آج کی تاریخ

تعلیمی نظام کا اندرونی زوال

پاکستان میں تعلیمی نظام کی بگڑتی ہوئی کیفیت کوئی ڈھکی چھپی حقیقت نہیں رہی، مگر جس خاموشی سے یہ نظام اندر سے کھوکھلا ہو رہا ہے، وہ شاید ہماری توجہ سے اب تک محروم رہا ہے۔ ایک حالیہ مضمون میں، جو مختلف شہروں میں منعقدہ اساتذہ کی تربیتی ورکشاپس کے مشاہدات پر مبنی ہے، تعلیم کی حقیقی تصویر کچھ یوں سامنے آتی ہے: ایک طرف اساتذہ سیکھنے اور بہتر کرنے کے لیے بے قرار ہیں، دوسری طرف تعلیمی ڈھانچہ اس قدر فرسودہ، غیر مربوط اور متضاد ہے کہ ان کی کوششیں بارآور نہیں ہو پاتیں۔ یہ کیفیت ایک ایسے المیے کی نشان دہی کرتی ہے جس کا تعلق صرف نصاب یا انفرااسٹرکچر سے نہیں بلکہ اس پورے تعلیمی فلسفے سے ہے جو آج بھی پچھلی صدی کے سائے میں سانس لے رہا ہے۔اساتذہ جو آج انٹرنیٹ کے ذریعے دنیا بھر کے تعلیمی ماڈلز، جدید تدریسی طریقہ کار اور تعلیمی ٹیکنالوجی تک رسائی رکھتے ہیں، اپنے اداروں میں ان تصورات کو لاگو کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ وہ نصاب ہے جو دہائیوں پرانا، غیر متحرک اور طلبا کی ذہنی نشوونما سے غیر متعلق ہو چکا ہے۔ جب نصاب ہی ساکن ہو، تو تدریس میں تحریک کہاں سے آئے گی؟ جب تعلیمی مواد بچوں کی موجودہ دنیا، چیلنجز اور دلچسپیوں سے ہم آہنگ نہ ہو، تو سیکھنے کا عمل ایک بوجھ بن جاتا ہے — جیسا کہ آج کے بیشتر اسکولوں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ایک اور نمایاں مسئلہ جماعتوں میں طلبا کی تعداد ہے۔ جب ایک استاد کو پچاس سے زائد بچوں کو ایک ساتھ سنبھالنا پڑے تو نہ صرف تعلیم کی کیفیت متاثر ہوتی ہے بلکہ کئی بچے نظام کے دائرے سے باہر رہ جاتے ہیں۔ ایسے حالات میں حتیٰ کہ بہترین تربیت یافتہ اساتذہ بھی خود کو بے بس پاتے ہیں۔ تعلیمی عمل کو موثر بنانے کے لیے یا تو کلاسوں کی تعداد بڑھائی جائے یا پھر ٹیکنالوجی کو مربوط انداز میں استعمال کیا جائے — مگر ہمارے بیشتر ادارے ان دونوں پہلوؤں میں پیچھے ہیں۔خواتین کی تعلیم اور صنفی مساوات کا مسئلہ بھی کسی ایک علاقے تک محدود نہیں۔ ثانوی سطح پر لڑکیوں کا تعلیم سے خارج ہو جانا صرف مالی یا جسمانی مسائل کا نتیجہ نہیں، بلکہ کلاس روم کے اندر موجود صنفی امتیاز بھی اس کی ایک بڑی وجہ ہے۔ لڑکوں کی غالب موجودگی، لڑکیوں کی آواز کو دبا دیتی ہے۔ جہاں سوال کرنے کی حوصلہ افزائی نہ ہو، وہاں ذہن بند اور سوچ محدود ہو جاتی ہے۔ ایسے تعلیمی ماحول میں، نہ لڑکیاں ترقی کر پاتی ہیں اور نہ ہی معاشرہ بحیثیتِ مجموعی۔اس سے بھی زیادہ تشویشناک وہ تعصبات اور نفسیاتی دباؤ ہیں جو طلبا کے سیکھنے کے عمل کو براہِ راست متاثر کرتے ہیں۔ بُلیئنگ، پسند و ناپسند کی بنیاد پر امتیازی سلوک، تشدد یا ہراسانی جیسے عوامل کسی بھی طالب علم کی خود اعتمادی کو پاش پاش کر سکتے ہیں۔ اگر بچہ ہر روز جذباتی کشمکش کے ساتھ اسکول آ رہا ہو تو تعلیمی کامیابی ایک خواب بن جاتی ہے۔ ایسے بچوں کے لیے ہیلپ سسٹمز، کونسلنگ، اور قابل اعتماد بڑوں کی موجودگی لازم ہے۔ لیکن اکثر اسکولوں میں نہ صرف یہ سہولیات ناپید ہوتی ہیں بلکہ ان مسائل کو سنجیدگی سے لیا بھی نہیں جاتا۔اساتذہ اور انتظامیہ کے درمیان تعلقات میں اعتماد کی کمی ایک اور بنیادی خرابی ہے۔ جب کلاس روم میں استاد خود کو تنہا، غیر محفوظ یا غیر تسلیم شدہ محسوس کرے تو وہ اپنی مکمل توانائی سیکھنے کے عمل میں صرف نہیں کر سکتا۔ ایسے ماحول میں طلبا بھی وہی رویے اپنا لیتے ہیں، جو انہوں نے اپنے معلمین میں دیکھے ہوتے ہیں — یعنی بے یقینی، تنقید اور نکتہ چینی۔ اس طرح تعلیمی ادارہ، جو ایک مہذب اور مثبت معاشرے کی نرسری ہونا چاہیے، خود منفی طرز عمل کو پروان چڑھانے لگتا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تمام مسائل کسی بہت بڑے بجٹ یا انقلابی منصوبے کا تقاضا نہیں کرتے۔ ان کے حل کے لیے ضروری ہے کہ اسکولوں میں موجودہ تجربے کو مرکزِ توجہ بنایا جائے۔ طلبا کی روزمرہ کی زندگی، ان کی ضروریات، مسائل اور جذبات کو ادارہ جاتی فیصلوں میں شامل کیا جائے۔ اگر کوئی طالب علم خود کو غیر محفوظ یا غیر متعلق محسوس کرے، تو وہ سیکھنے سے دور ہو جاتا ہے۔ ایک ایسا ماحول جہاں بچوں کو اپنی آواز اٹھانے کا حق ہو، اور جہاں اساتذہ و منتظمین سننے اور سمجھنے پر آمادہ ہوں، تبدیلی کی بنیاد بن سکتا ہے۔مگر یہ سب کیسے ممکن ہو؟ اس کا جواب قیادت میں پوشیدہ ہے۔ اسکولوں میں وہی ادارے ترقی کرتے ہیں جہاں قائدین وژن رکھتے ہیں، اور فیصلے صرف کاغذی کارروائی نہیں بلکہ اصلاحی نیت سے کرتے ہیں۔ جہاں سربراہان اساتذہ کو بااختیار بناتے ہیں، اور والدین کو شراکت دار سمجھتے ہیں۔ جہاں تعلیمی کارکردگی کا پیمانہ صرف گریڈز نہیں بلکہ بچے کی ذہنی و جذباتی نشوونما بھی ہو۔ایک بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ ناکام اسکولوں کی پہچان صرف ڈراپ آؤٹ ریٹ سے ہوتی ہے، جبکہ کئی نجی اسکول، جن کا ڈھانچہ بظاہر شاندار ہو، اصل میں اپنے اندر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتے ہیں۔ رنگین دیواریں، صاف ستھری وردیاں، یا مہنگے لیپ ٹاپ تعلیمی معیار کی ضمانت نہیں دیتے۔ اصل کہانی ان دیواروں کے پیچھے چھپی ہوتی ہے — ایک ایسی کہانی جسے سننے والا کوئی نہیں۔یہ وقت ہے کہ ہم تعلیمی اداروں کے ظاہری خول سے آگے دیکھیں، اور ان کی روح کو جانچیں۔ اگر ہم واقعی ایک بہتر مستقبل کے خواہاں ہیں تو ہمیں اسکولوں کو اصلاحات کی تجربہ گاہیں بنانا ہو گا، جہاں ہر استاد، ہر طالب علم اور ہر والدین کو شراکت دار سمجھا جائے۔ ہمیں ان رکاوٹوں کو پہچاننا ہو گا جو بظاہر معمولی ہیں مگر درحقیقت تعلیمی عمل کو روکنے والی بنیادی جڑیں بن چکی ہیں۔آخرکار، تعلیم کا مطلب صرف نصاب پڑھانا نہیں بلکہ زندگی کے لیے تیار کرنا ہے — ایک ایسی زندگی جہاں ہر فرد باعزت، باشعور، اور بااختیار ہو۔ اور جب تک ہمارے اسکول اس تصور کو حقیقت میں نہیں ڈھالیں گے، ہمارا تعلیمی بحران صرف الفاظ کی حد تک نہیں، بلکہ نسلوں کی محرومی میں بدلتا رہے گا۔

شیئر کریں

:مزید خبریں