ملتان(سپیشل رپورٹر)تونسہ شریف پروفیسر ویڈیو سکینڈل میں مزیدانکشافات سامنے آگئے ۔تفصیل کے مطابق دو دن پہلے ڈگری کالج کے پروفیسر ویڈیو سکینڈل کو میڈیانے ہائی لائٹ کیا جس سے علاقے میں غصے کی لہر دوڑ گئی۔ڈگری کالج کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے عوام کا تمام تعلیمی اداروں سے اعتماد اٹھ گیا ۔والدین سوچ بچار میں پڑ گئے کہ ہم بچیوں کو کہاں تعلیم دلوائیں ہر ادارے میں تو درندے بیٹھے ہیں۔ ویسے توعطامحمد کھوسہ 32سال سے عوام پر تعمیر نو اکیڈمی کے ذریعے مسلط ہے لیکن رہی سہی کسرسابق وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے نکال دی ۔عطا محمد کھوسہ کو پرنسپل کا عہدہ دیکر ڈگری کالج کے پرنسپل کی شکل میں مزید عوام پر مسلط کر دیا حتیٰ کہ کرونا لاک ڈاؤن میں سارے سکول بند ہوتے تھے مگر تعمیر نو اکیڈمی سرعام کھلی رہتی تھی کسی کی جرات نہیں تھی کہ وہ کھوسہ صاحب کو پوچھ سکیں یہ سب عثمان بزدار کی نوازشات تھیں۔ ڈگری کالج پہلے بوائز ڈگری کالج تھا لیکن عثمان بزدار نے یہاں بی ایس کی کلاسز کا آغاز کیا تھا یہاں طلباوطالبات کی کلاسیں لگنا شروع ہو گئیں۔ ماحول اسی وقت سے خراب تھا جب سے کلاسز کا آغاز ہوا لیکن کوئی ثبوت ہاتھ نہ لگنے کی وجہ سے یہ درندے 25سال سے زیادتیاں کرتے آئے لیکن جونہی ثبوت میڈیا کے ہاتھ لگے انہوں نے حقیقت سے پردہ اٹھا دیا۔سیکنڈل پر پردہ ڈالنے کیلئے پروفیسر صاحبان نے فیصلہ کیا کہ اب میڈیا کو خریدا جائے سو فون کرکے میڈیا کو تعمیر نو اکیڈمی میں بلایا گیا اور وہاں بےضمیر صحافیوں کی منڈی لگی ۔ہر صحافی اپنے وزن کے حساب سے بکتا رہا کسی کی قیمت دو ہزار لگی تو کسی کی تین ہزار اور پانچ ہزار والےبھی موجود تھے۔ ان بےضمیر لوگوں کو ٹاسک دیا گیا کہ آپ ہماری تعریفی پوسٹیں لگاؤ ہر طرف تعریف ہی تعریف نظر آئے تاکہ لوگ اس سیکنڈل کو جھوٹا کہیں لیکن تونسہ کے تمام صحافی بک گئے صرف دو صحافیوں نے اپنے ضمیر کا سودا نہ کیا اور حق کا ساتھ دینے کی ٹھان لی۔ اسی اثنا میں یہ خبر نیشنل میڈیا پر بھی بریک ہوگئی پھر دوسرے دن ڈگری کالج کے تمام پروفیسر صاحبان نے تھانہ سٹی تونسہ میں سکینڈل ہائی لائٹ کرنے والے صحافیوں کے خلاف درخواست دی بہت کوشش کرنے کے باوجود صحافیوں کو درخواست کا عکس نہ مل سکا ۔ باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہےکہ تھانہ سٹی سے پروفیسر صاحبان کو یہی جواب ملا (الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے )اس سکینڈل کے ساتھ ساتھ روز نامہ قوم نے مختلف پروفیسر ز کے واٹس ایپ سکرین شاٹ بھی حاصل کرلیے جن پر بے ہودہ چیٹ کی گئی۔ اس چیٹ میں پروفیسر جمیل ،پروفیسر رؤف، پروفیسر شکیل اور انور شامل ہیں۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ پروفیسر انور پہاڑ میں سرکاری ملازم ہے لیکن ڈیوٹی پر نہیں جاتے۔ ڈگری کالج میں پرائیویٹ ٹیچر کے طور پہ پڑھا رہےہیں۔ عوام نے ان کے خلاف بھی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ بی ایس کی سٹوڈنٹس نے یہ بھی کہا ہے کہ بی ایس ڈگری کی مد میں 38000ہم سے لے چکے ہیں اور 3000ماہانہ فیس کی مد میں لیتے ہیں اور پروفیسر انور نے ہر سٹوڈنٹس سے 1000روپے بکس کی مد میں لیے لیکن تاحال سٹوڈنٹس کو بکس فراہم نہیں کی گئی۔ ان سٹوڈنٹس کا کہنا ہے کہ انور صاحب پہلے بھی لوٹ کھسوٹ اور سٹوڈنٹس کو بلیک میل کرنے کے ماہر ہیں۔ انہی درندوں کی وجہ سے کافی ساری شریف لڑکیاں پڑھائی چھوڑ کر گھر بیٹھ گئی ہیں۔ لڑکیوں نے میڈیا پر آنے اور مدعی بننے سے بھی انکار کیا وہ اس لیےکہ یہ لوگ بااثر لوگ کہیں ہمیں نقصان نہ دیں ۔اس معاملے پر ریاست کو مدعی بننا چاہیے اور سکینڈل کی شفاف تحقیقات کرنی چاہیے ۔ مجرم کو سخت سے سخت سزا دی جائے ۔جنسی درندےعطامحمدکھوسہ نے اپنے سٹوڈنٹس کو بھی متحرک کردیا کہ میرا سوشل میڈیا پر دفاع کرو سو وہ یہ کام بڑی ایمانداری سے سر انجام دے رہے ہیں ۔وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نوازسے اپیل ہے کہ ڈگری کالج کے سارے عملے کو معطل کرکے قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔
