ملتان (عوامی رپورٹر) روزنامہ قوم میں گزشتہ روز تھانہ بستی ملوک میں اجتماعی زیادتی کا شکار متاثرہ کرن بی بی کے ساتھ ہونے والے مظالم کی خبر شائع ہوئی تو مزید جو سنسنی خیز انکشافات سامنے آئے ہیں ان کے مطابق جعفر حسین جب کرن بی بی کو اغوا کرکے لے گیا اور اس کے ساتھ 26 جنوری 2025 کا شجاع آباد سے پرانی تاریخوں میں جعلی نکاح نامہ تیار کروایا تو اس میں بچی کی عمر 20 سال لکھوائی گئی جبکہ کرن بی بی کی عمر اس وقت 15 سال سے زیادہ نہیں ہے ۔اغوا کے بعد جعفر حسین اپنے ساتھیوں انصر اور عثمان کے ہمراہ نشہ اور مشروب پلا کر کرن بی بی کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنا تارہا اور اس کے جسم کو سگریٹ سے داغتے رہے۔ اب بھی متاثرہ بچی کے کمر اور کندھے پر سگریٹ کے جلنے کے واضح نشانات موجود ہیں۔ اسی طرح متاثرہ بچی کرن بی بی کا والد مظہر اقبال مبینہ طور پر پیسے لے کر جعفر حسین سے صلح کر لیتا ہے جو کہ اس مقدمے کا مدعی نہیں ہے اور 17 اپریل کو طلاق کے اسٹام پیپر تحریر کرا لیتا ہے حالانکہ متاثرہ بچی کے مطابق میں نے کوئی نکاح نہیںکیا ہے بلکہ زبردستی نشہ دے کر مختلف کاغذوں پر مجھ سے انگوٹھے لگوائے گئے ہیں۔ اس کے بعد جب بچی اپنی خالہ کے پاس آتی ہے اور تمام تر حالات بتاتی ہے جس پر تھانہ بستی ملوک کی پولیس اجتماعی زیادتی کا مقدمہ نمبر 796/25 کرن بی بی کی خالہ کی مدعیت میں درج کرتی ہے تو اس وقت بھی ملزمان کی سہولت کاری کے لیے سگریٹ سے داغے جانے اور جسمانی تشدد کی دفعات نہیں لگائی جاتی نہ ہی متاثرہ کا میڈیکل کروایا جاتا ہے اور نہ ہی اسے علاقہ مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے کیونکہ زیادتی کرنے والے ملزمان پیسے دے کر پہلے ہی اس کے والد کو خرید کر اس سے صلح کر چکے ہوتے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ مذکورہ بچی کا وارث اس کا والد نہیں ہے کیونکہ اس بچی کو بہت بچپن میں ہی خالہ کے حوالے کر دیا گیا تھا اسی کو بنیاد بنا کر تفتیشی افسر ظفر ہراج مبینہ طور پر 11 لاکھ روپے میں ڈیل کر کے مقدمہ یک طرفہ طور پر خارج کر دیتا ہے۔ پولیس کے اعلیٰ افسران کے لیے یہ سوال بہت اہم ہے کہ متاثرہ بچی کا والد نہ مدعی ہے اور نہ ہی گواہ پھر اس کی صلح پر مقدمہ کیسے خارج ہو گیا؟ کیا تفتیشی اور ایس ایچ او نے بچی سے صلح ہونے کا پوچھا ؟ نمبر دو: متاثرہ بچی کے بیان کے مطابق اس کے جسم کو سگریٹ سے جلایا گیا تھا کیا اس کا طبی ملاحظہ کروایا گیا اگر نہیں کروایا گیا تو کیوں ؟ اسی طرح گزشتہ روز جب متاثرہ بچی اپنے ورثاکے ساتھ سی پی او ملتان درخواست دینے کے لیے گئی تو بھرتی کے پراسیس کی وجہ سے شدید مشکلات کے بعد جب دفتر پہنچے تو وہاں پر موجود ایک لیڈی سب انسپکٹر نے یہ کہہ کر انہیں واپس بھیج دیا کہ آپ کے والد نے پہلے صلح کر لی ہے اور اب آپ پولیس کا ٹائم ضائع کرنے کے لیے آگئے ہو۔
