آج کی تاریخ

بلوچستان: مذاکرات یا طاقت؟

بلوچستان ایک بار پھر خونریزی اور بدامنی کے گرداب میں ہے۔ جعفر ایکسپریس پر ہونے والا حالیہ حملہ، جس میں مسافروں کو یرغمال بنایا گیا، نہ صرف ریاست کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے بلکہ بلوچستان کے مستقبل پر بھی کئی سوالات کھڑے کر رہا ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کا مؤقف واضح ہے: ریاست دشمنوں کے خلاف سخت کارروائی کرے گی اور بندوق اٹھانے والوں کو کچل دیا جائے گا۔ دوسری جانب، کچھ حلقے مذاکرات کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں، یہ مؤقف رکھتے ہوئے کہ طاقت کے استعمال سے مسئلہ مزید پیچیدہ ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ بلوچستان کے لیے کون سا راستہ زیادہ مؤثر ہوگا؟
وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے بلوچستان اسمبلی میں اپنی تقریر کے دوران واضح کیا کہ ریاست ان عناصر کے خلاف کوئی نرمی نہیں برتے گی جو پاکستان کی سالمیت کو چیلنج کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق، یہ جنگ دراصل ایک نظریاتی تصادم ہے جہاں علیحدگی پسند تنظیمیں طاقت کے زور پر اپنا نظریہ مسلط کرنا چاہتی ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ معصوم اور نہتے مسافروں کو نشانہ بنانا بلوچ روایات کی خلاف ورزی ہے، اور تاریخ میں یہ لکھا جائے گا کہ بلوچوں نے ہی اپنے ہی لوگوں کا قتل عام کیا۔
ریاست کا یہ بیانیہ نیا نہیں۔ ماضی میں بھی عسکریت پسندی سے نمٹنے کے لیے طاقت کا استعمال کیا گیا، مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ حکمت عملی دیرپا امن لا سکتی ہے؟ بلوچستان میں اس سے پہلے بھی کئی فوجی آپریشن کیے جا چکے ہیں، مگر علیحدگی پسند تنظیمیں بار بار متحرک ہوتی رہی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ صرف طاقت کے استعمال سے یہ مسئلہ ختم نہیں ہوسکتا، بلکہ اس کے گہرے اسباب کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔
ریاستی ادارے اس مؤقف پر قائم ہیں کہ بلوچ عسکریت پسند گروہ مذاکرات کے لیے تیار نہیں اور انہیں صرف طاقت کے ذریعے دبایا جا سکتا ہے۔ میر سرفراز بگٹی نے اپنی تقریر میں یہ بھی کہا کہ “ہم نے پورے پاکستان کو دہشت گردی کے معاملے پر کنفیوز کر دیا ہے، وہ آپ کو مار رہے ہیں اور آپ جرگہ کرنے کی بات کر رہے ہیں۔” یہ الفاظ ریاستی صبر کے خاتمے اور ایک سخت حکمت عملی کے آغاز کی نشاندہی کرتے ہیں۔
دوسری جانب، کچھ حلقے اس مؤقف سے اختلاف رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ بلوچستان کے مسئلے کو محض طاقت کے ذریعے حل نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے مطابق، بی ایل اے جیسے گروہ اگرچہ ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھا چکے ہیں، مگر ان کے نظریاتی اور سیاسی اسباب کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
بلوچستان میں عسکریت پسندی کی جڑیں تاریخی طور پر گہری ہیں۔ ریاست قلات کے پاکستان سے الحاق کے بعد سے بلوچ قوم پرست گروہ علیحدگی کی تحریکوں میں شامل رہے ہیں۔ نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت کی برطرفی کے بعد 1970 کی دہائی میں بھی بلوچستان میں بغاوت دیکھنے کو ملی، جسے طاقت کے ذریعے دبایا گیا۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ ہر بار عسکریت پسندی وقتی طور پر کم ہوئی، مگر جڑ سے ختم نہ ہوسکی۔
مذاکرات کے حامیوں کا کہنا ہے کہ بلوچ عسکریت پسندوں کی بڑی تعداد نوجوانوں پر مشتمل ہے جو خود کو ریاست سے بیگانہ محسوس کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے وسائل کا استحصال ہو رہا ہے اور انہیں بنیادی حقوق نہیں مل رہے۔ اگر ان نوجوانوں کے تحفظات کو سنجیدگی سے لیا جائے اور انہیں سیاسی عمل میں شامل کیا جائے تو انہیں ہتھیار پھینکنے پر آمادہ کیا جا سکتا ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا میں کئی علیحدگی پسند تحریکوں کو طاقت کے بجائے مذاکرات کے ذریعے حل کیا گیا۔ آئرلینڈ میں آئرش ریپبلکن آرمی کے ساتھ برطانیہ کے مذاکرات، اسپین میں باسک علیحدگی پسند گروہ کے ساتھ مفاہمت، اور کولمبیا میں فارک گوریلا گروپ کے ساتھ معاہدہ اس بات کی مثالیں ہیں کہ اگر ریاست سنجیدگی سے کوشش کرے تو امن ممکن ہے۔
بلوچستان کے مسئلے پر دو انتہائیں موجود ہیں: ایک طرف وہ لوگ ہیں جو صرف طاقت پر یقین رکھتے ہیں، اور دوسری طرف وہ جو سمجھتے ہیں کہ تمام عسکریت پسندوں کو صرف مذاکرات کے ذریعے ہی قائل کیا جا سکتا ہے۔ حقیقت میں، حل ان دونوں کے بیچ میں ہے۔
ریاست کو سمجھنا ہوگا کہ بلوچ علیحدگی پسندی محض ایک سیکیورٹی مسئلہ نہیں بلکہ ایک سیاسی و سماجی مسئلہ بھی ہے۔ صرف فوجی طاقت کا استعمال وقتی طور پر دہشت گرد حملوں کو روک سکتا ہے، مگر اس سے بلوچستان کے عوام کے تحفظات ختم نہیں ہوں گے۔ لہٰذا، طاقت اور سیاسی مفاہمت کے امتزاج کی ضرورت ہے۔
ایک مؤثر پالیسی وہ ہوگی جو عسکریت پسند گروہوں کو دو حصوں میں تقسیم کرے:
اول، وہ عناصر جو مکمل طور پر دہشت گردی میں ملوث ہیں اور کسی بھی قسم کے مذاکرات کے لیے تیار نہیں۔ ان کے خلاف سخت کارروائی ناگزیر ہے، کیونکہ وہ کسی بھی ریاستی نظام کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔
دوم، وہ عناصر جو سیاسی و معاشی مسائل کی بنیاد پر ناراض ہیں اور بات چیت کے لیے کسی نہ کسی سطح پر تیار ہو سکتے ہیں۔ ان کے لیے امن مذاکرات کے دروازے کھلے ہونے چاہئیں۔
بلوچستان میں موجودہ بحران کے حل کے لیے ضروری ہے کہ ایک ایسی پالیسی ترتیب دی جائے جس میں سیکیورٹی، ترقی، اور سیاسی مفاہمت کا توازن ہو۔ ریاست کو بلوچ نوجوانوں کے لیے زیادہ مواقع پیدا کرنے ہوں گے، انہیں تعلیم، روزگار، اور خودمختاری دینی ہوگی تاکہ وہ بندوق کے بجائے سیاست کا راستہ اپنائیں۔
اس کے ساتھ ساتھ، عسکریت پسند گروہوں پر دباؤ بھی برقرار رکھنا ہوگا تاکہ وہ مذاکرات کے لیے تیار ہوں۔ اگر ریاست بالکل نرمی برتے تو عسکریت پسند اسے کمزوری سمجھ سکتے ہیں، اور اگر صرف طاقت استعمال کرے تو عوام میں بداعتمادی بڑھے گی۔ لہٰذا، ایک درمیانی راستہ ہی سب سے بہتر ہوگا۔
بلوچستان ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ اگر ریاست نے دانشمندی سے کام لیا تو وہ اس بحران سے نکل سکتی ہے، ورنہ تاریخ ہمیں یہی سکھاتی ہے کہ ایسے تنازعات وقت کے ساتھ مزید پیچیدہ ہو جاتے ہیں۔ مذاکرات اور طاقت کے متوازن استعمال سے ہی بلوچستان میں دیرپا امن ممکن ہو سکتا ہے۔

حقوق، فلاح، جوابدہی

پاکستان میں سماجی تحفظ کے حوالے سے پچھلے چند سالوں میں کچھ پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے، جہاں نقد مالی معاونت کے پروگرام غربت سے نمٹنے کے ایک اہم ذریعہ کے طور پر متعارف کرائے جا رہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں، خاص طور پر پاکستان پیپلز پارٹی، نے ان پروگراموں کو اپنی پالیسی کا حصہ بنایا ہے۔ 2008 میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی بنیاد رکھی، جو ملک کا پہلا ہدفی نقد امدادی منصوبہ تھا۔ 2024 کے انتخابی منشور میں پیپلز پارٹی نے مزید اقدامات جیسے کہ کسانوں کے لیے سبسڈی اور طلبہ کے لیے وظائف کا اعلان کیا۔ اسی طرح سندھ حکومت نے عالمی بینک کے تعاون سے ماں اور بچے کی معاونت کا پروگرام بھی شروع کیا ہے، جس کے تحت حاملہ خواتین اور ماؤں کو مالی امداد دی جاتی ہے، بشرطیکہ وہ زچگی اور بچوں کی بنیادی صحت کی خدمات سے استفادہ کریں۔ یہ اقدامات بلاشبہ فلاحی ریاست کے تصور سے ہم آہنگ ہیں، مگر اصل سوال یہ ہے کہ کیا یہ اسکیمیں دیرپا سماجی تحفظ فراہم کر رہی ہیں یا محض وقتی ریلیف کے طور پر کام کر رہی ہیں؟ کیا فلاحی اقدامات کو حقوق کے دائرے میں لا کر مؤثر اور جوابدہ بنایا جا سکتا ہے، یا یہ صرف ایک سیاسی حربہ رہیں گے؟
عالمی سطح پر دیکھا جائے تو سماجی بہبود کے پروگرام ترقی پذیر ممالک میں تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں۔ اس وقت 120 سے زائد کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں نقد امدادی منصوبے چل رہے ہیں، جن کے ذریعے تقریباً ڈھائی ارب افراد کو کسی نہ کسی شکل میں امداد فراہم کی جا رہی ہے۔ تاہم، ان منصوبوں کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اکثر حکومتیں بنیادی عوامی سہولتوں، جیسے کہ تعلیم اور صحت، میں سرمایہ کاری کرنے کے بجائے نقد رقم کی تقسیم پر توجہ مرکوز کر رہی ہیں۔ اس کے نتیجے میں عوام کو مالی مدد تو فراہم کی جا رہی ہے، لیکن انہیں بہتر معیار کی لازمی خدمات نہیں مل رہیں۔ اس حکمت عملی کا ایک بڑا نقصان یہ ہے کہ ریاست ایک فعال خدمت گزار کے بجائے محض خیرات بانٹنے والے ادارے میں تبدیل ہو جاتی ہے، جہاں شہری اپنے بنیادی حقوق کے دعویدار بننے کے بجائے محض امداد کے محتاج بن جاتے ہیں۔
پاکستان میں سماجی بہبود کے منصوبوں کا سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ ان کے پیچھے کوئی مضبوط قانونی اور ادارہ جاتی ڈھانچہ موجود نہیں ہے۔ اکثر یہ منصوبے حکومت کی صوابدید پر چلتے ہیں اور ان میں شفافیت اور جوابدہی کی شدید کمی ہوتی ہے۔ ترقیاتی ماہرین کئی بار اس خدشے کا اظہار کر چکے ہیں کہ اگر سماجی تحفظ کے پروگراموں کو قانونی تحفظ نہ دیا جائے تو یہ محض سیاسی سرپرستی کے نیٹ ورکس کو مضبوط بنانے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ فلاحی منصوبوں کو محض سیاسی نعروں کے بجائے ایک مستحکم قانونی اور انتظامی فریم ورک کا حصہ بنایا جائے، تاکہ عوام نہ صرف ان سہولتوں سے مستفید ہو سکیں بلکہ ان کے حصول کو اپنا بنیادی حق بھی سمجھیں۔
سندھ حکومت نے حالیہ برسوں میں کچھ حد تک حقوق پر مبنی قانون سازی کی کوشش کی ہے، لیکن ان قوانین کے نفاذ میں سنگین کوتاہیاں دیکھی گئی ہیں۔ 2018 میں گھریلو مزدور خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک قانون متعارف کرایا گیا تھا، جس کا مقصد غیر رسمی شعبے میں کام کرنے والی خواتین کو قانونی تحفظ فراہم کرنا تھا۔ اس قانون کے تحت خواتین کو منصفانہ اجرت، روزگار کا تحفظ، اور یونین بنانے کا حق دیا گیا۔ اسی طرح 2019 میں زرعی خواتین مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے قانون بنایا گیا، جس کے تحت خواتین کھیت مزدوروں کی رجسٹریشن، یونین سازی، اور اجرتوں کو منصفانہ بنانے کی شرائط شامل تھیں۔
تاہم، ان قوانین کا عملی نفاذ نہ ہونے کے برابر ہے۔ مزدوروں کی رجسٹریشن کے کوئی باضابطہ میکانزم موجود نہیں، یونین سازی محض ایک رسمی عمل بن کر رہ گئی ہے، اور اجرتوں کی نگرانی کا کوئی مؤثر نظام نہیں بنایا جا سکا۔ نتیجتاً، وہی مزدور جو ان قوانین کے تحت تحفظ کے مستحق تھے، آج بھی استحصال کا شکار ہیں اور کسی بھی طرح کی عملی قانونی مدد سے محروم ہیں۔
یہی مسئلہ سندھ میں زچگی اور نوزائیدہ بچوں کی صحت کے حوالے سے بھی نظر آتا ہے۔ ماں اور بچے کی معاونت کا پروگرام حاملہ خواتین کو صحت کی سہولتوں تک رسائی دینے کے لیے بنایا گیا ہے، لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ سندھ میں صحت کا بنیادی ڈھانچہ پہلے ہی زبوں حالی کا شکار ہے۔ 2019 میں سندھ تولیدی صحت کے حقوق کا قانون متعارف کرایا گیا تھا، جس کے تحت خواتین کو زچگی سے متعلق سہولیات، مانع حمل ادویات، اور بعد از اسقاط حمل دیکھ بھال کا حق دیا گیا تھا۔ لیکن اس قانون پر آج تک عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ ایسے میں نقد امداد کے ذریعے خواتین کو صحت کی سہولیات کی طرف راغب کرنے کا منصوبہ قابل تعریف تو ہے، مگر جب بنیادی صحت کا نظام ہی ناکارہ ہو تو یہ پروگرام صرف ایک عارضی حل کے طور پر کام کرے گا۔
یہی مسئلہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ساتھ بھی جڑا ہوا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق، خواتین کو نقد رقوم کے حصول میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اکثر انہیں غیر ضروری دفتری رکاوٹوں، رشوت، اور بدعنوانی سے گزرنا پڑتا ہے، اور وہ ایجنٹوں پر انحصار کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں، جو ان کی امدادی رقوم میں سے ایک بڑا حصہ ہتھیا لیتے ہیں۔ یہ صورت حال سماجی تحفظ کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی ہے، کیونکہ ایک ایسا نظام جو عزت اور مساوات کو یقینی نہ بنا سکے، وہ درحقیقت فلاحی ریاست کے بجائے استحصالی نظام کو برقرار رکھنے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔
اگر پاکستان میں سماجی تحفظ کو مؤثر اور دیرپا بنانا ہے تو چند بنیادی اقدامات ناگزیر ہیں۔ سب سے پہلے، فلاحی اقدامات کو ایک مربوط پالیسی کا حصہ بنایا جائے، جہاں نقد امداد کو عوامی خدمات کی بہتری کے ساتھ جوڑا جائے۔ صحت، تعلیم، اور روزگار کے مواقع میں سرمایہ کاری کے بغیر سماجی تحفظ کا کوئی بھی منصوبہ دیرپا کامیابی حاصل نہیں کر سکتا۔ دوسرا، حکومت کو چاہیے کہ سماجی بہبود کے پروگراموں میں شفافیت اور جوابدہی کے اصولوں کو اپنائے، تاکہ یہ سیاسی سرپرستی کے نیٹ ورک کے بجائے حقیقی معنوں میں عوام کی فلاح کے لیے کام کریں۔ اس کے لیے آزاد نگران ادارے قائم کیے جائیں، فنڈز کی شفاف تقسیم یقینی بنائی جائے، اور شکایات کے ازالے کے مؤثر نظام متعارف کرائے جائیں۔ تیسرا، حکومت کو ان قوانین پر سختی سے عملدرآمد کرانا ہوگا جو پہلے ہی پاس کیے جا چکے ہیں، تاکہ فلاحی پروگرام محض کاغذی کارروائی تک محدود نہ رہیں بلکہ ان کا حقیقی فائدہ عوام تک پہنچے۔
پاکستان میں سماجی تحفظ کی پالیسیوں کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ انتخابات کے دوران فلاحی منصوبوں کا وعدہ کرنا کافی نہیں، بلکہ ان وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ایک مضبوط اور مستحکم حکمت عملی ترتیب دینا ہوگی۔ فلاح و بہبود کو ایک خیراتی عمل کے بجائے ایک بنیادی انسانی حق کے طور پر تسلیم کیے بغیر ایک حقیقی فلاحی ریاست کا قیام ممکن نہیں۔ جب تک حکومتیں اپنے شہریوں کو محض خیرات لینے والا سمجھتی رہیں گی، تب تک وہ ان کے بنیادی حقوق کی فراہمی کی ذمہ داری سے پہلو تہی کرتی رہیں گی۔ حقیقی سماجی تحفظ تبھی ممکن ہے جب فلاحی اقدامات کو سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر، انصاف، مساوات اور خودمختاری کے اصولوں کے تحت نافذ کیا جائے۔

شام کا نازک مستقبل

شام اس وقت ایک نہایت خطرناک دوراہے پر کھڑا ہے۔ بشار الاسد کی آمریت کا خاتمہ، جسے ایک طویل عرصے سے جبر و استبداد کی علامت سمجھا جاتا تھا، عوام کی ایک بڑی کامیابی قرار دیا گیا۔ لیکن جنگ سے ریاستی نظام کی طرف منتقلی، اور شدت پسندی سے حکمرانی تک کا سفر، توقع سے کہیں زیادہ مشکل ثابت ہو رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں ہونے والے فرقہ وارانہ قتل عام، جس میں تقریباً 1,000 علوی شہریوں کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا، نے شام کی کمزور استحکام کی حقیقت کو بے نقاب کر دیا ہے۔
عبوری صدر احمد الشراء، جو ماضی میں “ابو محمد الجولانی” کے نام سے جانے جاتے تھے، نے اقتدار سنبھالتے وقت وعدہ کیا تھا کہ نئے شام میں فرقہ واریت کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوگی۔ لیکن چند ہی ماہ بعد، ان کا یہ وعدہ ایک سنگین آزمائش سے گزر رہا ہے۔ علوی خاندانوں کا سفاکانہ قتل عام، جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ خود حکومت نواز مسلح گروہوں کے ہاتھوں ہوا، پورے خطے کے لیے ایک خطرناک پیغام ہے۔ چشم دید گواہوں کے مطابق، بچوں تک کو بے رحمی سے قتل کیا گیا اور حملہ آوروں نے بار بار اس اقلیتی برادری کے مکمل خاتمے کی دھمکی دی۔ سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ ان حملوں میں غیر ملکی جنگجو، بشمول چیچن اور ازبک جنگجو، بھی ملوث تھے، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شام کی فرقہ وارانہ جنگ اب صرف داخلی نہیں بلکہ ایک عالمی شدت پسندی کے جال کا حصہ بن چکی ہے۔
بشار الاسد کا زوال شام کے لیے ایک نئے دور کی شروعات ضرور ہے، مگر اس کا ماضی اب بھی حال پر سایہ فگن ہے۔ اسد حکومت کے باقیات ابھی تک مختلف حلقوں میں موجود ہیں، جبکہ نئے حکمرانوں میں بھی ایسے عناصر شامل ہیں جن کے شدت پسند نظریات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ احمد الشراء، جو پہلے ایک جنگجو تنظیم کے رہنما تھے، اب ایک ریاستی سربراہ کی حیثیت سے اعتدال پسندی کا دعویٰ کر رہے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ ان جنگجو گروہوں کو کنٹرول کر پائیں گے جو ان کے ساتھ مل کر لڑے تھے؟ یہ تنظیمیں، جنہوں نے اسد کو اقتدار سے ہٹانے میں بنیادی کردار ادا کیا، اب ہتھیار ڈالنے کو تیار نہیں اور بعض کو تو نئی حکومت میں عہدے بھی دیے گئے ہیں۔ یہ صورتحال شام کے مستقبل کے لیے شدید خطرات پیدا کر سکتی ہے۔
اس ساری کشمکش میں اسرائیل کی مداخلت مزید پیچیدگیاں پیدا کر رہی ہے۔ بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد اسرائیل نے شام کے مقبوضہ علاقوں میں اپنی موجودگی مزید مستحکم کر لی ہے، جو نہ صرف شام کی خودمختاری کے لیے خطرہ ہے بلکہ خطے میں مزید عدم استحکام کو ہوا دے سکتا ہے۔ شام میں ایک پائیدار اور مستحکم حکومت کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ تمام غیر ملکی قوتیں اپنی مداخلت بند کریں تاکہ ملک کو اپنے داخلی مسائل حل کرنے کا موقع مل سکے۔
عبوری حکومت کے لیے سب سے بڑا امتحان یہ ہے کہ وہ ثابت کرے کہ وہ محض ایک اور حکومت نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں استحکام لا سکتی ہے۔ حالیہ قتل عام کا تقاضا ہے کہ فوری اور سخت اقدامات کیے جائیں۔ اگر فرقہ وارانہ خونریزی کا سلسلہ نہ روکا گیا تو یہ ایک عام روایت بن سکتی ہے، جیسا کہ ماضی میں اسد حکومت کے دوران ہوتا رہا۔ حکومت کو ان عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرنی ہوگی جو اس قتل و غارت میں ملوث ہیں، اور انتہا پسند گروہوں پر قابو پانے کے لیے مؤثر حکمت عملی وضع کرنی ہوگی۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو شام ایک بار پھر انتقام اور تشدد کے دائرے میں پھنس سکتا ہے، جہاں حقیقی امن کا خواب کبھی پورا نہ ہو سکے گا۔
شام کا مستقبل اس وقت غیر یقینی کی صورتحال سے دوچار ہے۔ اگرچہ بشار الاسد کی آمریت ختم ہو چکی ہے، لیکن ملک میں حقیقی استحکام اور امن ابھی ایک دور کا خواب ہے۔ دنیا کی نظریں احمد الشراء پر جمی ہیں کہ آیا وہ شام کو اتحاد اور ترقی کی راہ پر گامزن کر پائیں گے یا ان کی قیادت اندرونی خلفشار اور بیرونی دباؤ کے باعث ناکام ہو جائے گی۔ ان کا سیاسی ورثہ اس بات پر منحصر ہوگا کہ آیا وہ اپنے وعدوں کو محض الفاظ تک محدود رکھتے ہیں یا عملی اقدامات کے ذریعے ایک پائیدار اور مستحکم شام کی بنیاد رکھتے ہیں۔

شیئر کریں

:مزید خبریں