹ روزنامہ قوم کو ثبوت کے طور پہ بھیجے گئے تھے اسی ثبوت کی بناء پر روزنامہ قوم نے خبر بریک کردی خبر بریک ہونے کے بعد پروفیسر صاحبان میں ہل چل مچ گئی، مختلف ذرائع سے معلوم ہوا کہ پروفیسر صاحبان بی ایس اردو کی سٹوڈنٹس پر برہم ہوئے اور میڈیا رپورٹنگ کا سارا ملبہ بی ایس اردو کے سٹوڈنٹس پہ ڈال دیا اور سارے پروفیسروں نے آپس میں سر جوڑ لئے اور بی ایس اردو کے سٹوڈنٹس کے خلاف میٹنگ شروع کردی ،اسی ہنگامی میٹنگ کو مد نظر رکھتے ہوئے سٹوڈنٹس نے یہ خدشہ ظاہر کیا کہ پروفیسر صاحبان نے ہمارا تعلیمی نقصان کرنے کی ٹھان لی ہے اور سٹوڈنٹس نے وزیراعلی پنجاب سے اپیل کی ہے ہمیں تحفظ فراہم کیا جائے اور ماحول کو بہتر سے بہتر بنایا جائے تاکہ ہم اپنی ڈگری مکمل کرسکیں، واضح رہے کہ بی ایس اردو کے آج سے پیپر شروع ہیں،مختلف باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ پروفیسر انور پہاڑ میں ٹیچر ہے لیکن وہاں حاضر نہیں ہوتا اور ڈگری کالج میں بطور پرائیویٹ ٹیچر کام کرتا ہے اور 800سو روپے فی پیریڈ کا لیتا ہے ٹوٹل 9600لیتا ہے اور سٹوڈنٹس کو باقی بھی ہراساں کرتے ہیں لیکن پروفیسر انور ان سب سے آگے ہے، ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ کچھ عرصہ پہلے پروفیسر انور کالج کی ایک لڑکی بھگا کر لے گیا 20دن اپنے پاس رکھنے کے بعد اس سے نکاح کرنے سے انکار کردیا اور اسے واپس بھیج دیا ۔ان درندوں سے سٹوڈنٹس کو کافی خطرات لاحق ہیں ،سٹوڈنٹس نے اعلی حکام سے اپیل کی ہے کہ ہمیں تحفظ فراہم کیا جائے اور ان درندوں کی درندگی سے بچایا جائے کہیں یہ ہمارا تعلیمی نقصان ہی نہ کردیں ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ اس کیس کے کافی سٹوڈنٹس مدعی بننے کیلیے تیار ہیں لیکن اپنی تعلیمی نقصان اور باثر لوگوں کی دشمنی کے باعث خاموش ہیں اور وزیر اعلیٰ پنجاب سے اپیل کررہے ہیں کہ ہمیں تحفظ فراہم کیا جائے تاکہ ہم اپنی ڈگری مکمل کرسکیں، ذرائع کا کہنا ہے کہ سٹوڈنٹس کافی ڈسٹرب ہیں وہ کہتے کہ ہم حالات کے مارے اپنی مستقبل کی تکمیل کیلیے یہاں پہنچے تو یہاں پہلے سے آگ لگی ہوئی ہے ہم کہاں جائیں کیا لڑکی ہونا اس معاشرے میں جرم ہے ؟؟؟یہ ریاست کیلیے سوالیہ نشان ہے کیا لڑکی بغیر بےآبرو ہوکر تعلیم حاصل نہیں کر سکتی ،کیا ریاست عورت کو تحفظ دینے سے قاصر ہے کیا ،لڑکی پاکستانی شہری نہیں ہے ان بہت سے سوالوں کا جواب کون دے گا ؟،ذرائع نے عوامی رائے سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ عوام کا مطالبہ ہے کہ ڈگری کالج میں۔ گرلز بوائز کیمپس الگ الگ بنائے جائیں اور فیمیل کیلیے فیمیل سٹاف فراہم کیا جائے تاکہ قوم کی بچیاں اعلی تعلیم سے آراستہ ہوسکیں ۔
