آج کی تاریخ

بستی ملوک پولیس 11 لاکھ میں بک گئی، اجتماعی زیادتی کیس خارج، لڑکی کو تھانے سے نکال دیا

ملتان(عوامی رپورٹر) 11 لاکھ روپے کی مبینہ ڈیل کے عوض بستی ملوک پولیس نے اجتماعی زیادتی کا مقدمہ محض تین دن میں خارج کر دیا اور اجتماعی زیادتی کا شکار کرن نامی 15 سالہ بچی کو ایس ایچ او تھانہ بستی ملوک نے بے عزت کرکے ملزمان کے سامنے اعلانیہ طور پر کہہ دیا کہ تمہارا مقدمہ خارج ہے تم تھانے سے دفع ہو جاؤ اگر مقدمہ کی تفتیش کروانی ہے تو پہلے پانچ لاکھ روپیہ جیب میں رکھ کر آؤ ۔مجھے ڈی این اے کروانے کے لیے حکومت کسی قسم کی محکمے کی طرف سے کوئی سہولت نہیں۔ پولیس کے پاس ڈی این اے کے کوئی فنڈز نہیں ہیں جب پانچ لاکھ روپے ہو جائیں تو آجانا ورنہ چلو بھاگو، ادھر سے اور پھر ملزمان سے ساز باز کرکے اگلے ہی 36 گھنٹوں میں مقدمے کا اخراج کر دیا گیا۔ یہ مقدمہ تھانہ بستی ملوک میں 21 اپریل 2025 اندراج نمبر کے تحت درج ہوا جس میں مقامی بھٹہ مالک جعفر، انصر اور عثمان نامی تین اوباش افراد نے کرن نامی 15 سالہ بچی کو اغوا کرکے آٹھ روز تک اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا اس کا جسم سگریٹوں سے داغا گیا۔ روزنامہ قوم کے دفتر میں جب سٹاف لیڈی رپورٹر نے ایک علیحدہ کمرے میں لے جا کر اجتماعی زیادتی کا شکار بچی کی کمر کو دیکھا تو وہ سگریٹ کے داغے جانے کے زخموں سے بھری پڑی تھی اور بعض زخموں میں پیپ پڑی ہوئی تھی اس حالت کو دیکھ کر روزنامہ قوم کی لیڈی رپورٹر بھی اپنے آنسو کنٹرول نہ کر سکی۔ تفصیلات کے مطابق نو اپریل کو کرن کی سہیلی نور اور اس کی والدہ بلقیس نے پہلا پھسلا کر اپنے ساتھ بازار لے جانے کے بہانے تھانہ بستی ملوک کے علاقے منیر آباد کے گھر میں لے جا کر بند کر دیا جہاں نور کی والدہ بلقیس اسے اپنے خاوند جعفر کے حوالے کرکے خود واپس گھر پہنچ گئی۔ نو اپریل سے 20 اپریل تک لڑکی کو نشہ اور انجکشن دے کر زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور زیادتی کرنے والوں میں 45 سالہ جعفر جو کہ بھٹوں کا مالک ہے اور اس کے ساتھی انصر اور عثمان عرف سانول شامل ہیں۔ اس دوران لڑکی کی متعدد فحش ویڈیو فلمیں بھی بنائی گئی۔ 21 تاریخ کو اس سے زبردستی مار پیٹ کر نکاح نامے پر دستخط کروانے کے بعد چھوڑ دیا گیا اور یہ موقف اختیار کیا گیا کہ کرن نے اپنی مرضی سے جعفر کے ساتھ نکاح کیا ہے اور پھر تین مہینے پہلے کی تاریخ ڈال کر تیار کیے جانے والے اس نکاح کو 17 اپریل میں طلاق نامہ تیار کرکے واپس بھیج دیا گیا اور اسی دوران اس کے والد مظہر اقبال کو جو کہ ماضی میں جعفر کے بھٹے پر اینٹیں بنانے کا کام کرتا رہا ہے کو زبردستی اپنے ڈیرے پر بٹھا کر اس سے صلح نامے پر دستخط کروا لیے حالانکہ اس مقدمے کا مدعی کرن کا والد مظہر نہ تھا جب کہ مقدمے کی مدعیہ کرن کی خالہ نسیم بی بی تھی اور کرن بچپن ہی سے اپنی خالہ نصیب بی بی کے پاس رہ رہی ہے بتایا گیا کہ پولیس نے مبینہ طور پر 11 لاکھ روپے میں ڈیل کی اور محض چار دن کے اندر اندر مقدمہ خارج کر دیا۔ روزنامہ قوم نے جب اس سلسلے میں مقدمے کے تفتیشی سب انسپکٹر ظفر ہراج سے رابطہ کیا تو تفتیشی آفیسر نے بتایا کہ یہ مقدمہ غلطی سے درج ہو گیا یہ تھانہ قطب پور کے حدود میں مقدمہ درج ہونا چاہئے تھا اسی لیے اس مقدمے کو خارج کر دیا گیا ہے جب ان سے پوچھا گیا کہ لڑکی کا سارا جسم سگریٹوں کے داغے جانے سے زخمی ہے اور وہ اجتماعی زیادتی کا شکار ہوئی ہے تو انہوں نے بتایا کہ اب تو مقدمہ خارج ہو چکا ہے میں اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ بستی ملوک پولیس نے نہ تو بچی کا اس دوران میڈیکل کروایا نہ فراینزک رپورٹ کے لیے کوئی درخواست لی نہ مقدمے کی کسی بھی قسم کی کارروائی کی نہ بچی کا 164 کا بیان علاقہ مجسٹریٹ کے روبرو کروایا گیا اور یکطرفہ طور پر مقدمہ خارج کر دیا گیا۔ کرن نے روزنامہ قوم کے دفتر میں زار و قطار روتے ہوئے بتایا کہ اس کے ساتھ بہت ظلم ہوا ہے اور کوئی اس کی شنوائی نہیں ہو کر رہا۔ وہ تین دن سی پی او ملتان اور آر پی او ملتان کے دفتر کے دھکے کھانے کے بعد کسی کے کہنے پر روزنامہ قوم کے دفتر آئی ہے ۔اسے ’’قوم ‘‘کے ذریعے انصاف ملنےکی امیدہے۔

شیئر کریں

:مزید خبریں